جی تو ہم سب رہے ہیں مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو واقعی جی رہے ہیں یعنی زندگی کا حق ادا کر رہے ہیں یا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ خال خال۔ محض جیے جانے کو زندگی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ قدرت کی طرف سے رُوئے ارض پر بخشی جانے والی ساعتوں سے کیا حاصل کیا۔ بنیادی اہمیت اِس بات کی ہے کہ انسان محض سانسوں کے تسلسل کو کافی نہ سمجھے بلکہ اُن سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہو، واقعی جینے کی کوشش کرے۔ ایسا کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔ جو زندگی کا حق ادا کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہوتے ہیں اُنہیں قدرت کی طرف سے بہت کچھ عطا ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یومیہ بنیاد پر وقت کا یکساں کوٹہ ملتا ہے۔ کسی کا دن چوبیس گھنٹے سے ایک لمحہ بھی کم نہیں ہوتا۔ یومیہ بنیاد پر ملنے والے وقت سے کون کس قدر استفادہ کرتا ہے اِسی کی بنیاد پر طے ہوگا کہ کس نے قدرت کی بخشی ہوئی اس عظیم نعمت یعنی زندگی کا حق ادا کرنے کی سَمت کتنا سفر کیا۔
ہم جیے جاتے ہیں اور یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ محض جیے جانے کا عمل کسی بھی درجے میں کافی نہیں۔ اس خالص حیوانی سطح سے بہت بلند ہوکر جینے ہی میں جینے کا لطف پوشیدہ ہے۔ زندگی اُنہی کو سُکونِ قلب کی دولت سے نوازتی ہے جو سنجیدہ ہوتے ہیں، زندگی کو حقیقی اور واقعی نعمت سمجھتے ہوئے کچھ کرنے پر کمربستہ ہوتے ہیں اور یوں اُن کی مساعی سے زندگی کی معنویت میں اضافہ ہوتا ہے۔ سوچنے والوں نے بہت سوچا ہے اور لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں مگر زندگی وہ نہیں جو ہم سمجھ بیٹھتے ہیں بلکہ وہ جو ہم بناتے ہیں۔ ہمیں بخشا جانے والا وقت خام مال کی صورت ہے۔ اِسے کوئی پختہ شکل دینا ہمارا کام ہے۔ سانسوں کی گنتی پوری کرنے کو زندگی سمجھنا سادہ لوحی کی انتہا ہے۔ لگے بندھے معمول کے مطابق جینا ہم میں سے کسی کو زیبا نہیں۔ معمولات میں زندگی کو پروان چڑھانے کی تھوڑی سی گنجائش ہوتی ہے۔ جو لوگ معمولات سے ہٹ کر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہی زندگی کے خاکے میں کچھ رنگ بھر پاتے ہیں۔
قدرت نے ہر انسان کے لیے وقت کا جو کوٹہ مقرر کیا ہے وہ ہر حال میں اُسے ملتا ہے مگر کسی کو معلوم نہیں کہ زندگی کتنی ہے اِس لیے سبھی کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ جئیں۔ ایسے معاملات میں لاعلم رہنا ہی انسان کے حق میں ہے۔ ذرا سوچئے کہ قدرت کی طرف سے موت کے وقت کا واضح اشارہ مل جائے تو کیا حال ہو۔ جینا محال ہو جائے۔ یہ معلوم ہو کہ زندگی کب تک ہے تو انسان کچھ کرنے کے قابل نہ رہے۔ اچھا ہے کہ یہ معاملہ ہم سے پوشیدہ ہے اور پوشیدہ ہی رہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، جیے گا اُتنا ہی جتنا طے کردیا گیا ہے۔ انسان سے یہ معاملہ اس لیے پوشیدہ رکھا گیا ہے کہ وہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامقصد اور بامعنی بنانے کے لیے کوشاں ہو اور بھرپور استعداد بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کو زیادہ سے زیادہ رنگین بنانے پر کمربستہ ہو۔
کسی بھی انسان کے لیے موزوں نہیں کہ محض جیے جائے اور اپنے شب و روز کا جائزہ نہ لے۔ محض جیے جانا عقل و شعور سے عاری حیوانوں کا معمول و مقدر ہے۔ اُن پر اِس حوالے سے کوئی گرفت بھی نہیں ہونی۔ احتساب کا معاملہ تو انسان کے لیے ہے۔ ایک ایک سانس کا حساب لیا جانا ہے۔ سوال یہ نہیں کون کتنا جیا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیسے جیا، کیا کِیا اور زندگی کا حق ادا کرنے کی کس قدر کوشش کی۔ سارا کھیل شعور اور احساس کا ہے۔ جس نے یہ رمز جان لی وہی کامیاب ہوا۔ کائنات پر بھی غور کرنا ہے مگر اُس سے کہیں زیادہ اپنے بارے میں سوچنا ہے تاکہ کائنات کے حوالے سے اپنے مقام اور ذمہ داری کا احساس توانا ہو، کچھ کر گزرنے کا عزم اضمحلال کی منزل سے نہ گزرے۔
ہم میں سے کون ہے جو یہ نہیں چاہتا کہ عمر میں کچھ سال اور جڑ جائیں؟ قدرت نے ہماری جو عمر طے کر رکھی ہے اُس میں ایک ساعت بھی جڑ نہیں سکتی مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ معاملہ کیا ہے اِس لیے ہماری کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ صحت کا بلند معیار برقرار رکھ کر ہم زندگی کو تھوڑا سا بڑھالیں۔ جو شدید بیمار پڑتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ بہترین علاج کے ذریعے موت کو ٹالیں اور صحت یاب ہونے پر ہم موت کو ٹالنے کے احساس سے غیر معمولی تقویتِ قلب پاتے ہیں۔ یہ کوشش بھی قدرت کی بخشی ہوئی توفیق ہی سے ممکن ہو پاتی ہے۔ موت کو شکست دی جاسکتی ہے نہ اُسے ٹالا ہی جاسکتا ہے مگر اچھا ہے کہ ہم اپنی کوشش کے نتیجے میں اِس گمان ہی سے خوش ہولیا کریں ع
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے!
