آپ کون ہیں؟ کس حیثیت سے خلق کیے گئے ہیں؟ آپ کے فرائض کیا ہیں؟ کیا آپ اپنے تمام فرائض کی بجا آوری کے حوالے سے سنجیدہ ہیں؟ اگر ہاں تو کس حد تک اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ ہم اور بھی بہت کچھ ہیں مگر سب سے بڑھ کر امانت ہیں۔ آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ امانت نہیں ہیں؟ کیا دنیا کا ہر انسان امانت نہیں ہے؟ اگر کوئی نہ سمجھنا چاہے تو اور بات ہے وگرنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر انسان اپنے رب کی امانت سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہمیں گوناگوں صلاحیتوں اور میلانات کے ساتھ خلق کیا گیا ہے۔ ہر صلاحیت صرف اس لیے ہوتی ہے کہ بروئے کار لائی جائے۔ جب کوئی اپنی صلاحیتوں سے آشنا ہوتا ہے تب اُن کا معیار بلند کرنے پر مائل ہوتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں مہارت حاصل ہوتی ہے۔ کسی بھی معاملے میں غیر معمولی مہارت ہی انسان کو اپنا معیار بلند کرنے کے قابل بناتی ہے۔
کیا صلاحیتوں کو پروان چڑھانا، بروئے کار لانا کافی ہے؟ کیا زندگی کا صرف اِتنا ہی مقصد ہے؟ یا کیا زندگی کا مقصد اِس قدر ہوسکتا ہے؟ یقینا نہیں۔ جس نے یہ کائنات خلق کی ہے وہ ہم سے بہت کچھ چاہتا ہے۔ اور کیوں نہ چاہے؟ اُس نے ہمیں چند خاص مقاصد کے تحت ہی تو خلق کیا ہے۔ یہ مقاصد سب کے لیے ہیں۔ کوئی ایک انسان بھی اس معاملے میں خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا۔ معذوری کے سوا کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ ہر انسان کو اِس دنیا میں اس لیے خلق کیا گیا ہے کہ اپنے رب کی مرضی کا حصول یقینی بنانے کے لیے جیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے جو ہدایات بخشی ہیں اُن کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوئے ہی ہم خدا کی مشیّت پوری کرسکتے ہیں، اُس کی مرضی کے مطابق چلتے ہوئے ہی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بناسکتے ہیں۔
ہماری ہر صلاحیت اور سکت مکمل طور پر اور ہر درجے میں امانت کا درجہ رکھتی ہے۔ قدرت نے ہمیں شعور کے ساتھ زندگی عطا کی ہے۔ یہ شعور نعمت تو ہے ہی مگر اِس سے کہیں بڑھ کر ذمہ داری ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کی بھرپور صلاحیت ہم سے بہت کچھ طلب کرتی ہے۔ ایک نعمت ایسی ہے جو مکمل مساوات کی بنیاد پر عطا کی گئی ہے۔ یہ مساوات انسانوں کے مزاج اور صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ صفتِ عدل کی بنیاد پر ہے اور خالص غیر جانب داری کا معاملہ ہے۔ سب کو مساوی بنیاد پر عطا کی جانے والی نعمت وقت ہے۔ اگر پوری دیانت اور سنجیدگی سے غور کیجیے تو وقت ہی سب کچھ ہے۔ وقت ہی حتمی نوعیت کی نعمت ہے۔ ہم اِس دنیا میں وقت ہی کی بہ دولت ہیں۔ قدرت کی طرف سے عطا کی جانے والی سانسیں وقت کے معیّن حجم کے سوا کچھ نہیں۔ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے قدرت کی عطا کردہ سانسوں کے حساب میں رہتے ہوئے کرنا ہے۔ اِس سے ہٹ کر ایک پل بھی ہمارا نہیں۔ اب اگر کوئی اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے تو گویا قدرت کی امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ قدرت نے ہمیں وقت اس لیے تو عطا نہیں کیا کہ ہم کسی نہ کسی طور اِسے ضائع کرتے پھریں۔ وقت کا ضیاع گویا زندگی کا ضیاع ہے۔
آپ کا حقیقی دشمن کون ہوسکتا ہے؟ بہت سے لوگ آپ کے دشمن ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ دشمنی کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ کبھی کبھی کوئی کسی ٹھوس جواز یا سبب کے بغیر بھی آپ کا دشمن ثابت ہوتا ہے۔ یہ تو ہوئی دشمنی کے تعین کے حوالے سے عمومی سوچ۔ ہم ہر اُس انسان کو دشمن گردانتے ہیں جو ہمارے مال پر نظر رکھتا ہو، دھوکا دے کر مال ہڑپ کرتا ہو، ہمیں جسمانی نقصان پہنچانے پر تُلا رہتا ہو۔ ذرا سوچیے، کیا ہمارے دشمن صرف یہی ہیں؟ ہمارے دشمن کتنے اور کیسے ہوسکتے ہیں اس کا تعین بہت مشکل ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کی بنیادی نعمتیں کتنی ہیں؟ ویسے تو ہر سانس نعمت ہے اور دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ سب کا سب نعمت کے درجے میں آتا ہے مگر ہر انسان کے لیے انتہائی بنیادی نعمتیں تین ہیں؛ وقت، صلاحیت و مہارت اور سکت (توانائی)۔ جی ہاں! ہر انسان کے لیے باقی سب کچھ اِن تین نعمتوں کے بعد آتا ہے۔ یہ تین نعمتیں بلا تخصیص مذہب و ملت و رنگ و نسل سبھی کے لیے ہیں اور سبھی کو بروئے کار لانا ہیں۔
