انسانی مزاج کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اسے ہر گزرا ہوا زمانہ اچھا لگتا ہے۔ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ اُن زمانوں میں جو کچھ بھی کیا وہ رہ رہ کر یاد آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب جو زندگی گزاری جارہی ہے اُس میں ذرا بھی دم نہیں‘ کشش نہیں۔ ماضی میں گم رہنے کو ماہرین ایک خاص ذہنی عارضے کا نام دیتے ہیں۔ انگریزی میں یہ ''ناسٹیلجیا‘‘ کہلاتا ہے۔ جو لوگ ناسٹیلجیا کا شکار ہوتے ہیں وہ ہر معاملے میں موجودہ اور گزرے ہوئے زمانوں کا موازنہ کرتے رہتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں اُن کا ذہن مزید الجھتا جاتا ہے۔ بہت سے معاملات میں گزرے ہوئے زمانے اچھے ہی لگتے ہیں کیونکہ موجودہ دور کی بہت سی پیچیدگیاں تب نہیں تھیں۔ جب انسان کم پیچیدگیوں والے زمانوں کو یاد کرتا ہے تو موجودہ زمانے سے اُکتاہٹ اور بیزاری بڑھ جاتی ہے۔
آج ہمارا معاشرہ جن الجھنوں سے دوچار ہے اُن کا جائزہ لیجیے اور اُن پر غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم جن زمانوں سے گزرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں اُن میں ایسی پیچیدگیاں اور الجھنیں نہیں تھیں۔ مشکلات تب بھی تھیں مگر کم تر درجے میں۔ پریشانیاں کم نہ تھیں مگر اُن کی شدت ایسی غضب ناک نہ تھی۔ دو وقت کی روٹی کے اہتمام کی فکر تب بھی لاحق ہوتی تھی مگر تب معاملہ یہ نہیں تھا کہ صرف کمانے میں کھپ جائیے۔ انسان دیگر امور کے لیے بھی وقت نکال ہی لیتا تھا، اُن پر بھی کسی نہ کسی حد تک توجہ دے ہی لیتا تھا۔ آج ہم نے بہت سے معاملات کو اپنے حواس پر سوار کرلیا ہے۔ ہمیں دن رات بہت سے ایسے معاملات کی فکر لاحق رہتی ہے جن کے دم سے زندگی آسان تو کیا ہوگی‘ مزید الجھتی جاتی ہے۔ بعض امور ایسے ہیں جن کے ہونے نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا مگر ہم نے اُنہیں یوں حرزِ جاں بنا رکھا ہے گویا اُن کے نہ ہونے سے زندگی کا تیا پانچا ہو جائے گا۔ ہر دور کا انسان اپنے دور کی پیچیدگیوں کو زیادہ المناک تصور کرتا رہا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں کے بارے میں سوچ سوچ کر دل کو سکون سا ملتا ہے کہ تب زندگی میں ایسی ہماہمی نہ تھی، ایسی کشمکش نہ تھی، معاملات یوں آپس میں غلطاں و پیچاں نہ تھے، سب کچھ ہاتھ سے جاتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ گزرے ہوئے زمانوں میں ایک اچھی بات یہ تھی کہ آبادی کم تھی۔ اس کے نتیجے میں آج کی سی کھینچا تانی نہ تھی۔ روزگار کے مواقع اگرچہ کم تھے مگر لوگ معقول انداز سے کام کرتے تھے۔ اپنے کام میں دلچسپی لینا اور سکون کے ساتھ کام کرنا لوگوں کو زیادہ پسند تھا۔ یہ سب مزاج کا حصہ تھا۔ پاکستان ہی تین عشروں پہلے تک یا یوں کہیے کہ 1990ء کی دہائی تک معاملات بہت حد تک قابو میں تھے۔ زندگی میں نظم و ضبط نمایاں تھا۔ بیشتر معاملات میں ترتیب دکھائی دیتی تھی۔ لوگ اس حوالے سے خاصے حساس ہوا کرتے تھے۔ کوشش ہوتی تھی کہ کسی جواز کے بغیر کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس کے نتیجے میں زندگی کی ترتیب یوں بگڑے کہ کچھ بھی ہاتھ میں نہ رہے۔ کوئی بے ترتیب زندگی بسر کرتا تھا تو سب کے سامنے بے نقاب ہونے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ معاشرے نے جو عمومی اصول وضع کیے تھے اُن کا احترام کیا جاتا تھا۔ معاشرتی معاملات میں رواداری اور جذبۂ اخوت اِتنا نمایاں تھا کہ اب اُس دور کے بارے میں سوچئے تو لگتا ہے ہم کسی اور ہی دنیا میں جیتے تھے۔
انسانی زندگی میں کرپشن کب نہیں تھی؟ ہر عہد کا انسان مختلف النوع کرپشن کا شکار رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی کرپشن ابتدا سے رہی ہے۔ جب ملک نیا نیا بنا تھا اور معاملات میں بگاڑ برائے نام تھا تب بھی بہت سوں نے جھوٹے کلیم داخل کرکے املاک حاصل کیں۔ ہمارے ہاں کرپشن تھی مگر مزاج اور خون میں شامل نہ تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ کوئی کرپشن بھی کرے اور اُس پر فرحاں و نازاں بھی ہو۔ لوگ تب بھی غلط طریقوں سے کماتے تھے مگر ایسی کمائی پر فخر تو کیا کرنا تھا، لوگ چھپاتے تھے تاکہ عزت داؤ پر نہ لگے۔
کرپشن تھی ضرور مگر پورے معاشرے پر محیط نہ تھی۔ چند ہی افراد‘ جو اپنے حواس پر قابو نہ رکھ پاتے تھے اور کردار کی پختگی سے ہم کنار نہ تھے‘ کرپشن کے کیچڑ میں لت پت ہونا پسند کرتے تھے۔ عام آدمی بہت سی مشکلات برداشت کرکے بھی کرپشن کے بارے میں کم ہی سوچتا تھا۔ مال و زر کی ہوس بھی تھی مگر بزرگوں کی عطا کردہ تربیت ایسی مضبوط تھی کہ لوگ اِس ہوس کو حرزِ جاں بنانے سے گریزاں رہتے تھے۔ ہر معاملے میں بات مال سے شروع ہوکر مال پر ختم نہیں ہوتی تھی۔ ملک کے قیام کے بعد ابتدائی آٹھ‘ دس سال شدید انتشار کی حالت میں گزرے۔ یہ سرکاری مشینری کے بننے اور مضبوط ہونے کا زمانہ تھا۔ سرکاری مشینری میں بگاڑ ضرور تھا مگر یہ بگاڑ ہلاکت خیز نوعیت کا نہ تھا۔ افسر شاہی نے ایسے اطوار اختیار نہ کیے تھے کہ عام آدمی کے لیے ڈھنگ سے سانس لینا بھی ممکن نہ رہے۔ ایک زمانے تک پاکستان بھر میں سرکاری سکول معیاری تعلیم کے حصول کا بہترین اور سستا ذریعہ تھے۔ سستا بھی کیا‘ مفت ہی کہیے۔ تب بھی سرکاری تعلیمی ادارے اعلیٰ درجے کے سائنس دان تو تیار نہ کرتے تھے مگر خیر جینا تو سکھا ہی دیتے تھے۔ سکول کی سطح پر بچوں کو ڈھنگ سے جینے کے اسباق مل جایا کرتے تھے۔ اساتذہ اپنے کردار کے ذریعے بہت کچھ سکھاتے تھے۔ پورے من سے پڑھانے والے تھے تو پڑھنے والے بھی سامنے آتے چلے گئے۔
