معاشرہ عظمت کے حامل انسانوں سے خالی ہوتا جارہا ہے۔ عظمت کے حامل انسان کون ہوتے ہیں؟ اِس سوال کے جواب میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ کسی کے خیال میں سماجی علوم کے ماہرین عظیم ہوتے ہیں کیونکہ وہ معاشرے کو آگے بڑھنے کا راہ دکھاتے ہیں۔ کسی کی نظر میں فطری علوم و فنون کے ماہرین عظیم ہوں گے کیونکہ وہ معاشروں کا ہاتھ تھام کر اُنہیں چھلانگ لگواتے ہیں، کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں! کوئی یہ کہے گا کہ بے سہارا لوگوں کی خدمت کرنے والے انسان عظیم ہوتے ہیں کیونکہ اگر وہ نہ ہوں تو بہت سے بے سہارا مایوس ہوکر موت کو گلے لگالیں۔ کسی کے خیال ہر وہ انسان عظیم ہے جو اپنے ہنر سے دوسروں کو بہرہ مند کرتا ہے، اُنہیں کمانا سکھاتا ہے، خوش حالی تک پہنچانے میں مدد دیتا ہے۔ یہ بات بھی بالکل درست ہے۔ اگر ہنر نئی نسل تک منتقل نہ کیے جائیں تو معاشرے اپنے آپ کو برقرار کیسے رکھیں؟ آج دنیا بھر میں اربوں افراد مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں تو یہ اِس بات صریح ثبوت ہے کہ اُنہیں کسی نہ کسی نے ضرور سکھایا ہوگا، اعتماد بخشا ہوگا، کچھ کمانے کے قابل بننے کی ہمت دی ہوگی۔
قصہ مختصر‘ کسی کو عظیم قرار دینے کے بہت سے پیمانے اور معیارات ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے لیے عظیم انسان دراصل وہ ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر نئی نسل موزوں طریقے عملی زندگی شروع کرنے کا اعتماد پاتی ہے اور ادھیڑ عمر کی نسل ڈھنگ سے جینے کے اطوار سیکھتی ہے۔ مذہبی پیشوا، شعرا، ادیب، مصنفین، تجزیہ کار، فطری علوم و فنون کے ماہرین، اُمورِ حرب سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ پائے کی شخصیات، کھیلوں کی دنیا سے تعلق رکھنے والے، مختلف پیشوں سے وابستہ غیر معمولی افراد‘ سبھی معاشرے کے لیے ناگزیر ہیں اور نئی نسل کے لیے خاص طور پر مفید کیونکہ اُنہی کو دیکھ کر نئی نسل بہت کچھ سیکھتی ہے۔ نئی نسل کو سب سے زیادہ کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے؟ سوچا جاسکتا ہے کہ نئی نسل کو علوم و فنون میں مہارت بھی درکار ہوتی ہے، آگے بڑھنے کی لگن بھی اُن کی ایک بنیادی طلب ہوتی ہے اور بہت کچھ (مال و زر) پانے کی خواہش بھی دلوں میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ بالکل درست! ہر عہد کی نئی نسل کو یہی مطلوب رہا ہے مگر معاملہ اِس سے تھوڑا آگے کا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی نئی نسل کو سب سے زیادہ اعتماد درکار ہوتا ہے۔ اعتماد نہ ہو تو کسی بھی شعبے میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ ممکن نہ ہو۔ ہر شعبہ نئی نسل کی صلاحیت و سکت سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے مگر اِس سے بہت پہلے نئی نسل کو اعتماد کی دولت سے اپنا حصہ درکار ہوتا ہے۔ یہ اعتماد کہاں سے آتا ہے؟
جو لوگ نئی نسل کو اعتماد کی دولت سے سرفراز کرتے ہیں، کچھ کرنے کی لگن سے سرشار ہونے کا موقع عطا کرتے ہیں وہی بڑے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ بڑوں کے بغیر کچھ زیادہ نہیں کر پاتا۔ جب بڑے نہیں رہتے تب کئی کوتاہ قامت بڑے بنے پھرتے ہیں۔ سُر میں گانے والے نہ رہیں تو لوگوں کو بے سُروں ہی پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ ہم زندہ رہنے کی دوڑ میں حصہ لینے پر مجبور ہیں۔ یہ مصروفیت اِتنی بڑی ہے کہ ہم بھول ہی گئے ہیں کہ ہمارے ہاں بڑے ناپید ہوچلے ہیں۔ بڑے یعنی حقیقی عظیم انسان! کوئی بھی انسان حقیقی سطح پر عظیم اُسی وقت ہو پاتا ہے جب وہ اپنے وجود سے پورے معاشرے کو کچھ دیتا ہے، کچھ سکھاتا ہے۔ سکھانے کا عمل تحت الشعور کی سطح پر بھی ہوسکتا ہے۔ لازم نہیں کہ کوئی بڑا کہیں لیکچر دے تو لوگ اُس سے کچھ سیکھیں۔ اُس کا پورا وجود لیکچر دے رہا ہوتا ہے، کچھ نہ کچھ سکھا رہا ہوتا ہے۔ بڑے اپنی گفتگو، حرکات و سکنات اور نشست و برخاست کے انداز سے بھی بہت کچھ سکھارہے ہوتے ہیں۔ اُن کے اشارے بھی بہت کچھ بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر اُن کی گفتگو کے ساتھ ساتھ طرزِ گفتگو بھی اہم قدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی بھی موضوع پر کوئی بھی بول سکتا ہے مگر جب کوئی حقیقی بڑا بولتا ہے تو لوگ متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہتے کیونکہ اُن کے بیان کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔
