"MIK" (space) message & send to 7575

خواب اور حقیقت

خواب دیکھنا بہت آسان ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ خواب دیکھنا اِس قدر آسان کیوں ہے؟ سیدھی سی بات ہے، خواب دیکھنے کے لیے کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ کسی بات کی خواہش کرنا بھی مفت ہی ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی بات کی، کسی بھی چیز کی خواہش کرسکتے ہیں۔ اِس میں وقت لگتا ہے نہ پیسہ اور نہ ہی محنت۔ یہی سبب ہے کہ لوگ مرتے دم تک خواہشات کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔
زندگی محض خواہشوں اور خوابوں کے سہارے گزاری جاسکتی ہے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ گزاری تو جاسکتی ہے مگر ایسی زندگی کسی کام کی ہوتی نہیں۔ آپ اپنے قریب ترین ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے جو مختلف خواہشات کے اُلٹ پھیر ہی میں زندگی برباد کر بیٹھے ہوں گے اور اب رو رہے ہوں گے۔ جب حقیقت پسندی کا دامن چھوڑ دیا جائے اور محض خواہشات کے دائرے میں گھومتے رہنے کو زندگی سمجھ لیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ محض خواہشات کو پروان چڑھاتے رہنے سے کچھ خاص حاصل نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی لگن کو بھی پروان چڑھایا گیا ہے یا نہیں۔ عام آدمی بہت کچھ پانا چاہتا ہے۔ وہ دن رات مختلف حوالوں سے کامیابی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف سوچتا رہتا ہے، کرتا کچھ نہیں۔ کسی بھی خواہش کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ تو کیا نہیں جاتا۔ ایسے میں کوئی بھی خواہش کس طور حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے؟
خواب تمام ہوتا ہے، رات گزرتی ہے، دن نکلتا ہے تو سب کچھ کافور ہو جاتا ہے۔ انسان جب خود کو دن کی روشنی اور تپش کے مقابل پاتا ہے تو رات کی ٹھنڈک میں دیکھا ہوا خواب بہت دور کی منزل دکھائی دیتا ہے۔ خواہش اور حقیقت کا فرق سمجھنے کی کوشش نہ کرنے کی صورت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی بھی کامیاب انسان کو دیکھ کر اُس کی طرح کامیاب ہونے کی خواہش دل میں انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے، یا یوں کہیے کہ عمومی سطح پر کم و بیش ہر انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی کامیاب انسان کو دیکھتا ہے تو اُس جیسا بننے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اکثریت کا حال یہ ہے کہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتی کہ آخر بننا کیا ہے، کرنا کیا ہے۔ جب خواہشات غیر منطقی طور پر بہت زیادہ اور شدید ہوں تب انسان کے حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ بہت سوچنے پر بھی ڈھنگ سے کچھ نہیں سوچ پاتا اور کسی نہ کسی طور اپنے دل کو محض طفل تسلیاں دیتا رہتا ہے۔ بیشتر کے معاملے میں یہ کھیل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ خالص منطقی انداز سے سوچنے کی صورت میں زندگی معقول طریق سے بسر ہوتی ہے۔ یہ معقول طریق چونکہ انسان کا اپنا طے کردہ ہوتا ہے اس لیے معاملات بالعموم منطقی انداز سے آگے بڑھتے ہیں۔ ہر غیر منطقی خواہش انسان کو شدید الجھن سے دوچار کرتی ہے۔ جب ہم اپنی صلاحیت و سکت سے بہت آگے کی چیز کی خواہش کر بیٹھتے ہیں تب ذہن الجھ جاتا ہے۔ یہ سوچنے کی توفیق کم ہی لوگوں کو عطا ہوتی ہے کہ خواہش غیر منطقی نہیں ہونی چاہیے۔ ہر انسان کو اپنی صلاحیت و سکت کی حدود کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔ وہ کسی اور کے مقابلے میں اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا۔ ایسے میں اگر وہ کسی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہوکر حقیقت پسندی کی راہ سے ہٹ جائے اور غیر منطقی انداز سے بہت کچھ پانے کی تمنا کرے تو اِسے محض حماقت سے تعبیر کیا جائے گا۔
ایسا کیوں ہے کہ لوگ کسی بھی معاملے میں کوئی خواہش پروان چڑھاتے وقت منطقی حدود کو بھول جاتے ہیں؟ اِس کی بہت سے وجوہ ہوسکتی ہیں۔ عمومی وجہ یہ ہے کہ لوگ تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔ اگر چھوٹی عمر سے خواہشات کے معاملے میں تربیت دی گئی ہو اور منطقی انداز سے سوچنا سکھایا گیا ہو تو انسان بڑی عمر میں بے جا خواہشات کو پروان چڑھانے سے گریز کرتا ہے۔ والدین اور خاندان کے بزرگ اس حوالے سے نئی نسل کی تربیت میں کلیدی کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ کردار اُنہیں پوری دیانت سے ادا کرنا چاہیے۔ ہاں‘ اِس کے لیے پہلے مرحلے میں خود اُن کا تربیت یافتہ ہونا ناگزیر ہے!