ہر انسان کو چونکہ معاشرے میں رہنا ہے اس لیے لوگوں سے گھل مل کر ہی رہنا پڑتا ہے۔ سب ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زندگی اِسی طور آسان ہوسکتی ہے۔ اِس سے ہٹ کر زندگی کو آسان تر بنانے کا کوئی اور طریقہ نہیں۔ اب اگر کوئی آپ کی زندگی میں آئے اور آپ کی بنیادی نعمتوں یعنی وقت، صلاحیت و مہارت اور سکت (توانائی) کو ضائع کرنے پر تُل جائے تو؟ ایسے لوگ کم نہیں ہوتے جو اپنا اور دوسروں کا وقت بھی ضائع کرتے ہیں اور توانائی بھی۔ اُن میں کوئی خاص مہارت نہیں پائی جاتی اور وہ دوسروں کی مہارت کی بھی قدر نہیں کرتے۔ اُنہیں صرف اِس بات سے غرض ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور‘ اپنی طرح‘ دوسروں کو بھی صراطِ مستقیم سے ہٹادیں یعنی ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کے قابل نہ چھوڑیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں‘ آپ کے حقیقی دشمن یہی لوگ ہیں۔ ہر اُس انسان کو اپنا دشمن گردانیے جو آپ کے ذہن میں الجھن پیدا کرکے آپ کو وقت اور مہارت دونوں سے مستفید ہونے کے قابل نہ چھوڑے۔ یہ دنیا کسی کے لیے آسان ہے نہ مشکل۔ سب کچھ اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنی ذات پر ختم ہوتا ہے۔ اگر آپ ڈھنگ سے جینے کے لیے سنجیدہ ہیں تو کوئی آپ کو روک نہیں سکتا اور اگر آپ نے طے کرلیا ہے کہ زندگی کو صرف ضائع اور برباد کرنا ہے تو پھر کس میں ہمت ہے کہ آپ کو ایسا کرنے سے باز رکھ سکے۔ اگر کوئی آپ کی زندگی میں آئے اور آپ کے معاملات کو اپنی مٹھی میں کرلے تو اِس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ آپ نے اُسے ایسا کرنے کا موقع دیا ہے۔ کسی میں اِتنی ہمت ہے نہ سکت کہ آپ کی مرضی کے بغیر آپ کی زندگی کو اپنی مٹھی میں لے سکے۔ زندگی کو حقیقی امانت کا درجہ دینے والے کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اُن کی زندگی سے کھیلے، اُن کی صلاحیت و سکت اور وقت کو ٹھکانے لگائے۔
ہر اُس انسان کے لیے کامیابی ہے جو اپنی پورے وجود اور زندگی کو امانت کے درجے میں رکھتا ہے۔ قدرت نے ہمیں صلاحیت و مہارت اور سکت کا مجموعہ بناکر بلاتخصیص وقت جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ یہ اہتمام اس لیے ہے کہ ہم اپنے اور دوسروں کے بارے میں سنجیدہ ہوں۔ یہ سنجیدگی ناگزیر ہے کیونکہ اِس کے بغیر ہم اپنے حصے کا کام کرنے کے قابل ہو ہی نہیں سکتے۔ دنیا میں ہمارا قیام 'الف سے ے تک‘ صرف اور صرف امانت ہے۔ ایک ایک سانس امانت ہے جسے پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ بروئے کار لانا ہے۔ اس سے مفر نہیں کیونکہ اِس کا حساب کتاب ہونا ہے۔ ہم سے ہمارے ہر عمل کے بارے میں پوچھا جانا ہے اور اِس سے پہلے نیت و ارادے کے بارے میں سوال ہوگا۔ فکر و عمل کا ہر مرحلہ ہم سے انتہائی درجے کے احساسِ ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ آخرت میں ہر معاملے کو تولا اور پرکھا جائے گا اور جو کچھ بھی غلط ہم نے کیا ہوگا وہ کھل کر سامنے آ جائے گا۔
وجود اور زندگی دونوں نعمت ہیں مگر اِنہیں محض نعمت سمجھنے کے مرحلے میں اٹک نہ رہ جائیے۔ نعمت سے کہیں بڑھ کر یہ ذمہ داری ہیں یعنی امانت ہیں۔ اِس امانت کو بہ رُوئے کار لانا ہے، اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ ہمارے حصے کا کام کیا ہے؟ اپنے خالق و مالک کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا۔ ہمارے مالک نے جو کچھ بھی چاہا ہے وہ اپنے کلام کے ذریعے ہم تک پہنچابھی دیا ہے۔ اگر اب بھی ہم کوئی بہانہ تلاش کریں، کوئی جواز ڈھونڈیں اور اس کی مرضی کے خلاف جائیں تو ایسی سوچ اور عقل پر تُف ہے۔ اپنے وجود کو امانت سمجھ کر امین کی حیثیت سے زندگی بسر کیجیے گا تو کامیاب ہو پائیے گا۔ حقیقی کامیابی کا کوئی اور راستہ نہیں۔