زندگی کو اگر واقعی زندگی بنانا اور ثابت کرنا ہے تو بھرپور مطابقت رکھنے والا عمل ناگزیر ہے۔ عمل ہی سے زندگی کو معنویت ملتی ہے، اُس میں مقصدیت کا ظہور ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان کو عمل سے عاری رہنا زیبا نہیں۔ یہ کیفیت کسی بھی انسان کے لیے نہیں لکھی گئی۔ ہمارے خالق و رب کی مرضی ہے کہ ہم جس حال میں بھی ہوں، فکر و عمل کو وجود کا ناگزیر حصہ بنائے رہیں۔ اگر فکر و عمل کا مرکب وصف نہ ہو تو زندگی میں کشش باقی رہتی ہے نہ مقصدیت۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہمیں زندگی جیسی گراں قدر نعمت اس لیے بالکل نہیں ملی کہ یونہی گزار دی جائے۔ ایسا کرنے کو کُفران و تضیعِ نعمت کے سوا کیا کہا جائے گا؟ زندگی کا سارا حسن اس بات میں ہے کہ ہم بہت کچھ سوچیں اور اپنے لیے ایسا لائحۂ عمل مرتب کرتے رہیں جو ہماری فکر سے مناسبت اور مطابقت رکھتا ہو۔ جب تک دم میں دم ہے تب تک ہمیں بہت کچھ سوچنا بھی ہے اور بہت کچھ کرنا بھی ہے۔ ہمیں مرتے دم تک علم حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ بالکل اِسی طور عمل بھی مرتے دم تک ہمارے وجود سے الگ نہیں رہنا چاہیے۔ علم کے بغیر عمل کی کوئی وقعت نہیں اور عمل کے بغیر علم بے ثمر ہے۔ ان دونوں کا موزوں ترین امتزاج ہی انسان کو قابلِ رشک انداز سے کام کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
عمل سے ہم کنار زندگی ہی اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ عمومی سطح پر جینا زندگی کا حق ادا کرنا نہیں ہوتا۔ ایک خاص حد تک یعنی گزارے کی سطح پر عمل سے ہم کنار رہنا ہم سب کا معاملہ ہے مگر اِس پر اکتفا کرنے کی صورت میں زندگی کو زیادہ اور نمایاں حد تک بارآور نہیں بنایا جاسکتا۔ وہی لوگ زندگی کا حق ادا کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں جو فکر و عمل کے مختلف مراحل سے گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور اپنے وجود کو آزمانے والے معاملات سے جان چھڑانے کی کوشش نہیں کرتے۔ بڑے، زرخیز اور توانا ذہن کی حامل شخصیات جو کچھ سوچتی ہیں وہ چند الفاظ میں بیان کردیتی ہیں۔ کبھی کبھی کسی بڑی شخصیت کا کوئی ایک جملہ زندگی بھر کا سبق لیے ہوئے ہوتا ہے۔
بینجمن فرینکلن نے کہا تھا ''مجھے بتاؤ اور میں بھول جاؤں گا۔ مجھے سکھاؤ اور میں یاد رکھوں گا۔ مجھ سے اشتراکِ عمل کرو اور میں سیکھوں گا‘‘۔ اشتراکِ عمل یعنی مل جل کر کام کرنا۔ ہم میں سے کسی کا بھی کوئی کام بالکل الگ تھلگ نہیں۔ ہم سب کسی نہ کسی شکل میں کچھ ایسا کر رہے ہوتے ہیں جو دوسروں کے کیے ہوئے سے مل کر مطلوب نتائج پیدا کرتا ہے مگر یہ حقیقی اشتراکِ عمل نہیں۔ حقیقی اشتراکِ عمل یہ ہے کہ کسی کو شعوری فیصلے کے تحت اپنے ساتھ اِس طور شریکِ عمل کیا جائے کہ وہ تنہا جو کچھ بھی کر رہا تھا وہی کچھ کرکے بہتر نتائج کا حصول یقینی بنائے۔ اشتراکِ عمل کا حسن یہ ہے کہ اپنی صلاحیت و سکت سے زیادہ اور بہتر نتائج پاسکتا ہے۔
اشتراکِ عمل کے لیے انگریزی میں ''ٹیم ورک‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ جب چند افراد ایک ٹیم کی حیثیت سے کام کرتے ہیں تب اُن میں کام کرنے کی حقیقی لگن تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔ انسان معاشرتی حیوان ہے۔ خالص معاشی معاملات میں بھی مل جل کر کام کرنے ہی کی اہمیت ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان تنِ تنہا زندگی بسر کرتا تھا۔ ہم اُس زمانے کی بات کر رہے ہیں جب سر چھپانے کے لیے باضابطہ ٹھکانے یعنی گھر بنانے کے رجحان کی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی۔ انسان غاروں میں یا پھر ایسے ہی دوسرے ایسے ٹھکانوں میں رہتا تھا جو قدرت کی مہربانی کا نتیجہ ہوا کرتے تھے۔ موسمی تغیرات کے ہاتھوں انسان بہت کچھ جھیلتا تھا۔ پیٹ کی آگے بجھانے کے لیے بھی غیر معمولی مشقت کے مرحلے سے گزرنا پڑتا تھا۔ کچھ بھی یقینی نہ تھا۔ کسی کو اس بات کا بھی یقین نہیں ہوتا تھا جو کچھ بھی وہ کر رہا ہے اُس سے مطلوب نتائج ممکن بنائے جاسکیں گے یا نہیں۔ خالص انفرادی نوعیت کی زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں انسان کچھ زیادہ حاصل نہیں کر پاتا تھا۔ معیاری انداز سے زندگی بسر کرنے کا اہتمام ایسی کیفیت میں ممکن ہی نہ تھا۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ انسان کی سمجھ میں آتا گیا کہ ڈھنگ سے جینا ہے تو مل جل کر رہنا ہوگا یعنی اشتراکِ عمل یقینی بنانا ہوگا۔ بینجمن فرینکلن کا تین جملوں پر مشتمل یہ مقولہ کتنی بڑی بات بتا رہا ہے۔ کہی ہوئی بات انسان زیادہ دیر یاد نہیں رکھ پاتا۔ کچھ سکھایا جائے تو انسان یاد رکھتا ہے۔ ہاں‘ اِس کے نتیجے میں بھی کچھ زیادہ مل نہیں پاتا۔ اور جب کسی کو ساتھ ملاتے ہوئے کام کیا جاتا ہے تب نتائج کچھ اور ہوتے ہیں۔ انسان بہت کچھ سیکھتا ہے، حاصل کرتا ہے اور دل و نظر کو استحکام نصیب ہوتا ہے۔ زندگی کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے۔
یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ چند افراد جتنی صلاحیت و سکت کیساتھ انفرادی سطح پر جو کچھ بھی حاصل کرتے ہیں اُس سے کہیں زیادہ مل کر حاصل کرتے ہیں۔ ٹیم ورک کا یہی تو فائدہ ہے۔ اور اضافی معاملہ یہ ہے کہ کام کا معیار بھی بلند ہوتا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی قابلِ ذکر کامیابیاں ممکن بنائی جاسکی ہیں وہ صرف اور صرف ٹیم ورک کی مرہونِ منت ہیں۔ بڑے بڑے منصوبے اشتراکِ عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اشتراکِ عمل ہی کے نتیجے میں فیکٹریاں کام کرتی ہیں، کارخانوں کی چمنیاں دھواں اگلتی رہتی ہیں۔ اشتراکِ عمل ہی کسی بھی ادارے کو حقیقی توانائی اور استحکام فراہم کرتا ہے۔
اشتراکِ عمل ناگزیر ہے مگر بیشتر کا یہ حال ہے کہ اِس کے لیے پورے ذہن کے ساتھ تیار نہیں ہوتے۔ کامیاب معاشروں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اشتراکِ عمل کو زندگی کی بنیادی قدر کی حیثیت سے قبول کرنے کے بعد ہی کچھ ایسا کیا جو اُنہیں باقی دنیا سے ممیز و ممتاز کرسکا۔ پس ماندہ معاشروں میں اشتراکِ عمل کا کلچر کمزور ہے۔ انا پرستی اور مفاد پرستی اِتنی زیادہ ہے کہ لوگ اشتراکِ عمل سے گریز کرتے وقت نقصان کی بھی پروا نہیں کرتے۔ جب تمام معاملات میں صرف اپنی ذات کی حد تک سوچا جائے تب حقیقی اشتراکِ عمل کی گنجائش برائے نام رہ جاتی ہے اور یوں معاشرے کو وہ سب کچھ نہیں مل پاتا جو بجا طور پر مل سکتا ہے۔
اشتراکِ عمل کی نفسیات بہت محنت سے پروان چڑھائی جاتی ہے۔ کامیاب معاشروں میں بچوں کو ابتدائی جماعتوں ہی میں اشتراکِ عمل کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ اگر انہیں کچھ کرنا ہے تو مل کر کام کرنے کی ذہنیت کو پروان چڑھانا ہوگا۔ ہم خیال افراد مل بیٹھتے ہیں تو بہت کچھ بہت تیزی سے کر گزرتے ہیں۔ شخصی ارتقا کے ماہرین اشتراکِ عمل کو کامیابی کی انتہائی بنیادی شرط اور زندگی کی بنیادی قدر قرار دیتے ہیں۔ انسان جب تک رُوئے ارض پر ہے یعنی زندہ ہے تب تک اُسے دوسروں کے ساتھ مل کر ہی چلنا پڑے گا۔ یہ مل کر چلنا مختلف شکلوں میں ہوتا ہے۔ گھر کے افراد بھی اشتراکِ عمل کی بدولت ہی ڈھنگ سے جی پاتے ہیں۔ مقامِ کار میں اشتراکِ عمل کی اہمیت اِس سے کہیں زیادہ ہے۔ خالص معاشی معاملات میں احساسات اور جذبات کی کچھ خاص اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کیا ملے گا اور کیا نہیں مل سکے گا۔ یہ خالص کاروباری اور پیشہ ورانہ سوچ ہے جو غلط نہیں۔ غیر جانب دار ہوکر سوچئے تو اندازہ ہوگا کہ عملی زندگی یعنی معاشی معاملات میں اشتراکِ عمل اگر حقیقت پسندی سے متصف ہو تو ثمر دُگنا یا اُس سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔
نئی نسل کو دوسری بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ اشتراکِ عمل کے بارے میں بھی کھل کر بتانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے وقت اِس حوالے سے شرحِ صدر کی منزل میں ہوں۔ اس حوالے سے تربیت ناگزیر ہے۔ بیشتر نوجوانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ انفرادی کارکردگی بہتر بنانے اور اپنے آپ کو زیادہ نمایاں طور پر منوانے کے فراق میں‘ تحت الشعوری طور پر‘ اشتراکِ عمل سے گریز کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ خاندان کے بزرگ اور مختلف شعبوں کے کامیاب ترین افراد اُنہیں سمجھائیں کہ اپنی صلاحیت و سکت سے دوسروں کو مستفید کرنے اور دوسروں سے مستفید ہونے ہی میں حقیقی کامیابی مضمر ہے۔