معاشرہ مختلف النوع گھرانوں سے بھرا پڑا ہے۔ بعض گھرانے بڑے ہوتے ہیں اور خاندان کی شکل اختیار کیے ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنے گھرانے کے دیگر افراد سے دور ہوکر خود مختار زندگی بسر کرتے ہیں اُن کا ایک اپنا مگر چھوٹا گھرانہ ہوتا ہے اور اِس گھرانے کو بھی دور سے شناخت کیا جاسکتا ہے کیونکہ اِس کی خصوصیات الگ ہی دکھائی دیتی ہیں۔
گھرانے چھوٹے ہوں یا بڑے‘ اُنہیں واضح طور پر صرف دو اقسام میں بانٹا جاسکتا ہے۔ آپ نے بیسیوں گھرانوں کو اچھی طرح دیکھا ہوگا، اُن کی خصوصیات کا مشاہدہ کیا ہوگا، اُن کے بارے میں سوچا ہوگا اور اندازہ لگانے کی کوشش کی ہوگی کہ وہ جیسے ہیں‘ ویسے کیوں ہیں۔ آپ کے خیال میں گھرانوں کو کتنی اقسام میں بانٹا جاسکتا ہے؟ آپ نے اب تک جو گھرانے دیکھے ہیں اُن میں آپ کو کتنی طرح کی خصوصیات دکھائی دی ہیں؟ آپ کا جواب ہوگا کہ ہر گھرانے میں کوئی نہ کوئی الگ خاصیت ہوتی ہے۔ بعض گھرانوں میں زیادہ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ان خصوصیات ہی کی بنیاد پر وہ گھرانے دوسروں سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ آپ کو ایسا لگتا ہوگا کہ گھرانوں کو بہت سے درجوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے! حقیقت یہ ہے کہ گھرانوں کو صرف دو درجوں میں رکھا جاسکتا ہے یعنی گھرانے صرف دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ گھرانے جو سوچتے ہیں اور دوسرے وہ جو نہیں سوچتے۔
سارا فرق صرف سوچ سے پیدا ہوتا ہے۔ سوچ کا فرق ہی انسان کو دوسروں ممتاز کرتا ہے اور یہ فرق ہی گھرانوں کو بھی الگ کر دکھاتا ہے۔ اگر پوری دیانت، اخلاص اور سنجیدگی سے جائزہ لیجیے گا تو آپ کو اپنے خاندان میں بھی صرف دو طرح کے گھرانے دکھائی دیں گے۔ وہ جو سوچتے ہیں اور وہ جو بالکل نہیں سوچتے۔ بعض گھرانے بہت زیادہ سوچتے ہیں اور یہ اُن کی طرزِ بود و باش سے مترشح ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف بعض گھرانے نہ صرف یہ کہ سوچتے نہیں بلکہ سوچنا چاہتے بھی نہیں اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر وہ اُن گھرانوں سے قصداً دور رہتے ہیں جو سوچنے کو حرزِ جاں بنائے رہتے ہیں۔ اب یہ بتانے کی بالکل ضرورت باقی نہیں رہی کہ جو گھرانے سوچتے ہیں وہ کیا پاتے ہیں اور جو نہیں سوچتے وہ کس کس طرح محروم رہ جاتے ہیں۔ جن گھرانوں نے سوچنے کے وصف کو پوری سنجیدگی اور جوش و خروش سے اپنالیا ہو وہ ہر معاملے میں تمام ممکن عواقب کے بارے میں سوچتے ہیں۔ وہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں غور و فکر ہی سے کچھ کر دکھانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ غور و فکر کو زندگی کا بنیادی جز بنانے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں معاملات الجھنے سے محفوظ رہتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے گھرانے بعض انتہائی پریشان کن معاملات سے بھی خاصی آسانی سے نمٹتے ہیں۔
جن گھرانوں میں سوچنے کے عمل یا وصف کو اولیت نہیں دی جاتی وہ بیشتر معاملات میں خواہ مخواہ الجھے رہتے ہیں۔ ایسے گھرانے کسی بھی پریشان کن صورتِ حال کا سامنا صرف پریشان ہونے سے کرتے ہیں۔ اب کوئی بھی اندازہ لگاسکتا ہے کہ ایسے گھرانے کسی بھی بحرانی کیفیت میں کیا کر پاتے ہوں گے۔ جہاں سوچ نہیں ہوتی وہاں عمل بھی نہیں ہوتا۔ جب عمل نہیں ہوتا تو صرف خرابی پیدا ہوتی ہے۔ ہر طرح کی صورتِ حال ہم سے صرف اور صرف عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ زندگی تو خیر کسی نہ کسی طور گزر ہی جاتی ہے۔ کوئی کچھ نہ کرے تب بھی زندہ تو رہتا ہی ہے مگر ایسی زندگی کیا ہوتی ہے یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ کوئی اگر سوچنے سے بالکل الرجک رہتا ہو تو اُس کی زندگی میں کیسی کیسی خامیاں پائی جاتی ہیں یہ بھی ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ سوچے سمجھے بغیر گزاری جانے والی زندگی میں قدم قدم پر غیر منطقی قسم کی الجھنیں پائی جاتی ہیں۔ جو مسائل حالات کے پیدا کردہ ہوں وہ کسی بھی انسان کو اِتنا پریشان نہیں کرتے کہ وہ کچھ کر ہی نہ پائے مگر جب مسائل اپنے پیدا کردہ ہوں، اپنی ناسمجھی اور ''بے فکری‘‘ کا نتیجہ ہوں تب ذہن ہر الجھن کو ضرورت سے کہیں زیادہ محسوس کرتا ہے۔ یہ حالت زندگی کا حلیہ بگاڑ دیتی ہے۔
