تقدیر کا معاملہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ آ بھی نہیں سکتا۔ کیونکر آئے کہ قدرت نے بہت سے معاملات میں زیادہ سوچنے اور گمان پالنے سے منع فرمایا ہے۔ تقدیر کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کس معاملے میں کیا فیصلہ کر رکھا ہے یہ اسی ذاتِ بابرکات ہی کو معلوم ہے۔ ہم صرف اندازے لگاتے ہیں اور وہ بھی صحتِ نیت و فکر کے ساتھ۔ محض خوش گمانی یا بدگمانی کی بنیاد پر کوئی اندازہ قائم کرنا کسی بھی درجے میں مستحسن نہیں۔ تقدیر میں کیا ہے اور کیا نہیں یہ صرف خالقِ حقیقی کو معلوم ہے۔ ہمارا کام ہے اپنا کام کرنا اور وہ بھی پورے اخلاصِ نیت کے ساتھ۔ انسان اگر نیت کی خرابی سے بچتے ہوئے کچھ کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اچھا ہی اجر ملے گا، ان شاء اللہ!
تقدیر کے معاملات کو سمجھنا چونکہ انسانی ذہن کے اختیار کی بات ہے ہی نہیں اِس لیے بیشتر کا یہ حال ہے کہ جب تقدیر کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں تو کچھ کا کچھ سوچنے لگتے ہیں، گمان پالنے لگتے ہیں اور یوں اپنے لیے خود ہی مشکلات کھڑی کرلیتے ہیں۔ تقدیر کے حوالے سے گمان پالنا ناگزیر محسوس ہو تو انسان کو خوش گمان رہنا چاہیے۔ شکیلؔ بدایونی نے خوب کہا ہے ؎
اے دینے والے! تو نے تو کوئی کمی نہ کی
اب کس کو کیا ملا‘ یہ مقدر کی بات ہے
کسے کیا ملتا ہے، یہ واقعی مقدر کی ہے۔ مقدر کا تعین کس چیز سے ہوتا ہے یہ سوچنا اور سمجھنا انسان کا کام نہیں۔ ہاں‘ انسان کے اختیار میں خوش گمانی و اخلاصِ نیت کے ساتھ معقول اندازہ لگانا ضرور ہے۔ اِس کی بھی حدود مقرر ہیں۔ انسان کو اندازے بھی اُتنے ہی لگانے چاہئیں جن سے ایمان پر زد نہ پڑتی ہو۔ قدرت کے فیصلوں کے بارے اِس طور سوچنا ہے کہ اُن کی حکمت کُھلے۔ اگر خرابی یا کمزوری تلاش کرنے کی نیت ہو تو ایمان گیا سمجھیے اور پھر قدرت کی پکڑ سے بچنے کی ہر راہ مسدود ہوئی جانیے۔
اِس دنیا میں کسی کو کیا ملتا ہے؟ جو مقدر میں ہو‘ اور کیا؟ بالکل درست! مقدر میں کیا ہوتا ہے؟ یہ صرف اللہ تعالیٰ جانتے ہیں۔ کیا قدرت کسی کو بھی کسی جواز کے بغیر نوازتی ہے؟ قدرت کا نظام چونکہ عدل پر مدار کرتا ہے‘ اِس لیے یہ بعید ہے کہ کچھ بھی عدل کے بغیر ہو۔ جب ہم کہتے ہیں کہ قدرت کی مرضی کہ کسی کو بھی نواز دے تو دراصل ہمیں کہنا یہ ہوتا ہے کہ قدرت کسی کو بھی اُس کے ارادہ و نیت کے مطابق نوازتی ہے۔ وہ مخلوقات یعنی انسانوں کے معاملے میں بالکل غیر جانبدار ہے۔ کسی بھی انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے وہ دراصل اُس کی اپنی نیت کا آئینہ دار اور نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ جس طور اعمال کا مدار نیتوں پر ہے بالکل اِسی طور قدرت کی نوازش کا مدار بھی نیتوں ہی پر ہے۔ قدرت جب کسی کو اصلاحِ نفس کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے تیار پاتی ہے تو اُسے صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرما دی جاتی ہے۔ بالکل اِسی طور اگر کوئی اپنا معاملہ خراب کرنے پر تُلا ہو اور ہدایت پانے کے لیے تیار ہی نہ ہو تو قدرت اُسے اس کی مرضی کی راہ پر چلنے دیتی ہے۔ اِسے آپ ڈھیل بھی کہہ سکتے ہیں۔ بہر کیف، قدرت کی طرف سے کچھ بھی بلا جواز نہیں ہوتا کہ عدل کا تقاضا یہی ہے۔ تقدیر کا اِتنا سا ہی معاملہ ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر کسی نے گمراہ رہنا اور تباہی کے راستے پر گامزن رہنا طے کرلیا ہے تو قدرت کی طرف سے ہدایت نہیں ملتی۔ یہی تقدیر ہے۔ اِسی طور اگر کسی کی نیت میں کماحقہٗ اِخلاص ہے اور وہ اپنے ساتھ ساتھ دنیا کا بھی کچھ بھلا کرنا چاہتا ہے یعنی بہبودِ عام کو حِرزِ جاں بنانے کی ذہنیت کا حامل ہے تو قدرت اُس کے لیے پیش رفت کی گنجائش ضرور پیدا کرے گی۔ یہ بھی تقدیر ہی ہے۔