اِسی معاشرے میں اخلاص بھی تھا اور رواداری بھی۔ آج یہ دونوں اوصاف دکھائی نہیں دے رہے تو اِس کے لیے بیرونی سازش کا راگ الاپنے کی ضرورت نہیں۔ یہ سارا بگاڑ ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے۔ ایک دور تھا کہ پڑوسی مل بیٹھتے تھے۔ یہ سب کچھ آج بھی ہوسکتا ہے۔ امریکہ یا اقوامِ متحدہ نے کوئی پابندی نہیں لگائی! یہیں، اِسی معاشرے میں ایسا بھی تھا کہ بچے صرف اپنے گھر کے نہیں ہوتے تھے بلکہ پورے محلے کے ہوتے تھے۔ لوگ بچوں سے پیار کرتے تھے، اُنہیں وقت دیتے تھے، اُن کی باتیں سنتے تھے اور اُن کے سیر سپاٹے کا خیال رکھتے تھے۔ لوگ‘ آج کی طرح‘ پڑوسیوں کے بچوں سے بیزار نہیں ہوتے تھے بلکہ اُن کا بھی پورا خیال رکھنا اپنا فرض گردانتے تھے۔ 1972 کی فلم ''تمہی ہو محبوب مرے‘‘ میں مہدی حسن کا گایا ہوا ایک گیت وحید مراد پر فلمایا گیا تھا۔ گیت کا مکھڑا تھا ؎
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے
رو روکے گزرتی ہیں راتیں‘ آنکھوں میں سحر ہو جاتی ہے
ہمارے نصیب میں بھی کچھ ایسے دن لکھے گئے تھے جنہیں آج تنہائی دہراتی رہتی ہے۔ اُن بتیے ہوئے دنوں میں بہت کچھ بند ہے۔ ہمارے بہت سے اوصاف وہیں رہ گئے ہیں۔ ہم میں تحمل بھی تھا، رواداری بھی تھی، اخلاص بھی تھا، بے ہوسی بھی تھی، زندہ دلی بھی تھی، خوش خُلقی بھی تھی۔ اور بھی بہت کچھ تھا جو ہم نے ہاتھ سے جانے دیا۔ یہ سب کچھ ایک طویل عمل کے نتیجے میں رونما ہوا ہے۔ معاشرے راتوں رات نہیں بگڑتے۔ بگاڑ پیدا کرنے والے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ اُنہیں کامیاب ہونے میں وقت لگتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کا نظم راتوں رات خرابی کی طرف نہیں جاتا۔ اور خرابی بھی اُسی وقت پیدا ہوتی‘ پنپتی ہے جب تدارک کے معاملے میں تغافل و تساہل سے کام لیا جائے۔ ہمارے ہاں بھی بگاڑ اُسی وقت پیدا ہوا جب ہم ڈھیلے پڑگئے۔ گزرے ہوئے دنوں کے حسین لمحات کو یاد کرکے روتے رہنا دل کو تھوڑا بہت سکون ضرور دیتا ہے مگر خیر‘ یہ عادت کسی بھی درجے میں مفید ہے نہ مستحسن۔ ہمیں لمحۂ موجود میں جینا ہے اور اِس لمحے کو ایسا بنانا ہے کہ دس پندرہ سال بعد یہ وقت ہمیں یاد آئے تو دل کو سکون عطا کرے۔ گزرے ہوئے حسین اور سکون بخش زمانوں کو یاد رکھنا اچھی بات ہے مگر اِس سے اچھی بات ہے اُن زمانوں کو دہرانے کی بھرپور کوشش کرنا۔ جو اوصاف عمومی سطح پر ہم میں پائے جاتے تھے اُن کا احیا ہی ہمارے دُکھوں کا مداوا بن سکتا ہے۔ حسین یادیں دل کو محض لبھانے کے لیے نہیں ہوتیں مگر کچھ نیا اور اچھا کرنے کی تحریک دینے کے لیے ہوتی ہیں۔