منطقی انجام کا شور تو ہم بہت سنتے ہیں مگر یہ کیا ہوتا ہے‘ اس کا درست اندازہ نہیں ہو پاتا۔ اسکا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم کسی بھی معاملے کے منطقی انجام کی راہ میں دسیوں دیواریں کھڑی کر دیتے ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ جو کچھ بھی غلط ہو رہا ہے یا ہو چکا ہے‘ اس کا منطقی نتیجہ سامنے نہ آئے۔ اس ذہنیت کے باعث ہر طرف خرابیاں ہیں اور ان خرابیوں سے نبرد آزما ہوتے رہنا جیسے مقدر ہو کر رہ گیا ہے۔ گھبراہٹ ہے‘ تذبذب ہے‘ اضطراب ہے‘ بے ذہنی ہے اور بے دلی ہے۔ اگر نہیں ہے تو بس عقلِ سلیم نہیں ہے۔ کوئی ایک انسان بھی ایسا ہے جو غلطیوں سے‘ خطاؤں سے پاک یا مبرا ہو؟ یقیناً ایسا تو کوئی بھی نہیں۔ سبھی غلطیاں کر رہے ہیں اور منفی نتائج کے ''اہل‘‘ بن رہے ہیں مگر اس ''اہلیت‘‘ کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے کا سلسلہ بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
فی زمانہ کوئی بھی معاشرہ خرابیوں‘ خامیوں اور کمزوریوں سے مبرا نہیں۔ ہر معاشرے میں کسی نہ کسی حوالے سے خرابیاں تو پائی ہی جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں کے بھی مسائل ہیں مگر ہاں‘ ان مسائل کی نوعیت بہت مختلف ہے۔ ہم اپنے معاشرے کی خرابیوں کے تناظر میں پیدا ہونے والی ذہنیت سے مدد لے کر ترقی یافتہ معاشروں کی خامیوں‘ خرابیوں اور کمزوریوں کو سمجھ نہیں سکتے۔ ان معاشروں کو سمجھنے کے لیے انہی کی سطح کی ذہانت اور ذہنیت درکار ہوگی۔
آج ہمارا معاشرہ اس مقام پر کھڑا ہے جہاں کچھ بھی درست دکھائی نہیں دے رہا۔ حد یہ ہے کہ جو کچھ تھوڑا بہت درست ہے وہ بھی خراب ہی دکھائی دیتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ سوچنے کی زحمت گوارا کرنے والے بہت کم ہیں اور جو لوگ تھوڑا بہت سوچ لیتے ہیں وہ بھی بے دلی کا شکار ہیں یعنی ان کی سوچ بھی منفی تاثر ہی پیدا کر رہی ہے۔ مثبت سوچ فی زمانہ اتنا مشکل وصف ہے کہ لوگ اس کے متحمل ہونے سے گریز کرتے ہیں۔
انسان خطا کا پتلا ہے۔ خطائیں سبھی سے سرزد ہوتی ہیں۔ کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جو یہ دعوٰی کر سکے کہ اس نے کبھی کوئی خطا نہیں کی یا اس سے کبھی کوئی خطا سرزد ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسا ممکن ہی نہیں اس لیے اس حوالے سے زیادہ سوچنے اور بحث کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ اگر انسان کوئی غلطی کرے تو اس کے تدارک کی بہترین صورت کیا ہو سکتی ہے؟ آپ سوچیں گے کسی بھی غلطی کے ازالے یا تدارک کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ بالکل درست مگر سوال بہترین صورت کا ہے۔ کوئی بھی انسان اپنی کسی غلطی کے حوالے سے طرزِ فکر و عمل کے مختلف ''ورژن‘‘ آزما سکتا ہے۔ یہ مکمل طور پر اپنے اختیار کی بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ انسان ایسا کیا کرے جس سے غلطی کا خمیازہ بھگتنے سے محفوظ رہا جائے۔ کسی بھی غلطی کا خمیازہ بھگتنے سے محفوظ رہنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ ہر غلطی اس امر کی بھی متقاضی ہوتی ہے کہ اس کے منطقی نتیجے کو واقع ہونے دیا جائے۔
اگر کوئی شخص قتل کر بیٹھے تو منطق کہتی ہے کہ اسے سزا ملنی چاہیے۔ قتل اگر عمداً یعنی ارادی طور پر کیا گیا ہو تو بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ایک قتل کو چھپانے یعنی اس کی سزا سے بچنے کے لیے مزید قتل کرنا کسی بھی اعتبار سے معقول طرزِ فکر و عمل نہیں۔ انسان اگر ایک قتل کرکے سزا بھگت لے تو جان چھوٹی۔ اگر ایک قتل کی سزا سے بچنے کے لیے مزید دو تین قتل کر بیٹھے تو اس دنیا میں سزائے موت ایک ہی بار دی جا سکے گی تاہم آخرت میں اسے قتل کی تمام وارداتوں کی سزا بھگتنا ہوگی کیونکہ یہ ساری وارداتیں بلا جواز ہوں گی۔