تقدیر کا ایک انتہائی نمایاں اور قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ زندگی ہمیں خواہش کے مطابق نہیں بلکہ قابلیت کے تناظر میں نوازتی ہے۔ خالص دُنیوی نقطۂ نظر سے سوچیے اور دیکھیے تو کسی بھی انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کا وہ حقیقی معنوں میں مستحق ہوتا ہے۔ دُنیوی معاملات میں کسی کو بھی اُس کی قابلیت سے ہٹ کر کچھ نہیں دیا جاسکتا۔ اگر ایسا کیا جائے تو اِسے محض ظلم ہی کہا جائے گا۔ ظلم صرف مار پیٹ کا نام نہیں۔ عربی لغات کی رُو سے کسی بھی معاملے یا چیز کو اُس کے اصل مقام سے ہٹاکر غیر موزوں مقام پر رکھنا بھی صریح ظلم ہے۔ اِس تعریف کی رُو سے ہم کم و بیش روزانہ ہی ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ کسی کو اُس کے استحقاق سے ہٹ کر یعنی کم یا زیادہ نوازنا محض ظلم ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ معاشرے کے لیے خرابی پیدا کرتے ہیں۔ جو لوگ استحقاق سے بڑھ کر کچھ وصول کرتے یا بٹورتے ہیں وہ بھی اچھی خاصی قباحت کے موجب بن رہے ہوتے ہیں۔
دنیا کا ہر معاملہ موزونیت سے شروع ہوکر موزونیت پر ختم ہوتا ہے۔ جب بھی ہم موزونیت کو نظر انداز کرتے ہیں کچھ نہ کچھ خرابی پیدا ہوتی ہے جو پنپتے پنپتے بحران میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ موزونیت یعنی جو چیز جس جگہ ہونی چاہیے وہیں ہونی چاہیے یا جو شخص جس کام کی اہلیت رکھتا ہو وہی کام کرے اور دوسروں کے معاملات کو خراب کرنے سے مجتنب رہے۔ یہ دنیا کسی بھی انسان کو موزونیت کے مطابق ہی نوازتی ہے۔ ہم بہت کچھ پانا چاہتے ہیں مگر وہ سب کچھ ہمیں ملتا نہیں۔ مل ہی نہیں سکتا۔ کسی بھی انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کا وہ مستحق یا اہل ہوتا ہے۔ اِس اصول پر عمل پیرا رہنے ہی سے دنیا درست حالت میں رہتی ہے۔ اگر ہم کسی کو اُس کی اہلیت سے ہٹ کر کچھ دیں تو ایسا کرنا دراصل کسی نہ کسی کے معاملے میں ڈنڈی مارنے جیسا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ عمل حیرت انگیز طور پر انتہائی خطرناک شکل بھی اختیار کرلیتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی کو اُس کے استحقاق سے زیادہ نواز رہے ہوتے ہیں اور ہمیں کچھ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ایسا کرنے سے معاملات کتنی خرابی کی طرف جائیں گے۔ پھر جب خرابی کے نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں تو ہم سکتے کی سی حالت میں آ جاتے ہیں۔
کسی بھی کامیاب معاشرے کے معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُنہوں نے جو کچھ بھی پایا ہے وہ اہلیت کے مطابق نوازنے کی ذہنیت کو پروان چڑھانے کی بدولت پایا ہے۔ ہر کامیاب معاشرے میں آپ کو اہلیت کے مطابق نوازنے کی صفت نمایاں دکھائی دے گی۔ مغرب سمیت تمام ہی کامیاب معاشروں نے میرٹ کی بنیاد پر نوازن کا کلچر دیا ہے۔ یہ کلچر انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بناتا ہے۔ امریکہ اور یورپ نے بے مثال ترقی دوسرے بہت سے معاملات کے ساتھ ساتھ اِس اصول سے بھی ممکن بنائی ہے کہ کسی بھی انسان کو اُس کے استحقاق سے زیادہ یا کم نہ نوازا جائے۔ اِن معاشروں نے معاملات کو اُن کے اصل مقام تک رکھنا سیکھا اور دنیا کو بھی یہ بات سکھائی۔ آج پوری دنیا بھرپور دُنیوی ترقی یقینی بنانے کی خاطر مغرب کے ماڈل کو اپنانے کے لیے بے تاب دکھائی دیتی ہے۔
کسی بھی انسان کو نوازنے کے معاملے میں ہمیں وہی اصول اپنانا چاہیے جو قدرت کی کارفرمائی میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ قدرت کا نظام یہ ہے کہ ہر انسان کو اُس کی حقیقی اہلیت اور نیت کے اِخلاص کی بنیاد پر نوازا جائے۔ دُنیوی اُمور میں کسی کی نیت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ ہاں‘ اہلیت یا موزونیت کو پرکھا جاسکتا ہے۔ اہلیت اور موزونیت کی بنیاد پر نوازنا ہی معاشرے کو پروان چڑھاتا ہے کیونکہ کسی کو اہلیت سے کم نوازیے تو اُس میں باغیانہ جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اگر کسی کو زیادہ نوازیے تو دوسروں میں حسد اور رقابت کا پیدا ہونا لازم ہے۔
معاشرتی اور معاشی اعتبار سے دنیا کو زیادہ پُرکشش اور پُررونق بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ صرف اور صرف اہلیت کی بنیاد پر صلہ دیا جائے۔ حقیقی ہم آہنگی اِسی طور پیدا ہوتی ہے۔ اہلیت و موزونیت کو بکھیڑا سمجھنے کے بجائے بنیادی اصول کا درجہ دیا جانا چاہیے۔