ہم بہت کچھ چاہتے ہیں۔ کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ سب کچھ دیکھتے ہی دیکھتے بدل جائے یعنی حالات ایسے موافق ہو جائیں گویا کبھی ناموافق تھے ہی نہیں۔ کسی کے دل میں یہ تمنا انگڑائیاں لیتی رہتی ہے کہ جو رُوٹھے ہوئے ہیں وہ پل بھر میں مان جائیں یعنی ایسا خود بخود ہو جائے، ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے۔ کوئی چاہتا ہے کہ اُس کی دنیا آن کی آن میں بدل جائے۔ کوئی یہ خواہش رکھتا ہے کہ یہ دنیا پلک جھپکتے میں بدل جائے۔ ہم پتا نہیں اور بھی کیا کیا چاہتے ہیں۔ کچھ چاہنے میں کوئی قباحت نہیں۔ ساری قباحت اِس بات میں ہے کہ ہم سبھی کچھ کسی منطقی مرحلے سے گزرے بغیر اور فوری طور پر یعنی آن کی آن میں چاہتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی معاملہ راتوں رات کچھ کا کچھ ہوگیا ہو؟ ہمیں بہت کچھ بہت تیزی سے بدلتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی محض غصِ بصر یعنی آنکھوں کا دھوکا ہے۔ ہر تبدیلی چند عوامل کے طویل عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ قابلؔ اجمیری مرحوم نے کہا تھا :
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کسی بھی صورت ممکن نہیں۔ ہمیں جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہے وہ لازمی طور پر ویسا نہیں ہوتا جیسا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ ہر معاملے کی بہت سی تہیں اور پرتیں ہوتی ہیں۔ اِن تہوں اور پرتوں کو ہٹائے بغیر ہم اصلیت نہیں جان سکتے۔ یہی سبب ہے کہ راتوں رات کسی بھی تبدیلی کے رونما ہونے کی خواہش عبث ہے۔ ایسا ہوتا نہیں اور ہو بھی نہیں سکتا۔ اِس دنیا ہی میں نہیں بلکہ پوری کائنات میں کچھ بھی بلا سبب اور بلا جواز نہیں۔ ہر معاملہ عِلّت و معلول کی ڈوری سے بندھا ہوا ہے۔
کسی اور کی طرف دیکھنے کے بجائے آپ اپنی زندگی کا جائزہ لیجیے۔ کیا آپ کا کوئی ایک معاملہ بھی ایسا ہے جو عِلّت و معلول کی ڈوری سے بندھا ہوا نہ ہو؟ آپ نے کبھی کوئی بھی کام کسی سبب کے بغیر کیا ہے؟ یا آپ کے مقدر میں لکھا ہوا کوئی بھی نتیجہ کبھی کسی سبب کے بغیر واقع ہوا ہے؟ آپ چاہے جتنا بھی غور کریں، اِسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ جو کچھ آپ کرتے ہیں یا جو کچھ بھی آپ کے ساتھ ہوتا ہے اُس کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے اور نتیجہ بھی۔ یہ سب کچھ سمجھتے ہوئے آپ کو آگے بڑھنا ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ آپ سوچے سمجھے بغیر جیے جائیں اور بالآخر تمام معاملات درستی کی منزل تک پہنچ جائیں۔ جس کسی کو بھی آپ کامیاب دیکھتے ہیں اُس نے بہت کچھ سوچا اور سمجھا ہی نہیں، جھیلا بھی ہوتا ہے۔ اچھے نتائج پانے کے لیے اچھا سوچنا اور اچھا کرنا پڑتا ہے۔ اِس مرحلے سے گزرے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے، کچھ بھی نہیں پاسکتے۔ یہ نفسی پیچیدگی کیوں پیدا ہوتی ہے کہ بہت کچھ راتوں رات بدل جائے یا مل جائے؟ اِس کی ویسے تو بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان تساہل پسند اور بے صبرا واقع ہوا ہے۔ وہ فوری نتائج چاہتا ہے اور اِس کے لیے اپنے چند ایک مفادات کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ فوری نتائج حاصل کرنے کی نفسیات انسان کو بہت سے معاملات میں بری طرح الجھا دیتی ہے۔ لوگ زندگی بھر الجھے رہتے ہیں، نقصان بھی اٹھاتے ہیں مگر اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے۔
بہت کچھ ہے جو سکھایا جانا چاہیے مگر سکھایا نہیں جاتا۔ بہت کچھ ہے جو انسان کو سمجھنا ہے مگر وہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا اور کوشش اس لیے نہیں کرتا کہ سمجھنا چاہتا ہی نہیں۔ ہمارے جیسے معاشروں میں لوگ ہر معاملے میں فوری نتائج چاہتے ہیں۔ اِس کا انتہائی بنیادی سبب یہ ہے کہ زیادہ محنت کی عادت نہیں۔ اگر کوئی محنتی بھی ہو تو منصوبہ سازی کے بغیر محنت کرتا ہے۔ محض محنت بھی کچھ نہیں دیتی۔ ذہن کا استعمال ناگزیر ہے۔ حالات و واقعات پر نظر رکھتے ہوئے کی جانے والی محنت ہی انسان کو کچھ دے پاتی ہے۔ ہمارے معاشرے کا مجموعی ماحول فوری نتائج کی خواہش کو پروان چڑھانے والا ہے۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ منصوبہ سازی اور محنت کے بغیر کوئی ٹھوس نتیجہ یقینی نہیں بنایا جاسکتا مگر پھر بھی وہ کسی نہ کسی طور تیز رفتار نتائج چاہتے ہیں۔ معاملہ صرف اِتنا ہے کہ کسی بھی شعبے اور کسی بھی معاملے میں بھرپور کامیابی کے لیے جو محنت کرنا ہوتی ہے وہ محنت ہو نہیں پاتی۔ سچ تو یہ ہے کہ طبیعت حقیقت پسندانہ محنت کی طرف جاتی ہی نہیں۔ لوگ آنکھیں بند کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ایسا کہیں نہیں ہوتا! سفر کے دوران آنکھیں کھلی رکھنا پڑتی ہیں۔ راستے کی دشواریوں کو آسان بنانے کے لیے باہوش رہنا پڑتا ہے۔ گم سم حالت میں سفر کچھ نہیں دیتا۔ یہی معاملہ محنت کا بھی ہے۔ ذہانت کے بغیر کی جانے والی محنت زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوتی۔ آج کسی بھی شعبے میں پیش رفت یقینی بنانے کے لیے متعلقہ معاملات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ہر شعبے میں غیر معمولی پیش رفت کا بازار گرم ہے۔ اگر کسی کو آگے بڑھنا ہے تو اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ متعلقہ شعبے میں ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ جو کچھ بھی کیا جارہا ہوتا ہے اُس سے ہٹ کر کچھ کرنے کی صورت ہی میں بھرپور کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ ہم کتنی کامیابی چاہتے ہیں۔ ہم تو پتا نہیں کیا کیا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم مطلوب کامیابی کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ محض چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ صلاحیت و سکت کو بھی دیکھنا پڑتا ہے اور متعلقہ شعبے کے حالات کو بھی۔ اور پھر صبر آزما انتظار جھیلنے کے لیے بھی تیار رہنا پڑتا ہے۔ ہماری محنت کا نتیجہ فوری برآمد ہو‘ یہ لازم نہیں۔ بہت کچھ ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا۔ زندگی ہمیں بہت کچھ دیتی ہے اور بہت کچھ لیتی بھی ہے۔ یہ لین دین زندگی کا ناگزیر حصہ ہے۔ دنیا کا کام اِسی طور چلتا ہے۔ محض جذبات کی سطح پر کچھ نہیں ہوتا۔ اُتھلے پانیوں جیسی سوچ انسان کو بالآخر اُتھلے پانیوں ہی میں واپس دھکیل دیتی ہے۔ فکر و نظر میں گہرائی اور گیرائی ناگزیر ہے۔ بڑی کامیابی محنت کے ساتھ ساتھ فکر و نظر کی گہرائی و گیرائی کا بھی نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب انسان کسی بھی عمل کے منطقی نتیجے کا انتظار کرنے کی سکت رکھتا ہو۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی ذہنیت انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ ہم زندگی بھر عجلت پسندی کے پھیر میں رہتے ہیں اور اِس کے سنگین نتائج بھی بھگتتے رہتے ہیں۔ کم ہی ہیں جو صبر و تحمل کے ساتھ جینے کی تربیت پاتے ہیں اور اُسے بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
راتوں رات مطلوب نتائج کے حصول کی ذہنیت انسان کے تمام بنے بنائے کھیل بگاڑ دیتی ہے۔ اس ذہنیت کو ترک کرنے ہی میں خیر کا پہلو ہے۔ ہمارا کام ہے سوچنا اور محنت کرنا۔ نتائج خدا کی مرضی پر چھوڑ دینے چاہئیں۔ نتائج کو کھینچ تان کر اپنی طرف لانے سے معاملات بگڑتے ہیں۔ یہ روش انسان کو رفتہ رفتہ مکمل خرابی کی طرف لے جاتی ہے۔ وہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو پاتی۔ آج ہم معاشرے میں ہر طرف عجلت پسندی دیکھ رہے ہیں۔ لوگ دکان کھولتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ راتوں رات دھندا چل پڑے، لوگ ٹوٹ پڑیں، قطار بند ہوکر خریداری کریں۔ ایسا کب ہوتا ہے؟ اگر عوام کو اپنے مفاد کے مطابق کچھ بہتر اور سستا مل رہا ہو تب تو ایسا ممکن ہے۔ اگر کوئی عام سی دکان کھولے اور دوسروں جتنا ہی منافع لے تو کوئی اُس کی طرف کیوں متوجہ ہوگا اور اُسے راتوں رات کامیابی کیوں ملنے لگی؟ ہر شعبہ آپ سے تحمل چاہتا ہے۔ آپ اپنے حصے کا کام کیجیے اور قدرت کو اُس کے حصے کا کام کرنے دیجیے۔ کسی مقصد کے حصول کے لیے برسوں محنت کی گئی ہو تو مواقع کی تلاش میں تھوڑا سا اور وقت لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ جب منزل قریب ہو تب زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔
بلا جواز عجلت پسندی برسوں کی محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔ یہ معاملہ تربیت کا ہے۔ اگر تعلیم کے مرحلے میں تربیت بھی کی گئی ہو تو انسان مستقبل کے لیے خود کو بہتر انداز سے تیار کر پاتا ہے۔ یاد رکھنے کا نکتہ یہ ہے کہ راتوں رات کچھ پانے کی ذہنیت سے نجات پانا ناگزیر ہے۔