قتلِ خطا کی صورت میں بھی انسان کو انتباہ کے طور پر تھوڑی بہت سزا دی جا سکتی ہے۔ اس کا مدار ان حالات کی نوعیت پر ہے جن میں قتل کا واقعہ رونما ہوا ہو۔ قتلِ خطا کی صورت میں بھی یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ جس سے یہ قتل سرزد ہوا ہے وہ اس کے واقع ہونے سے کسی بھی طرح بچ سکتا تھا یا نہیں۔ کبھی کبھی انسان مجبور محض بھی ہوتا ہے۔ مثلاً آپ معقول رفتار سے موٹر سائیکل یا کار چلا رہے ہوں اور کوئی اچانک کسی گلی سے تیز رفتاری کے ساتھ نکل آئے اور غلط سمت میں آپ سے آ ٹکرائے تو آپ قصور وار نہیں۔ آپ کے پاس تو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں تھا۔ ایسے میں اگر آپ سے ٹکرانے والا مر بھی جائے تو آپ کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ ایسا کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ ہاں‘ اگر مخالف یعنی غلط سمت سے آنے والے سے ٹکرانے سے محفوظ رہنے کی گنجائش تھی اور آپ نے اس گنجائش کو بہ رُوئے کار لانے کی کوشش نہیں کی تو آپ سے جواب طلبی ہو سکتی ہے مگر وہ بھی اس طور نہیں کہ آپ کو مجرم تصور کیا جائے۔ یہ محض اخلاقی معاملہ بنتا ہے۔
کسی بھی انسان کے لیے مشکلات اس وقت زیادہ خطرناک شکل اختیار کرتی ہیں جب وہ اپنی غلطیوں کے منطقی نتائج کی راہ میں دیواریں کھڑی کرتا ہے۔ غلطی کے سرزد ہونے پر اس کے منطقی نتیجے کو بھگتنے کی ذہنی تیاری ناگزیر ہے۔ مثلاً غیر ضروری طور پر ادھار لینے کی صورت میں انسان کے لیے مالی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ مالی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے انسان کو بجٹ نئے سرے سے ترتیب دینا ہوتا ہے‘ اخراجات پر نظرِ ثانی کرنا پڑتی ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ انسان اپنی آمدنی بڑھانے کی کوشش کرے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر متبادل یہ ہے کہ اخراجات کو ایک خاص حد میں رکھا جائے۔ یہ ناگزیر ہے۔ ادھار کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کے تدارک کی بہترین اور معقول ترین صورت مزید ادھار لینا نہیں۔ ایک قرضے کو چکتا کرنے کے لیے نیا قرضہ لینا محض بے عقلی کہلائے گی‘ اس سے ہٹ کر کچھ نہیں۔ خرابی کا علاج خرابی سے نہیں کیا جاتا۔ کچھ کھانے سے پیٹ خراب ہو گیا ہو تو وہی چیز زیادہ کھاکر پیٹ کی خرابی دور نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے تو دوا ہی کھانا پڑے گی گو کڑوی ہو۔
حقیقت پسندی یہ ہے کہ انسان اپنی غلطی کا خمیازہ بھگتے۔ خمیازہ بھگتنا ناگوار معاملہ ضرور ہے مگر اس کے نتیجے میں بہتری کی صورت نکلتی ہے۔ اگر کوئی بڑی غلطی سرزد ہو اور اس کا منطقی نتیجہ بھگتنے سے گریز کی راہ پر گامزن ہوا جائے تو خرابی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ انسان اگر جھوٹ بول بیٹھے تو اس کا نتیجہ بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ جھوٹ بولنا نامعقول معاملہ تھا مگر اس کا نتیجہ یا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا معقول معاملہ ہے۔ اس سے خرابی پہلے ہی مرحلے میں ختم ہو جاتی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے یعنی اسے چلانا ہے تو بیساکھیاں لگانا پڑیں گی یعنی مزید جھوٹ بولنا ہی پڑے گا۔ یوں انسان ایک جھوٹ کو چھپانے کی پاداش میں سو طرح کے جھوٹ بولنے کا مرتکب قرار پائے گا اور سزا بھی اسی کی مناسبت سے بھگتنا پڑتی ہے۔
ہماری بیشتر خرابیوں کی جڑ یہ حقیقت ہے کہ ہم حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو اپنے ضمیر کی عدالت میں احتساب کے لیے پیش نہیں کرتے۔ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ کوئی دانستہ غلطی کر بیٹھیں یا کوئی خطا سرزد ہو جائے تو سارا زور اس بات پر رہتا ہے کہ کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے نہ خطا۔ زندہ رہنے کے سو ڈھنگ ہو سکتے ہیں۔ آپ نے جو بھی ڈھنگ منتخب کیا ہے اس میں حقیقت پسندی کے لیے معقول گنجائش ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ اپنے فکر و عمل میں برکت کی توقع نہیں کر سکتے۔ زندگی اس لیے ہرگز نہیں کہ غلطی پر غلطی کرتے جائیے اور ہر غلطی کو تسلیم کرنے سے گریز کی راہ بھی گامزن رہیے۔ کسی بھی معاملے کا منطقی نتیجہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس کا سامنا کیا جائے۔ معاملات کے منطقی نتائج سے نظر چرانے کی صورت میں انسان کے حصے میں محض خرابیاں رہ جاتی ہیں۔ حقیقت پسندی اگر چھوٹی عمر سے تربیت کا حصہ ہو تو انسان ہر طرح کی صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار پاتا ہے۔ اگر معاملات کے منطقی نتائج کی راہ مسدود کی جائے تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ؎
دل گِھرا رہتا ہے اندیشوں میں
حادثے ہیں کہ گزرتے ہی نہیں