آپ اپنے ماحول میں سوچنے اور سمجھنے کا رجحان رکھنے والے گھرانوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اِن گھرانوں میں علم دوستی بھی ہوتی ہے اور حکمتِ عملی سے رغبت بھی۔ حکمتِ عملی یعنی وہ حکمت جو زندگی کے عملی پہلو کو نمایاں کرتی اور نتائج کو زیادہ معنی خیز بناتی ہے۔ سوچنے والے گھرانے نظم و ضبط کے عادی اور پابند ہوتے ہیں۔ یہ کسی بھی معاملے کو سرسری نہیں لیتے بلکہ اِن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ سوچنا اور کرنا ہے وہ سوچا اور کیا جائے۔ ایسے گھرانے اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ زندگی صرف سانسوں کے تسلسل یا اُن کی گنتی کا نام نہیں۔ یہ تو ہمہ وقت فکر و تدبر کا معاملہ ہے۔ ہم یومیہ بنیاد پر جو کچھ کرتے ہیں وہ بھی اگر بے ذہنی سے کیا جائے تو معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ معمول کی سطح کے معاملات بھی توجہ نہ دیے جانے پر رکاوٹیں کھڑی کردیتے ہیں۔ ایسے میں زندگی جیسے معاملے کو کیونکر بے لگام چھوڑا جاسکتا ہے؟ عقلِ سلیم کہتی ہے کہ زندگی اگر بسر ہی کرنی ہے تو ڈھنگ سے بسر کی جائے یعنی غور و فکر سے بھی کام لیا جائے اور منصوبہ سازی کے ذریعے اپنے آپ کو عملی سطح پر بھی آزمایا جائے۔
غور و فکر کی صلاحیت و سکت سے متصف گھرانوں کی سب سے بڑی شناختی علامت ہوتی ہے ہر معاملے میں منصوبہ سازی اور نظم و ضبط۔ ایسے گھرانے اپنے بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ اِنہیں اِس بات کا پوری شدّت سے احساس رہتا ہے کہ معقول منصوبہ سازی کے بغیر بسر کی جانے والی زندگی زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوتی۔ اِس طور جینے میں خسارے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ ہمارے لیے مستقبل ہمیشہ غیر یقینی ہوتا ہے۔ بہت کچھ معلوم ہو تب بھی ہم محض اندازے کی بنیاد پر مستقبل کے بارے میں سب کچھ پورے یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ ہماری پیش گوئیاں مکمل درست نہیں نکلتیں۔ حالات کب کون سا پلٹا کھاجائیں‘ کہا نہیں جاسکتا۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب مطلوب معیار کی منصوبہ سازی کی گئی ہو۔ ہمارا معاشرہ ناکام گھرانوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہمیں قدم قدم پر ایسے لوگ ملتے ہیں جو حالات کا رونا روتے رہتے ہیں۔ یہ معمول اِس لیے ہے کہ حالات کا رونا روتے رہنے سے زیادہ آسان کام کوئی نہیں۔ ناکام لوگ چاہتے ہیں کہ اپنی ناکامیوں کی وجوہ کے بارے میں سب کو بتائیں۔ جب بھی دو پریشان حال افراد ملتے ہیں وہ اپنی اپنی ناکامی کا رونا روکر اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی یہ ثابت کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی انہیں جھیلنا پڑ رہا ہے وہ اُن کا اپنا کیا دَھرا نہیں۔ سوال یہ نہیں کہ جو کچھ بھی جھیلنا پڑ رہا ہے وہ اپنا کیا دَھرا ہے یا نہیں۔ جھیلنا تو پڑ رہا ہے نا؟ قصور وار کے تعین کا مرحلہ تو بعد میں آئے گا۔ پہلے مرحلے میں تدارک کا سوچنا چاہیے۔ سوچنے سے تعلق نہ رکھنے والے گھرانوں کی نمایاں شناختی علامت یہ ہے کہ وہ حالات کی خرابیوں کا رونا تو روتے ہیں مگر تدارک کے بارے میں سنجیدگی اختیار نہیں کرتے۔
کسی بھی گھرانے کی بقا صرف اِس امر میں مضمر ہے کہ وہ سوچنے سے تعلق ترک نہ کرے، حالات کا فہم پیدا کرے اور حالات ہی کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے منصوبہ سازی کرے۔ یہ منصوبہ سازی ہی تو ہے جو کسی بھی گھرانے کی نئی نسل کو زندگی کے لیے ڈھنگ سے تیار ہونے میں مدد دیتی ہے۔ جو گھرانے غور و فکر کے عادی ہوتے ہیں وہ حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور بدلتے ہوئے ماحول کے ساتھ تبدیل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ عقلِ سلیم کا یہی تقاضا ہے۔ زمانے کا کام بدلتے رہنا ہے۔ ہم اگر اُس کا ساتھ نہ دیں تو پیچھے رہ جائیں۔ ہم اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ جو گھرانے خود کو زمانے کے ساتھ ساتھ نہیں بدلتے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں، اُن کی نئی نسل مختلف ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہے، اعتماد کی شدید کمی کا سامنا کرتی ہے۔ ایسے میں بہترین حکمتِ عملی اِس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ تدبر سے کام لیتے ہوئے مستقبل کی بھرپور تیاری کی جائے؟