بہت کچھ ہے جو ہے اور ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں؛ تاہم ہمیں وہ سب نظر انداز بھی نہیں کرنا بلکہ اُس کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے جینا ہے۔ اِسی میں ہماری آزمائش ہے۔ تاریخ کا ریکارڈ تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ نہیں نا؟ ہمیں تاریخ کو ہر حال میں قبول کرنا ہے یعنی اُس کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے چلنا ہے۔ ماضی بعید کے مناقشوں کا فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں مگر اُن کے وجود سے انکار بھی ممکن نہیں۔ ہر مذہب کے ماننے والوں میں اندرونی اختلافات کی تاریخ رہی ہے۔ ہماری بھی ہے۔ کیا ہم پورے کے پورے تاریخی ریکارڈ کو غلط قرار دے دیں؟ ایسا ممکن نہیں! کیا پورے ریکارڈ کو بالکل درست مان لیں؟ یہ بھی کسی صورت قابلِ قبول امر نہیں۔ تو پھر کیا کریں؟ جو کچھ بھی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے اُسے جوں کا توں مان کر آگے بڑھنا ہے۔بدیہی حقیقت کو جھٹلانا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ جو کچھ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو اُس کے وجود کو تسلیم کرنے ہی میں دانش کا اظہار ہے۔ ہمیں زندگی بھر ایسے بہت سے معاملات کا سامنا رہتا ہے جو ہمارے مطلب کے نہیں ہوتے مگر صرفِ نظر ممکن نہیں۔ بعض صورتوں میں تو ہمیں ناگوار معاملات کو بھی قبول کرنا‘ جھیلنا پڑتا ہے۔ ایسی کسی بھی کیفیت سے دوچار ہوتے وقت صرف اِتنا سوچیے کہ ایسا وقت صرف آپ پر نہیں آتا، دوسروں کے لیے بھی قدرت کی طرف سے ایسی آزمائشیں آتی رہتی ہیں۔ دنیا کا کاروبار اِسی طور چلتا ہے۔
کسی بھی انسان کو سب کچھ اپنی مرضی کا نہیں ملتا۔ کچھ اپنی مرضی کا ہوتا ہے اور کچھ دوسروں کی مرضی کا جھیلنا پڑتا ہے۔ ہاں‘ حدود کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی معاملے کو کہاں تک جھیلنا ہے۔ دوسروں کے معاملات کو اپنی زندگی میں مداخلت کا موقع ایک خاص حد تک دیا جاسکتا ہے۔ یہ حد کیا ہونی چاہیے اِس کا فیصلہ بھی ہر انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ کوئی آپ کے معاملات میں دخل دے تو سکتا ہے مگر صرف اِس صورت میں کہ آپ اُسے ایسا کرنے کی اجازت دیں۔ ہمیں زندگی بھر ایسے لوگوں سے تعلق یا رابطہ رکھنا پڑتا ہے جو مکمل طور پر ہمارے مطلب کے نہیں ہوتے۔ ہر انسان میں چند ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو ہمیں پسند ہوتی ہیں مگر دوسری طرف چند ایک باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو ہمیں کسی حال میں گوارا نہیں ہوتیں مگر اُنہیں قبول کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم کسی بھی ناپسندیدہ شخص کو مکمل طور پر مسترد کرنے کی روش پر گامزن رہیں تو بہت جلد خود کو کسی پہاڑ کی چوٹی پر جھونپڑی میں پائیں گے کیونکہ معاشرے میں تو سب سے ترکِ تعلق کے بعد ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں ہوسکتا۔
ہمیں زندگی بھر ایسے بہت سے لوگوں سے میل جول رکھنا پڑتا ہے جو بات بات پر ہم سے اختلافِ رائے کا اظہار کرتے ہیں اور کبھی کبھی مخالفت کو مخاصمت کی حد تک بھی لے جاتے ہیں۔ اُن سے معقول طریقے سے معاملت ہی ہمارا اصل امتحان ہے۔ یہ نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اِس جہاں میں سب کچھ ہماری مرضی کا نہیں ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا۔ ہمیں ایسے بہت سے لوگوں سے رابطہ ہی نہیں، تعلق بھی اُستوار رکھنا پڑتا ہے جو واضح طور پر ہمارے خلاف جاتے ہیں۔ اُن کا یہ طرزِ عمل بلا جواز نہیں ہوتا۔ معاملہ کبھی عمل کا ہوتا ہے اور کبھی ردِعمل کا۔ جس کے مفادات متاثر ہو رہے ہوں اُس کا سیخ پا ہونا فطری امر ہے۔ ہر انسان اول و آخر اپنے مفادات ہی کو تو اولیت دیتا ہے۔ مفادات پر ضرب پڑنے کی صورت میں بدکنا اور بھڑکنا غیر فطری نہیں؛ تاہم اِس معاملے میں بھی احتیاط لازم ہے کیونکہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے کی صورت میں زیادہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ دُنیا کو ٹھکرایا بھی نہیں جاسکتا اور مکمل طور پر اِس کے تابع بھی نہیں ہوا جا سکتا۔ ہمیں بین بین چلنا ہوتا ہے۔ دنیا کو اپنانا بھی ہے اور اِس کا مطیع و فرمانبردار بھی نہیں ہونا۔ ہر معاملے میں اعتدال ہی ہمارے لیے بہترین حکمتِ عملی ہے۔ جس نے یہ راز جانا وہ کامیاب ہوا۔ اعتدال کی راہ پر چلتے ہوئے ہی ہم اپنی مطلوب کامیابی کو زیادہ آسانی سے یقینی بناسکتے ہیں۔
ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے معاملت۔ کس سے کس طور معاملت کرنی ہے اِسی میں ہماری اخلاقی اور پیشہ ورانہ تربیت کا امتحان ہے۔ یہ تو طے ہے کہ کسی بھی انسان کو ہمیشہ صرف ایسے لوگ نہیں مل سکتے جو ہر معاملے میں اُس کی پسند و ناپسند کا خیال رکھیں اور موافقت کا بازار گرم رکھیں۔ ہر انسان کو ناموافق رویوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایسے میں ردِعمل بھی اُتنا ہی ہونا چاہیے جتنا ہونا چاہیے۔ یہ بھی بالکل سامنے کی بات ہے کہ بعض افراد کسی جواز کے بغیر کسی کو بھی ناپسند کرتے ہیں اور ہر معاملے میں اُس کے خلاف جانا پسند کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اُن کے مزاج یا فکری ساخت کا حصہ ہوتا ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، ایسے لوگوں کا قبلہ درست کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ راہِ راست پر آنا ہی نہیں چاہتے۔ جو اپنی اصلاح پر مائل نہ ہو اُس کی اصلاح کوئی نہیں کرسکتا۔ آپ کی زندگی میں بھی کچھ لوگ ایسے ضرور ہوں گے جو ہر معاملے میں آپ کے خلاف جانا پسند کرتے ہوں گے۔ کسی بھی صورتِ حال میں اُن کی پوری کوشش ہوتی ہوگی کہ کسی نہ کسی طور آپ کو قصور وار ثابت کرکے دم لیں۔ آپ سے خار کھانے والوں میں نمایاں تعداد اُن کی ہوسکتی ہے جن کے مفادات کو آپ کی طرزِ فکر و عمل سے نقصان پہنچا ہو یا نقصان پہنچنے کا امکان ہو۔ اگر کسی کے مزاج میں مخالفت و مخاصمت گھر کرلے تو پھر وہ ہر معاملے میں صرف خلاف جانے کا سوچتا ہے۔ آپ ایسے لوگوں میں گھر گئے ہوں تو پریشان ہونا فطری امر ہے مگر پریشان ہونے کی بھی ایک حد ہے۔ اگر آپ ناموافق بات کرنیوالوں کی ہر بات سے پریشان ہو اُٹھیں گے تو وہ قدم قدم پر آپ کے لیے مشکلات پیدا کریں گے، آپ کا ناک میں دم کرنے کا سوچتے رہیں گے۔
اگر کسی نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہر حال میں آپ کے خلاف ہی جانا ہے وہ تو خلاف ہی جائے گا۔ مزاج کی کجی انسان کو کسی ٹھوس جواز کے بغیر بھی مخاصمت پر اُکساتی رہتی ہے۔ اپنی زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ منفی سوچ کے حامل بہت سے انسان آپ کے حصے میں بھی آئے ہوں گے۔ آپ کبھی کبھی معاملات کی الجھن دیکھ کر گھبرا بھی جاتے ہوں گے۔ ایسی گھبراہٹ فطری امر ہے۔ اِس معاملے میں دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ زندگی اِسی طور ہمارا امتحان لیتی رہتی ہے۔ یکسر مخالف رویہ رکھنے والوں کو استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح پھینکا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ انسان ہیں۔ ہاں‘ اُن سے معاملت کا ڈھنگ آنا چاہیے۔ یہ معاملت ہی اِس بات کا تعین کرتی ہے کہ ہم کسی بھی معاملے میں کس حد تک کامیاب ہوسکیں گے۔
جن کے ذہن میں صرف مخالفت اور مخاصمت بھری ہوئی ہو وہ ہر معاملے میں اپنی سوچ کے مطابق چلتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف دینے میں راحت محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا حق ہے کہ اُن سے برائے نام تعلق رکھا جائے اور اُنہیں کسی بھی معاملے میں زیادہ لفٹ نہ کرائی جائے۔ منفی سوچ رکھنے والوں سے نمٹنے کا معقول ترین طریقہ یہی ہوسکتا ہے۔ جنہیں مخالفت کرنی ہے اُنہیں صرف مخالفت کرنی ہے۔ آپ کا دل برداشتہ ہو جانا اُن کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ جنہوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ آپ کی ہر بات سے کوئی اور ہی مطلب برآمد کرنا ہے وہ آپ کی خاموشی کو بھی گفتگو ثابت کرکے دم لیں گے!
ہمیں خود بھی سمجھنا ہے اور نئی نسل کو بھی سکھانا ہے کہ زندگی لایعنی قسم کے خیالات اور معاملات کی نذر کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے اور اِس نعمت کا حق ادا کرنے کی ایک اچھی کوشش یہ ہوسکتی ہے کہ منفی سوچ رکھنے والوں سے دور رہتے ہوئے اپنے آپ کو مثبت طرزِ فکر و عمل کے ذریعے آگے بڑھاتے رہنے کے بارے میں سوچا جائے۔ کسی کے مخالفت پر مبنی رویے سے دل برداشتہ ہونے کی عادت پروان چڑھ جائے تو آپ جی چکے۔ یاد رکھیے مخالفانہ معاملات دریا کی مانند ہیں اور آپ کو زندگی بھر یہ بہتا دریا پار کرتے رہنا ہے۔