محمد رفیع مرحوم محض برصغیر کے نہیں بلکہ دنیا کے عظیم ترین گلوکاروں میں سے تھے۔ اُن کا فن آج بھی زندہ ہے۔ جو کچھ اُنہوں نے گایا وہ بس اُنہی کا حصہ تھا۔ کئی آئے اور اپنے آپ کو اُن کے مقابل کچھ ثابت کرنے کی کوشش کی مگر تھوڑی سی کوشش ہی کے بعد اُنہوں نے یہ بھاری پتھر محض چوم کر رکھ دیا۔ محمد رفیع مرحوم میں آخر ایسا کیا تھا کہ کوئی بھی اُن کی ٹکر کا ثابت نہ ہوسکا؟ بات کچھ یوں ہے کہ محمد رفیع محض بڑے گلوکار نہ تھے، بڑے انسان بھی تھے۔ آج بھی جب لوگ اُن کے بارے میں کچھ کہتے ہیں تو اُن کے فن کے بارے میں بعد میں کچھ کہتے ہیں، پہلے تو اُن کی شخصیت کو سراہتے ہیں۔ محمد رفیع کم گو، سنجیدہ اور اپنی ذات تک محدود رہنے والے انسان تھے۔ فلمی دنیا کی تقریبات میں شریک ہونا اُنہیں زیادہ پسند نہ تھا۔ سٹوڈیوز میں بھی وہ زیادہ بات نہ کرتے تھے۔ موسیقار سے جتنی بھی گفتگو ہوتی تھی صرف اُس دُھن کے بارے میں ہوتی تھی جس پر مبنی نغمہ ریکارڈ کرانا ہوتا تھا۔ آرکسٹرا کے ارکان سے بھی وہ زیادہ بات نہ کرتے تھے۔ اپنے کام پر پوری توجہ دیتے تھے۔ جب اُنہیں زیادہ بات کرنا ہی پسند نہ تھا تو پھر بحث کی گنجائش کہاں تھی؟ اُنہوں نے زندگی بھر معاوضے کے معاملے پر کسی بھی پروڈیوسر سے کوئی جھگڑا نہیں کیا۔ مشکلات میں گِھرے ہوئے پروڈیوسرز سے وہ کبھی واجبات کا تقاضا بھی نہ کرتے تھے۔
بالی وُڈ کے سٹارز نے محمد رفیع مرحوم سے بہت کچھ سیکھا۔ اُنہوں نے‘ کچھ کہے بغیر‘ اپنے کردار کی مدد سے انڈسٹری کے لوگوں کو سمجھایا اور سکھایا کہ بڑی کامیابی چاہیے تو سر جھکانا سیکھو، کسی بھی بات پر اَڑنے کی عادت ترک کرو اور اپنے وجود سے کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہو تو ضرور پہنچاؤ اور کسی صلے کی تمنا نہ کرو۔ صِلے کی تمنا کرنا ناگزیر نہیں کیونکر صلہ تو مل کر ہی رہنا ہے۔ ہاں‘ اُس کی شکل کچھ بھی ہوسکتی ہے اور یہی معاملہ ہمیں سمجھنا ہوتا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ محمد رفیع کو اِس دنیا سے رخصت ہوئے 43 برس ہونے کو آئے ہیں اور لوگ آج بھی اُن کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ اگر کوئی اُن کے خلاف ایک جملہ بھی بول بیٹھے تو اُس کی شامت آجاتی ہے!
ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ہاں بھی بڑی شخصیات تھیں۔ یہ شخصیات محض اپنے علم و فن سے بڑی نہ تھیں، ذاتی اوصاف اور کردار سے بھی بڑی تھیں۔ اِن کے نزدیک زندگی کا بنیادی مقصد اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جینا تھا۔ رئیسؔ امروہی مرحوم اِس معاملے میں کچھ زیادہ زندہ دل تھے۔ اُن کے گھر کا دروازہ سب کے لیے کھلا رہتا تھا۔ لوگ حاضر ہوتے، اُن سے گفتگو میں اپنی مشکلات بیان کرتے، راہ نمائی چاہتے اور راہ پاتے۔ رئیسؔ امروہی کی شخصیت میں بڑپن اِس قدر تھا کہ وہ کسی کی حاجت روائی میں بخل یا تساہل سے کام نہ لیتے تھے۔ اُنہوں نے بلا مبالغہ‘ ہزاروں نوجوانوں کو بھرپور اعتماد کے ساتھ جینا سکھایا۔
سلیم احمد مرحوم کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ اُن کے گھر بھی اہلِ علم و فن کے ساتھ ساتھ اُن نوجوانوں کا ہجوم رہتا تھا جو کچھ سیکھنا چاہتے تھے۔ حقیقی بڑا وہ ہے جو جسے اپنے بڑے ہونے کا تو احساس ہو تاہم ساتھ بیٹھے ہوئے چھوٹوں کو چھوٹا ہونے کا احساس نہ ہونے دے۔ یہ وصف رئیسؔ امروہی اور سلیم احمد مرحوم میں بہ درجۂ اتم پایا گیا۔ وہ اپنی کسی بھی بات سے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ اُنہیں اپنے بڑے ہونے کا احساس ہے۔ جس سے گفتگو ہو رہی ہو وہ کوئی نوآموز شاعر و ادیب ہو یا محض عام سا طالب علم، سلیم احمد اُسے چھٹ پن کا احساس ہونے ہی دیتے تھے۔
جو تھوڑے بہت بڑے رہ گئے ہیں وہ محض حصولِ زر کے طلسمات میں الجھ کر اپنا قامت گھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں ایسے بڑوں کی ضرورت ہے جو اپنے ڈرائنگ روم میں چند پسندیدہ افراد کے ساتھ بَتیانے کے بجائے عوام میں آئیں، نئی نسل کو راہ دکھائیں، اُسے حوصلہ اور اعتماد بخشیں۔