زندگی سبق سکھانے پر تُلی رہتی ہے اور ہم کچھ نہ سیکھنے پر ڈٹے رہتے ہیں۔ یہ مرتے دم تک کا معاملہ ہے۔ مزاج کا عجیب ہی قصہ ہے۔ ایک ہی جیسے دو الگ معاملات میں ردِعمل الگ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کسی معمولی سی بات پر انسان پھٹ پڑتا ہے اور کبھی کوئی بہت بڑی بات بھی اُسے ہلا نہیں پاتی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ ہم زندگی بھر شدید عدم توازن کا جھولا جھولتے رہتے ہیں؟ اعتدال کی راہ پر گامزن ہونے سے ہمیں کون سی بات روکتی ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمیں توازن سے دور رہنے پر اُکساتے رہتے ہیں؟
سوچیے تو بہت کچھ ہے جو ذہن کے پردے پر نمودار ہوتا ہے، ایک جھلک دکھاکر غائب ہو جاتا ہے اور ہم سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ ذہن کہاں پہنچا تھا اور کیا نکال لایا۔ ہم یومیہ بنیاد پر بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور باضابطہ منصوبہ سازی کے ذریعے بھی زندگی کا معیار قابلِ رشک حد تک بلند کرسکتے ہیں۔ ایسا بالعموم ہوتا نہیں! ہم کبھی کبھی کچھ سیکھنے کے حوالے سے بہت پُرجوش ہوتے ہیں مگر پھر اچانک سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھتا چلا جاتا ہے۔ کیوں؟ یہ ''کیوں‘‘ جان نہیں چھوڑتا۔ ہم کچھ دور چلتے ہیں اور کسی نہ کسی ''کیوں‘‘ کے باعث رُک جاتے ہیں۔ کیا زندگی صرف اس لیے ہے کہ ہر معاملے سے کوئی نہ کوئی سبق سیکھا جاتا رہے؟ کیا سیکھتے رہنا لازم ہے؟ کیا ہر انسان کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنے کی صورت ہی میں شاندار اور قابلِ رشک نوعیت کی کامیابی حاصل کر پاتا ہے؟ کسی بھی معاشرے میں ہمیں شاندار کامیابی سے ہم کنار ہونے والے دکھائی دیتے ہیں اور انتہائی ناکام افراد بھی۔ کسی سے پوچھئے کہ اُس کی کامیابی کا راز کیا ہے تو ٹھیک سے بتا نہیں پاتا کیونکہ اُس کی کامیابی میں اُس کے وجود سے کہیں زیادہ دوسروں کا کردار ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ناکامی کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی بہت محنت کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتا۔ اُس کی ناکامی میں دوسروں کا یعنی حالات یا پھر سازش کا کردار ہوسکتا ہے۔ ناکامی چاہے کسی کی پیدا کردہ ہو، متعلقہ فرد ہی کو اُس کی ذمہ داری قبول کرنا پڑتی ہے۔
ہمارے لیے کوئی بھی معاملہ دردِ سر کب بنتا ہے؟ اِس سوال کا جواب مختلف طریقوں سے دیا جاسکتا ہے۔ ہر انسان اپنے ماحول اور حالات کی روشنی میں کوئی رائے دیتا ہے۔ کسی کو معمولی سی بات بھی بہت بڑے بحران جیسی دکھائی دیتی ہے اور کسی کے لیے بہت بڑا بحران بھی اِس قابل نہیں ہوتا کہ اُسے درخورِ اعتنا سمجھا جائے۔ حالات کا فرق اختلافِ رائے کو جنم دیتا ہے۔ کسی بھی موضوع پر بحث کا جائزہ لیتے وقت ہمیں بحث کرنے والوں کے حالات اور ماحول کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ کسی کے لیے بڑی مالیاتی الجھن بھی کوئی مفہوم نہیں رکھتی اور کسی کے لیے ذرا سی مالی دشواری زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتی ہے۔ یہ معاملہ معاشرتی معاملات کا بھی ہے۔ جب ہم سیاق و سباق سے ہٹ کر سوچتے اور معاملات کو دیکھتے ہیں تب کچھ خاص سمجھ نہیں پاتے۔ کسی بھی معاملے کو سمجھنے کی بہترین صورت یہ ہوتی ہے کہ سیاق و سباق کو نظر انداز نہ کیا جائے اور تمام پہلوؤں کے بارے میں غور کیا جائے۔ ایسا بالعموم مگر ہوتا نہیں۔ لوگ کسی بھی معاملے کو سمجھنے کے معاملے میں اپنی خواہشات کو بالائے طاق رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ خوش گمانی اور خام خیالی انسان کا دامن نہیں چھوڑتی۔ اِسی کے نتیجے میں ہم معاملات کو سمجھنے میں کامیاب بھی نہیں ہو پاتے۔
انسانی مزاج کا ایک خطرناک بلکہ تباہ کن پہلو یہ بھی ہے کہ بیشتر معاملات میں وقت کی موزونیت کے ساتھ کچھ کرنے کے بجائے محض انتظار کیا جاتا ہے کہ معاملات بگڑیں تو کچھ کیا جائے۔ اور جب معاملات بگڑتے ہیں تو بدحواسی کچھ زیادہ کرنے نہیں دیتی۔ پانی کو سر سے گزرنے دیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ آخری لمحات میں جاگنے کا کچھ خاص فائدہ ہوتا نہیں۔ جاگنا ہے تو اُس وقت جاگیے جب معاملات کو درست کرنے کی مہلت میسر ہو۔ وقت ہی سب کچھ ہے۔ اگر کسی خرابی کو دور کرنے کے لیے معقول حد تک وقت میسر ہو تو کچھ بھی کرنے کا سوچئے۔ بصورتِ دیگر کچھ ہونے والا نہیں۔ اہمیت اِس بات کی ہے کہ انسان ٹھیک اُس وقت جاگے جب بہت کچھ ہاتھ میں ہو، معاملات کو درست کرنے کی گنجائش بھی موجود ہو اور اُس گنجائش کو بروئے کار لانا بھی ممکن ہو۔ ہمارے بیشتر معاملات صرف اُس وقت الجھتے ہیں جب ہم وقت گزرنے کے بعد متحرک ہونے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ تحرک کام کا ہے مگر صرف اُس وقت جب اُس کے اظہار کا وقت ہو۔
2017ء کی ہالی وُڈ مووی ''ڈارکسٹ آور‘‘ (Darkest Hour) کا ایک خوبصورت جملہ دیکھیے ''سبق کب سیکھا جائے گا؟ آپ شیر سے بحث نہیں کرسکتے جب آپ کا سر اُس کے منہ میں ہو‘‘۔ انسان کا معاملہ واقعی عجیب ہے۔ وہ بیشتر معاملات میں سہل پسند واقع ہوا ہے۔ سہل پسندی یعنی کاہلی، تن آسانی۔ مشکل معاملات کو آسان بنانے کی سعی الگ چیز ہے اور غیر متحرک ہوکر بیٹھ رہنا، معاملات کے درست ہونے کا انتظار کرنا اور چیز۔ معاملات انفرادی ہوں یا اجتماعی‘ بروقت توجہ نہ دی جائے اور تحرک نہ دکھایا جائے تو بگڑی بات بنتی نہیں۔ یہ ہر انسان اور ہر معاشرے کا معاملہ ہے۔ کسی بھی بگڑے ہوئے معاملے کو سنوارنے کے لیے جتنی محنت درکار ہوتی ہے اُتنی محنت کرنا ہی پڑتی ہے اور وہ بھی وقت کی موزونیت کے ساتھ۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ کسی بھی بحرانی کیفیت کو ابتدائی مراحل میں شناخت کرنے کی اول تو کوشش نہیں کرتا۔ اگر کوشش کرے اور سمجھ بھی لے تو متعلقہ سطح کا رِسپانس دینے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ جب کسی بحران سے بطریقِ احسن نپٹنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں جائے گا تو بات بنے گی کیسے؟
ہم اس نازک اور خطرناک حقیقت کو نظر انداز کرنے کے عادی ہوچکے ہیں کہ ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں وہ گزرے ہوئے تمام ادوار کی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ کسی بھی دور نے انسان کے لیے وہ چیلنجز پیدا نہیں کیے جو آج کا عہد کر رہا ہے۔ سب کچھ الٹ پلٹ چکا ہے۔ اب کسی بھی تبدیلی سے چشم پوشی کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔ ہمارے ارد گرد جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ہماری توجہ چاہتا ہے۔ عدمِ توجہ کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے یہ ہم جانتے ہیں کیونکہ ہم بیشتر معاملات میں ایسے نتائج بھگتتے آئے ہیں۔ پھر بھی بھرپور ذوق و شوقِ عمل کا مظاہرہ کرنے کی تحریک مشکل سے مل پاتی ہے۔ اِس کا ایک سبب تو تن آسانی کو حرزِ جاں بنائے رکھنے کی عادت ہے اور دوسرا‘ یہ بھی کہ ہم بیک وقت بہت سے معاملات میں الجھے رہتے ہیں۔ یہ ہر انسان کا مسئلہ ہے۔ یہ دور ذہن پر وار کرتا رہتا ہے۔ ہر طرف سے کچھ نہ کچھ آتا ہے اور ذہن کو نشانہ بناتا رہتا ہے۔ یہ بھی مرتے دم تک کا معاملہ ہے۔ ایسی حالت میں اپنے آپ کو اعتدال کی راہ پر گامزن رکھنا، بیشتر معاملات میں معقولیت پر مبنی طرزِ فکر و عمل اختیار کرنا ہی ہمارے لیے سب سے بڑی آزمائش ہے۔ یہ آزمائش سب کے لیے ہے۔ کوئی ایک انسان بھی اس معاملے میں رعایت کا مستحق نہیں ملتا۔ ''ڈارکسٹ آور‘‘ کا شاہکار جملہ بتاتا ہے کہ ہم زندگی بھر معاملات کو کچھ کا کچھ ہونے دیتے ہیں اور پھر اُس وقت معاملات کو درست کرنے پر مائل ہوتے ہیں جب بہت کچھ ہاتھ سے جاچکا ہوتا ہے۔ ہم کسی بھی معاملے کو خوب بگڑنے دیتے ہیں اور جب وہ معاملہ ہمیں گرفت میں لے لیتا ہے، ہمارے حصے کے امکانات ختم کرنے پر تُل جاتا ہے تب ہمیں کچھ کرنے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔
زندگی اس لیے تو نہیں ہے کہ ہم محض تماشا دیکھتے رہیں۔ تماشائی بنے رہنے سے معاملات کی خرابی بڑھ کر ہمیں اپنے شکنجے میں کس لیتی ہے۔ اگر کچھ کرنا ہے تو اُس وقت کیجیے جب کچھ کرنے کا موزوں ترین وقت ہو۔ پہلے یا بعد میں کچھ بھی کیجیے تو خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔ کسی بھی معاملے کو اِتنا بگڑنے مت دیجیے کہ وہ شیر کی طرح بڑھ کر آپ کی گردن اپنے منہ میں لے لے۔ بات جب یہاں تک پہنچ جائے تو کچھ کرنا تو دور کا معاملہ رہا‘ سوچنے کی گنجائش بھی ختم ہو جاتی ہے۔