نئی نسل کو کسی بھی دوسرے معاملے کے مقابلے میں خواب اور حقیقت کا فرق سمجھانے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ محض اِتنا کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ خواب خواب ہوتے ہیں اور حقیقت حقیقت ہوتی ہے۔ بچوں کو یا پھر عنفوانِ شباب کی دہلیز پر قدم رکھنے والوں کو خاصے وقیع انداز سے سمجھانا ہوتا ہے کہ حقیقت ٹھوس ہوتی ہے اور خواب کانچ سے بھی زیادہ نازک۔ احتیاط نہ برتنے پر خوابوں کو ٹوٹنا ہی ہوتا ہے۔ ایک ناقابلِ تردید حقیقت یہ بھی ہے کہ کانچ سے بھی نازک خواب خود ٹوٹ جاتے ہیں جبکہ حقیقت انسان کو توڑ دیتی ہے! حقیقت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ ہمیں تبدیل ہونا پڑتا ہے۔ جو کچھ قدرت کے نظام میں جس مقام پر ہے وہ اُسی مقام پر رہتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرتے ہیں۔ بدلنا ہمیں ہے، حقیقت کو نہیں۔ کسی بھی معاشرے میں حقیقت پسندی سے گریز کی راہ پر گامزن رہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ اکثریت ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ انسان جو کچھ پاسکتا ہے اُس سے کہیں زیادہ پانے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی خواہشات کے دائرے میں گھومنے والوں کی تعداد کم نہیں۔ ہاں‘ اِتنا فرق ضرور ہے کہ وہاں معاملات کو حقیقت پسندی کی عینک لگاکر دیکھنے کا رجحان زیادہ قوی ہے‘ اس لیے لوگ کسی بھی خواہش کو پروان چڑھانے کے معاملے میں خالص غیر منطقی انداز سے آگے نہیں بڑھتے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے اپنے آپ کو اس قدر منظم کیا ہے کہ اگر کوئی ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتا ہے تو اُس کے لیے اپنے آپ کو آزمانے کا مرحلہ زیادہ جاں گُسل نہیں ہوتا۔
ہمارے خطے کی عمومی نفسیات یہ ہے کہ لوگ جو کچھ دیکھتے ہیں اُسی کی تمنا کرنے لگتے ہیں۔ فلمیں دیکھتے ہیں تو خود کو ہیرو کی طرح ہر فن مولا سمجھنے لگتے ہیں۔ مختلف شعبوں کے کامیاب ترین افراد کو دیکھتے ہیں تو اُن جیسے بننے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ کسی کو جتنی بھی کامیابی نصیب ہوئی ہے سب برسوں کی محنتِ شاقّہ کا نتیجہ ہے۔ لوگ محنت سے گھبراتے ہیں اور کامیابی کی تمنا کرتے ہیں۔ یہ تضاد اچھی خاصی زندگی کو سوہانِ روح بنادیتا ہے۔ خوابوں اور حقیقت کے درمیان توازن ناگزیر ہے۔ حقیقت چونکہ تبدیل نہیں ہوسکتی اِس لیے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ حقیقت سے ہم آہنگ رہنے کے لیے کرنا ہے۔ کسی بھی چیز‘ کسی بھی بات کی خواہش کی جاسکتی ہے؛ تاہم اُسے حقیقت کا روپ دینے کی مہارت، سکت اور لگن بھی ناگزیر ہے۔ بیشتر کا حال ہے کہ مطلوب مہارت پروان چڑھائے بغیر بہت کچھ پانے کی تمنا کر بیٹھتے ہیں۔ ایسی ہر تمنا ذہن کو خطرناک حد تک الجھاتی ہے اور بالآخر انسان وہ بھی نہیں کر پاتا جو وہ کرسکتا ہے۔
نئی نسل کو یہ نکتہ خصوصی طور پر ذہن نشین کرانا چاہیے کہ جو کچھ بھی سوچنا ہے عقل اور منطق کے دائرے میں رہتے ہوئے سوچنا ہے۔ ایسی ہر خواہش سے گریز لازم ہے جو صلاحیت و سکت کی حد سے پرے ہو۔ جو کچھ انسان سے ہو ہی نہیں سکتا اُس کے بارے میں سوچنا فضول ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ انسان مہم جُو طبیعت کا ہو تو عام آدمی سے کہیں زیادہ پاتا ہے مگر یہ بات کوئی نہ بھولے کہ ایسی حالت میں بھی وہی کچھ مل پاتا ہے جس کی صلاحیت و سکت پائی جاتی ہو۔ کوئی بھی انسان اپنی صلاحیت و سکت کی حدود سے آگے جاکر کچھ نہیں پاتا۔ ایسی ہر کوشش بالعموم سادہ سے معاملات کو بھی بگاڑ دیتی ہے۔ حقیقت بہت تلخ ہوتی ہے۔ اُس کی تلخی زندگی کے عمومی ذائقے کو بگاڑ دیتی ہے۔ کیا اِس کا تدارک ممکن ہے؟ یقینا۔ ہر حقیقت کی تلخی کم کرنے کا آسان ترین نسخہ ہے حقیقت پسندی۔ ہر بدیہی حقیقت کو کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ تسلیم کرنا انسان کو شخصیت کے استحکام کی طرف لے جاتا ہے۔ خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی ہر کوشش حقیقت پسندی کی مظہر ہونی چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں