مصیبت اور پریشانی سے بدحواس ہونا اور بھاگ نکلنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ ہم سب بحرانی کیفیت سے گھبرا جاتے ہیں، جان چھڑانے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ جب اول اول ہمارے سامنے آتا ہے تو حواس مختل ہو جاتے ہیں، ذہن معاملات کو سمجھنے اور کچھ سوچنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ اِس لیے نہیں ہوتا کہ ہم ایسا نہیں چاہتے۔ کیا ہر پریشانی اِس لیے ہوتی ہے کہ بدحواس ہوکر مایوسی کی راہ پر گامزن ہوا جائے؟ کیا کوئی بھی مسئلہ صرف اِس لیے ہوتا ہے کہ ہم اُس کے آگے ہتھیار ڈال دیں؟ کیا ایسا کرنے سے واقعی معاملات درست ہو جاتے ہیں؟ کوئی بھی بحرانی کیفیت محض نظر انداز کرنے سے ختم ہو جاتی ہے؟ یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوال ہم سبھی کے ذہنوں کے پردے پر ابھرتے ہیں مگر جب ہم متوجہ نہیں ہوتے تو وہ دب جاتے ہیں۔
ہم سب یہی کہنا اور سننا چاہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے، کہیں کچھ گڑبڑ نہیں۔ اگر معاملات میں کچھ خرابی ہو بھی تو ہم سوچنا اور کہنا نہیں چاہتے۔ یہ تو فرار کی ذہنیت ہوئی! ہمارے ذہن میں ہر وقت یہ سوچ گردش کرتی رہتی ہے کہ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں کوئی الجھن ہمارا راستہ نہ روکے، کوئی پریشانی ہماری توجہ میں انتشار پیدا نہ کرے، ہم ہدف سے نظر ہٹائے بغیر چلتے رہیں۔ یہ خواہش کسی بھی درجے میں بُری نہیں کہ ہماری زندگی میں کوئی بڑی الجھن نہیں ہونی چاہیے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جب کوئی الجھن درپیش ہو تو ہم بدحواس ہوجائیں، ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ دیں۔ ہم کسی بھی مشکل صورتِ حال سے بدحواس کیوں ہو جاتے ہیں؟ سیدھی سی بات ہے، جب بھی کوئی الجھن رونما ہوتی ہے تب ہمیں آگے بڑھنے کی راہ نہیں ملتی اور ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کی گاڑی اٹک گئی ہے۔ یہ سوچ کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ کوئی بھی مسئلہ ہماری راہ میں دیوار بنتا ہے۔ اِس حوالے سے ایک خاص نکتہ غور طلب ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے ہر وہ صورتِ حال زیادہ پریشان کن ہوتی ہے جو اُس کی اپنی غفلت، لاپروائی، خامی یا کمزوری کی پیدا کردہ ہو۔ حالات پلٹا کھاکر ہمارے لیے کوئی بڑی مشکل پیدا کریں تو ہزار الجھن اور بدحواسی کے باوجود دل و دماغ کو اس بات کا اطمینان رہتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارا پیدا کردہ نہیں‘ ہم قصور وار نہیں۔ جب کسی بھی ناموافق صورتِ حال کے ہم ذمہ دار نہیں ہوتے تب ذہن پچھتاوے کی آگ میں جلنے کے بجائے مسئلے کا حل سوچنے پر مائل ہوتا ہے۔ اگر اپنی کوتاہی سے کچھ غلط ہوگیا ہو تو ذہن کچھ زیادہ الجھ جاتا ہے کیونکہ پچھتاوے کا احساس ہر وقت ہماری فکری ساخت کو اُسی طرح نوچتا رہتا ہے جس طرح کوئی گوشت خور جانور پیٹ بھرنے کے لیے کمزور جانور کو بھنبھوڑتا ہے!
حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ایک طرف ہم سے کچھ لیتی ہیں اور دوسری طرف ہمیں کچھ دیتی بھی ہیں۔ یہ دنیا اِسی طور چلتی آئی ہے۔ حالات کے پلٹا کھانے سے پیدا ہونے والے مواقع سے مستفید ہوکر لوگ بن بھی جاتے ہیں۔ جو مواقع شناخت کرنے میں ناکام رہیں وہ بگڑ جاتے ہیں، شدید خسارے سے دوچار ہوتے ہیں۔ جب سب کچھ ٹھیک چل رہا ہو تب کیا ہوتا ہے؟ کچھ بھی نہیں! جب حالات میں کوئی بھی نتیجہ خیز تبدیلی رونما نہ ہو رہی ہو سب کچھ نارمل سمجھا جاتا ہے۔ نارمل معاملات کسی بھی انسان کو کچھ خاص نہیں دیتے۔ معمول کی زندگی انسان کے لیے بہت حد تک راحت بخش ہوتی ہے مگر اِس سے شخصیت کے پنپنے کی راہ مسدود ہو جاتی ہے۔ کسی بھی انسان کو آگے بڑھنے کی راہ مسائل سے ملتی ہے۔ مسائل کو حل کرنے کی کوشش انسان کو بلندی کی طرف لے جاتی ہے۔ نارمل حالات کے تحت یعنی معمول کی زندگی بسر کرنے میں آسانی ضرور ہے مگر ایسے میں انسان کچھ نیا سیکھتا ہے نہ کرتا ہے۔ وہ ایک لگی بندھی ڈگر پر چلتا رہتا ہے۔ یہ ڈگر کسی خاص منزل کی طرف نہیں لے جاتی۔ کوئی بھی بحرانی کیفیت انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب وہ اُس بحرانی کیفیت کے تدارک کے بارے میں سوچنے پر مائل ہوتا ہے تب بہت کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ ایسے میں انسان کو اپنی اُن صلاحیتوں، مہارتوں اور سکت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو اُس میں ہوتی تو ہیں مگر سات پردوں میں چھپی ہوتی ہیں۔ برج نارائن چکبستؔ نے کہا ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا
حالات کے ہاتھوں پیدا ہونے والی ہر ناموافق کیفیت ہمارے لیے امتحان کا درجہ رکھتی ہے۔ اِس امتحان کا مقصد ہماری آزمائش ہے یعنی قدرت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ ہم کسی بھی مشکل کے تدارک کے لیے کس حد تک جاتے ہیں، کیا سوچتے ہیں، کیا کرتے ہیں اور اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کے معاملے میں کس حد تک سنجیدگی دکھاتے ہیں۔ کوئی بھی پریشانی کسی بھی درجے میں اس لیے نہیں ہوتی کہ ہم ہمت ہار بیٹھیں، ہتھیار ڈال دیں بلکہ ہمیں زیادہ اہتمام کے ساتھ حالات کا سامنا کرنے کے لیے کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ کچھ نیا سوچنے اور نیا کرنے کی راہ اُسی وقت ہموار ہوتی ہے جب ہم حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو نئی یا بدلی ہوئی صورتِ حال کے لیے تیار کریں۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ جب سفر آسانی سے طے ہو رہا ہو تو سمجھ لیجیے گاڑی ڈھلوان سطح پر ہے! کبھی کبھی آسانیاں انسان کو انتہائی درجے کی مشکلات سے دوچار کرتی ہیں۔ جب سب کچھ اچھا چل رہا ہو تو انسان بالکل بے فکر سا ہو جاتا ہے اور اُس کے ذہن میں یہ تصور گھر کرلیتا ہے کہ اب کوئی بھی مصیبت دامن گیر نہیں ہوگی۔ ایسے میں انسان خاصا سست بھی پڑ جاتا ہے۔ یہ کیفیت انسان کو کچھ بھی نیا سیکھنے اور نیا کرنے سے روکتی ہے۔ جب ذہن یہ تسلیم کرلیتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے تو یہ خیال بھی جڑ پکڑنے لگتا ہے کہ اب کچھ بھی نہیں سیکھنا چاہیے کیونکہ اِس کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ یہی لمحہ انسان کے لیے سب سے خطرناک ہوتا ہے۔ ایسے میں شخصیت کا پنپنا رک جاتا ہے۔ انسان جب یہ سوچ لے کہ اب کچھ نیا کرنے کی ضرورت نہیں تو یہ سمجھ لیجیے کہ اُس نے، کسی جواز کے بغیر، رختِ سفر باندھنا شروع کردیا ہے۔ کسی بھی بحرانی کیفیت کو مدعو کرنا کسی بھی درجے میں مستحسن نہیں مگر جب کوئی بحرانی کیفیت حالات کے ہاتھوں رونما ہو اور دامن گیر رہنے پر بضد ہو تو اُس کے تدارک کے بارے میں سوچنا فریضے کی درجے میں ہوتا ہے۔ ایسے میں انسان بہت کچھ نیا سوچتا اور سیکھتا ہے۔ ہر مسئلہ اپنے حل کے لیے ذہن کی بھرپور کارکردگی کا متقاضی ہوتا ہے۔ ہر انسان اُسی وقت کچھ نیا سیکھتا ہے جب وہ کسی مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہوتا ہے۔ آج کا ہمارا معاشرہ گوناگوں مسائل سے گھرا ہوا ہے۔ یہ مسائل ہمیں نچوڑ رہے ہیں۔ عام آدمی جب کسی بھی مسئلے کو اپنے سامنے پاتا ہے تو پریشان ہو اٹھتا ہے، بدحواسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اِس طور مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ اصغرؔ گونڈوی نے کہا ہے ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دُشوار ہو جائے
انسان اگر اپنے حصے کا کام بحسن و خوبی کرتا رہے اور شکوہ سنج رہنے کے بجائے عمل پسند ذہنیت پر فدا رہے تو بہت کچھ کرسکتا ہے۔ مسائل زندگی بھر کا معاملہ ہیں۔ حالات کے بدلنے سے ہمارے لیے مسائل بھی پیدا ہوتے رہیں گے اور مواقع بھی۔ مسائل کو حل کرتے رہنا ہے اور مواقع سے مستفید ہوتے ہوئے زندگی کا معیار بلند کرتے رہنا ہے۔ یہی زندگی ہے۔ آج کا معاشرہ بادی النظر میں مسائلستان دکھائی دیتا ہے۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اِسی مسائلستان میں بہت سے لوگ اپنے لیے مواقع ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟ سخت ناموافق حالات میں بھی لوگ آگے بڑھتے ہیں، کامیابی پاتے ہیں، اپنی اور متعلقین کی خوش حالی یقینی بناتے ہیں۔ ایسا صرف سوچ کے فرق سے ہوتا ہے۔ نارمل حالات انسان کو محدود کر دیتے ہیں۔ مسائل کا تندہی سے سامنا کرنے کی ذہنیت پروان چڑھائی جانی چاہیے تاکہ کچھ نیا کرنے کا حوصلہ پیدا ہو۔