یہ دنیا کھیل کا میدان ہے۔ یہاں وہی جیت سکا ہے جس نے کھیل کے بنیادی اُصولوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اپنے آپ کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ جس نے بھی کھیل کے بنیادی اُصول نظر انداز کیے وہ مارا گیا‘ اور وہ بھی تاریک راہوں میں۔ زندگی کو کیا سمجھا جائے؟ کھیل؟ تماشا؟ کہانی؟ سفر؟ بزم آرائی؟ آپ زندگی کے بارے میں چاہے جو بھی رویہ اختیار کریں، اس حقیقت سے آپ سمیت کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ زندگی میں سب کچھ ہے۔ اِس قوسِ قزح میں سارے رنگ شامل ہیں۔ اگر آپ اِسے کھیل سمجھیں گے تو کھلاڑی والی سوچ اپنانا پڑے گی۔ کھلاڑی کو فتح سے ہم کنار کرنے میں اُس کی قابلیت یا مہارت سے کہیں زیادہ ہوش مندی کا کردار ہوتا ہے۔ کوئی بھی کھلاڑی پورے کھیل کے مختلف پہلوؤں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ہی کچھ کر دکھاتا ہے۔ وہ محض جوش کے ذریعے نہیں جیت سکتا۔ محض ہوش بھی کسی کام کا نہیں۔ دیکھنا پڑتا ہے کہ کب‘ کیا اور کتنا چاہیے۔
اگر آپ زندگی کو میلے یا تماشے سے مشابہ سمجھتے ہیں تو جان رکھیے کہ اِس تماشے کی ساری رونق اِس بات سے ہے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں۔ اگر آپ میں دم ہے تو یہ تماشا جاندار اور شاندار ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے یعنی آپ ہی کا دل بجھا ہوا ہے تو پھر پورا تماشا کسی کام کا نہیں۔ تماشے کی رنگینی بڑھانے کا سوچئے گا تو کچھ پائیے گا۔ اگر آپ زندگی کو کہانی کے طور پر لیتے ہیں تو اِس میں کئی موڑ آئیں گے۔ ہر موڑ پر آپ کو سنبھلنا ہے، ہوش سے کام لیتے ہوئے جوش کو ڈھنگ سے بروئے کار لانا ہے۔ کہانی کی دلکشی بھی برقرار رکھنی ہے۔ یہ کہانی آپ کو بیان کرے گی، آپ کے بارے میں بتائے گی کہ آپ میں کتنا دم ہے۔
کچھ لوگوں کے نزدیک زندگی محض بزم آرائی ہے۔ وہ مل بیٹھنے کی حد سے آگے کا سوچتے ہی نہیں۔ اُن کے نزدیک زندگی کا سارا لطف صرف اس بات میں ہے کہ جیسے ہی فرصت کے چند لمحات میسر ہوں محفل آراستہ کرلی جائے، مل بیٹھ کر گپ شپ لگائی جائے، دل کا بوجھ ہلکا کیا جائے۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر کبھی کبھی بہت حیرت ہوتی ہے کہ دل پر کتنا بوجھ ہے کہ روز مل بیٹھنے سے بھی دور نہیں ہو پاتا اور کم بھی نہیں ہوتا! بزم آرائی کا شوق انسان کو کسی کام کا نہیں رہنے دیتا۔ جو روز مل بیٹھنے کے عادی ہوجائیں وہ ناغے کی صورت میں بے قرار رہتے ہیں، کام میں دل نہیں لگتا اور دیگر تمام معاملات بھی رُل جاتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں آپ کا نظریہ چاہے جو بھی ہو، ایک بات طے ہے ‘ وہ کہ آپ کو جو کچھ بھی کرنا ہے برمحل کرنا ہے، بروقت کرنا ہے۔ اگر ٹائمنگ خراب ہو تو مصیبت اور اگر مقام یا موقع غلط ہو تو مصیبت۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آنکھیں بند کرکے جیے نہیں جانا بلکہ تمام معاملات پر نظر رکھنی ہے، ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو کسی بھی مشکل صورتِ حال کے لیے تیار کرنا اور تیار رکھنا ہے۔ اور یہ کام کسی بھی درجے میں آسان نہیں۔ سوال مہارت اور محنت سے کہیں زیادہ باخبر اور چوکس رہنے کا ہے۔
عمومی سطح پر زندگی کا حلیہ اُس وقت بگڑتا ہے جب کسی بھی انسان پر معاملات کی درستی کے لیے کچھ کرنا لازم ہوتا ہے مگر وہ کچھ نہیں کرتا۔ جب سب کچھ درست چل رہا ہو اور کہیں کوئی مشکل دکھائی نہ دے رہی ہو تب انسان قدرے غافل ہو جاتا ہے۔ جب معاملات درست چل رہے ہوں تب بھی انسان کو مکمل غفلت کا شکار ہو رہنے کے بجائے چوکس رہنا ہوتا ہے کیونکہ زندگی تو کسی بھی وقت پلٹا کھاسکتی ہے اور کھا ہی جاتی ہے۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو جانا زندگی کا شدید منفی پہلو بھی ہے اور مثبت پہلو بھی یہی ہے۔ زندگی کا سارا حسن اِسی بات میں ہے کہ آنے والے وقت یا واقعات کے بارے میں پورے یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ جو لوگ اِس معاملے میں تیاری کرتے ہیں وہی کامیاب ہو پاتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ لوگ کسی بھی مشکل صورتِ حال کو دیکھ کر گھبرانے کو سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ہر مسئلہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ اُسے حل کیا جائے۔ زندگی کو کھیل کے طور پر لیجیے تو قدم قدم پر لڑنا ہے، مقابلہ کرنا ہے۔ اگر کوئی زندگی کو کہانی کے طور پر لیتا ہے تو وقفے وقفے سے آنے والے موڑ کے لیے تیار رہے۔ وہ کہانی ہی کیا جس میں موڑ نہ ہوں، گھماؤ نہ ہو۔ کوئی بھی کہانی اُسی وقت جاندار ثابت ہوتی ہے جب وہ دیکھنے اور سُننے والوں کا دماغ چکرادے۔ اگر زندگی کو میلے کے طور پر لیا جائے تب بھی میلے کی رونق میں اضافے کے لیے تو تگ و دَو کرنا ہی پڑے گی۔ گویا کسی بھی معاملے میں جان چھوٹنے والی نہیں۔
زندگی جب بھی ہمارے لیے کوئی الجھن پیدا کرتی ہے تب لازم ہوتا ہے کہ ہم کچھ دیر رُک کر معاملات کا جائزہ لیں، غور و خوض کریں اور اپنے آپ کو بہتری کے لیے تیار کریں۔ الجھن خود بخود تو دور ہونے سے رہی۔ اُسے دور کرنا پڑے گا۔ بس یہی وہ مرحلہ ہے جس میں ہم الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ہر الجھن ایک چیلنج کے روپ میں ہوتی ہے۔ چیلنج قبول کرنے ہی میں دانش مندی ہے۔ چیلنج سے نظر چرانا کسی بھی درجے میں ہمارے لیے خیر کا معاملہ نہیں۔ مسائل حل کرنے سے گریز ہمارے لیے صرف شر پیدا کرتا ہے۔ انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ عین اُس وقت دماغ کے دروازے بند کرلیتا ہے جب اُس کے دروازے کھولنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی مسئلہ اُسی وقت حل کیا جاسکتا ہے جب دماغ کام کر رہا ہو۔ اگر دماغ بدحواسی کی نذر ہو جائے، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کی پوزیشن میں نہ ہو تو ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ مسئلہ آسانی سے حل ہوجائے گا یا وقت پر حل ہوسکے گا۔ عمومی سطح پر لوگ اُسی وقت زیادہ بدحواسی دکھارہے ہوتے ہیں جب اُنہیں ذرا بھی بدحواس نہیں ہونا ہوتا۔ زندگی اِس بات کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی کہ ہم ذہن کو بروئے کار لانے سے گریز کریں اور محض پریشان ہونے کو کافی سمجھیں۔ اگر محض پریشان ہونے سے مسائل حل ہو جایا کرتے تو آج دنیا میں کوئی ایک شخص بھی کسی مسئلے سے دوچار نہ ہوتا۔ ہر مشکل صورتِ حال ایک خاص حد تک ہی مشکل ہوتی ہے۔ اگر ہم موزوں ترین رِسپانس نہ دیں تو اُس کے اثرات کا دائرہ وسعت اختیار کرتا ہے اور چھوٹا سا مسئلہ بھی جی کا روگ بننے لگتا ہے۔
معیاری انداز سے جینے کا ایک معقول طریقہ یہ ہے کہ انسان کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے معاملے میں تاخیر سے کام لے نہ تساہل سے۔ اور ہاں‘ پریشان و بدحواس ہونے کی بھی گنجائش نہیں۔ بدحواسی انسان کے مسائل کو پیچیدہ تر بناتی ہے۔ بدحواسی کی حالت میں ذہن کسی بھی مسئلے کا وہ حل بھی نہیں سوچ پاتا جو سوچا جاسکتا ہے۔ بدحواسی ذہن میں ایسا انتشار پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں سوچنا کسی بھی درجے میں ممکن نہیں ہو پاتا، اور بالخصوص ایسا سوچنا جو مسائل کے حل کی راہ ہموار کرسکتا ہو۔ زندگی قدم قدم پر کوئی نہ کوئی مشکل صورتِ حال پیدا کرتی ہے۔ یومیہ معمولات میں بھی ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ذہن کو الجھاتا ہے۔ ہمیں محض تماشا نہیں دیکھنا بلکہ سوچنا ہے اور کرنا ہے۔ مسائل کا حل بیٹھے بٹھائے نہیں ملتا، سوچنا پڑتا ہے۔ تمام معاملات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے جب ہم ڈھنگ سے سوچتے ہیں تبھی مسائل کا حل سامنے آتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب ہمیں سوچنا ہوتا ہے‘ ٹھیک اُسی وقت ہم ذہن کو کسی اور کام پر لگا دیتے ہیں۔ جب ذہن کو حل تلاش کرنے پر مامور کرنا ہوتا ہے تب ہم اُسے پریشان ہونے دیتے ہیں۔ محض پریشان ہوتے رہنے سے ذہن میں انتشار پھیلتا ہے اور یہ انتشار تمام معاملات کی ترتیب بگاڑنے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔
زندگی کا سارا لطف اِس بات میں ہے کہ آپ اپنے ذہن کو منتشر ہونے سے بچائیں اور جس وقت صرف سوچنا ہے تب کچھ اور نہ کریں، ذہن کو کسی بھی غلط راہ پر گامزن نہ ہونے دیں، اُسے شتر بے مہار نہ بننے دیں۔