بہر کیف‘ ہم اِس گمان سے تو خوش رہتے ہیں کہ ہم نے بیماری یا معذوری کو شکست دے کر عمر بڑھالی یا زندگی میں کچھ اضافہ کرلیا۔ اگر اِتنی کامیابی یقینی بنا بھی لی جائے تو ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ اِس سے ملنا کیا ہے۔ کیا محض ''اضافی‘‘ جینا ہمارے بنیادی مقاصد میں سے ہے؟ محض جینا تو کسی بھی درجے میں ہمارا بنیادی مقصد نہیں۔ اہمیت صرف اِس بات کی ہے کہ ہم کس طور جی رہے ہیں یا جیتے آئے ہیں۔ ہم مرتے دم تک اس بات کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں کہ ہم اِتنا جی لیے۔ اچھی بات ہے کہ انسان زندہ رہنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار رہے مگر اِس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ زندگی کو بروئے کار لانے کی بھی کچھ فکر لاحق رہے۔ جتنا جی لیے اُس کے بارے میں سوچ کر خوش ہو رہنا کافی نہیں۔ دیکھنا چاہیے کہ اِس زندگی سے استفادہ کتنا کیا ہے، کس طور جیے ہیں، ایسا کیا کرسکے ہیں کہ جس کی بنیاد پر واقعی فخر محسوس ہو۔
ہر انسان کا ایک بنیادی فریضہ یہ بھی ہے کہ قدم قدم پر جائزہ لیتا رہے کہ محض زندہ ہے یا بامقصد زندگی بھی بسر کر رہا ہے۔ سانسوں کی گنتی پوری کرنے کی سطح سے بہت بلند ہوکر ہمیں زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنانے کے بارے میں سوچتے رہنا ہے۔ یہی عمل ہمیں زندگی سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی تحریک دے سکتا ہے اور یوں ہم اپنے وجود کو پوری توانائی اور تمکنت کیساتھ بارآور بناتے رہنے پر کمربستہ بھی رہ سکتے ہیں۔ ہر اعتبار سے زندگی کا حق ادا کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، کہیں نہ کہیں کوئی خامی یا کسر رہ ہی جاتی ہے۔ اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان حوصلہ ہار بیٹھے اور معاملات کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ ہم میں سے ہر ایک کو مرتے دم تک ڈھنگ سے جینے کی تگ و دَو کرتے رہنا ہے۔ اِس معاملے میں تساہل کی گنجائش ہے نہ تغافل کی۔ زندگی شعور اور احساس کے ساتھ برتنے کا معاملہ ہے۔ ہم عمر کے کسی بھی مرحلے میں بے ذہنی کے متحمل ہوسکتے ہیں نہ بے دِلی کے۔ بے دِلی سے جینے میں کچھ لطف نہیں اور بے ذہنی تو انسان کو بالآخر تباہی کی طرف دھکیل ہی دیتی ہے۔ اِن دونوں انتہاؤں سے بچتے بچاتے اِس طور جینا ہے کہ ہم زندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کے قابل ہوں۔ دن کو رات اور رات کو دن کرنے سے زندگی کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ زندگی اِس سے بہت آگے کا معاملہ ہے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کے بارے میں سوچنا اور منصوبہ سازی کے مراحل سے گزرتے رہنا ہے۔ یہ مرتے دم تک کا معاملہ ہے۔
تاریخ کا مطالعہ کیجیے، اپنے ماحول کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ بہت سے ہیں جو 80‘ 90 سال جیے مگر محض جیے، کچھ ایسا کیا ہی نہیں جو اُنہیں لوگوں کے حافظے میں محفوظ رکھے۔ دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں جو محض 40 یا 50 سال کی عمر میں دنیا سے چل دیے مگر اِتنا کچھ کرگئے کہ دنیا بھولنے کا نام نہیں لیتی۔ زندگی کے معاملے میں مقدار سے کہیں زیادہ معیار کی اہمیت ہے۔ یہ نہیں دیکھنا کہ کتنا جیے بلکہ دیکھنا صرف یہ ہے کہ جیے کیسے۔ محض وقت گزارنا کافی نہیں، وقت کو زندگی میں تبدیل بھی کرنا ہے۔