سٹاک مارکیٹ اور کارپوریٹ سیکٹر میں غیر معمولی حیثیت کے حامل امریکی ارب پتی وارن بفیٹ (Warren Buffett)کا نام ہر اُس شخص نے سُن رکھا ہے جو اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کا خواہش مند ہے اور بہت کچھ کرنے کے لیے تیار بھی رہتا ہے۔ وارن بفیٹ نے اپنی کامیابی کے بارے میں بتانے کے حوالے سے کبھی بخل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ کامیابی کی اہلیت رکھنے والا ہر فرد کامیاب ہو۔ امریکہ کو وارن بفیٹ مواقع کی سرزمین قرار دیتے ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ امریکہ ہر اُس انسان کے لیے ہے جس میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں بھرپور کامیابی کے حوالے سے وارن بفیٹ نے جو چند بنیادی اصول بتائے ہیں اُن میں بنیادی اہمیت کا حامل یہ اصول بھی شامل ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے بہترین اور اہم ترین سرمایہ کاری وہ ہے جو وہ اپنے وجود پر کرتا ہے!
اپنے وجود پر سرمایہ کاری؟ عجیب سی بات لگتی ہے۔ اپنے وجود پر سرمایہ کاری کے بہت سے مفاہیم ہیں۔ کوئی بھی انسان اپنے وجود کو کچھ کا کچھ بناسکتا ہے اور بناتا ہے۔ وارن بفیٹ جیسے لوگ نئی بات کم ہی کہتے ہیں مگر ہاں‘ اُنہیں پُرانی بات نئے انداز سے اور مؤثر طور پر کہنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ وہ اپنے تجربے اور کامیابی کی بنیاد پر ایسا بہت کچھ بیان کرتے ہیں جس کی بنیاد پر عام آدمی بھی بہت کچھ بننے اور کرنے کی تحریک پاسکتا ہے۔ انسان بہت کچھ پانا چاہتا ہے۔ اِس کے لیے وہ وسائل بھی جمع کرتا ہے اور مواقع کی تلاش میں بھی رہتا ہے تاکہ وسائل کو ڈھنگ سے بروئے کار لایا جا سکے۔ انسان زندگی بھر امکانات ڈھونڈتا پھرتا ہے اور امکانات میں وسعت لانے کے لیے بھی کوشاں رہتا ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر بنیادی معاملے پر تو خاطر خواہ توجہ دی ہی نہیں جاتی۔ کسی بھی انسان کو بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اپنے وجود پر متوجہ ہونا چاہیے۔ اپنے وجود پر متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرنا چاہتا ہے اُس کے لیے اپنے آپ کو بہترین انداز سے تیار کرے۔ کسی بھی انسان کی کامیابی کا سفر صحیح معنوں میں اُسی وقت شروع ہوسکتا ہے جب وہ اپنے بارے میں خاطر خواہ حد تک سنجیدہ ہو۔ اپنے وجود کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سوچنے کی صورت میں صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے سب سے مقدم اُس کا اپنا وجود ہوتا ہے۔ اپنے وجود کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ اِس کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوسکتا کہ انسان الجھ کر رہ جائے، ناکامی سے دوچار ہو رہے۔
وارن بفیٹ کا مشورہ اصل میں یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو کامیابی کے مختلف مراحل کے لیے اچھی طرح تیار کرتا رہے۔ یہ مستقل عمل ہے۔ کسی نے چاہے کوئی بھی ہدف طے کیا ہو، تیاری تو زندگی بھر کی ہوتی ہے۔ اگر کسی نے طے کیا ہے کہ لکھاری کی حیثیت سے کیریئر بنانا ہے تو اُسے لکھنا سیکھنا پڑے گا۔ یہ عمل بھی زندگی بھر کا ہے۔ زندگی بھر دوسروں کو پڑھنا پڑے گا تاکہ اُن کے خیالات سے کماحقہٗ واقف ہوکر خیالات کو دہرانے سے بچا جاسکے۔ پڑھتے رہنا کیا ہے؟ اپنے وجود میں سرمایہ کاری! کوئی جتنا پڑھتا جاتا ہے اُس کی تحریر میں اُتنا ہی نکھار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنے ذہن میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے یعنی زیادہ پڑھنے سے انسان اپنے امکانات میں وسعت لاتا چلا جاتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں کیریئر کے لیے امکانات میں توسیع کا یہی معقول ترین طریقہ ہے۔ لوگ کسی بھی شعبے میں غیر معمولی کارکردگی یقینی بنانے کی جدوجہد کے دوران یہ اہم نکتہ نظر انداز کردیتے ہیں کہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ بدلنا لازم ہوتا ہے۔ جب پورا ماحول بدل رہا ہو تو انسان کے لیے جامد رہنا کسی بھی اعتبار سے فائدے کا سودا نہیں ہوتا۔ بدلتا ہوا ماحول ہمیں اپنے وجود میں سرمایہ کاری کی تحریک دے رہا ہوتا ہے۔ بدلتے ہوئے وقت کے ہاتھوں بہت کچھ نیا سامنے آتا رہتا ہے جو ہمیں بھی کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی تحریک دیتا جاتا ہے۔ اگر ہم کچھ نیا کرنے کی تحریک کو بروئے کار نہ لائیں تو ہمارے لیے مشکلات بڑھتی ہیں کیونکہ دوسرے آگے بڑھ جاتے ہیں اور ہم پیچھے رہ جاتے ہیں۔
دنیا کا دستور ہے کہ ہر شعبے میں پیشرفت کا بازار گرم رہتا ہے۔ کبھی اِس گرم بازاری کی رفتار بہت کم تھی۔ اب بہت زیادہ ہے اور بڑھتی ہی جارہی ہے۔ یہ بھی فطری ہے۔ جب بہت کچھ ایجاد یا دریافت نہیں ہوا تھا تب پیشرفت کا بازار زیادہ گرم نہیں تھا اور زندگی کی رفتار بھی بہت مدھم اور پُرسکون تھی۔ تب انسان کے لیے حواس کو قابو میں رکھنا اور ذہن کو متوازن رکھتے ہوئے جینا بہت حد تک ممکن تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے ذہن پر دباؤ بڑھتا گیا اور اب معاملہ یہ ہے کہ ذہن کو مکمل توازن کی حالت میں رکھنا اور صورتِ حال کے تمام تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے زندگی بسر کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ دنیا جہاں پہنچ چکی ہے وہاں ہر طرف خیالات کی بھرمار اور مفادات کا تصادم ہے۔ اب کسی بھی انسان کے لیے اپنے خیالات کو متوازن رکھنا اور مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے معاملے میں متوازن رہنا کسی بھی درجے میں آسان نہیں رہا۔
اپنے وجود میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ہم انتہائی پریشان کن دور سے گزر رہے ہیں۔ وسائل کی کمی نہیں مگر سوال اُن کے حصول کا ہے۔ ہر انسان کے لیے ممکن نہیں کہ بازار میں جو کچھ دستیاب ہے وہ سب کا سب اپنے گھر میں لے آئے۔ انتخاب کا مرحلہ انتہائی درجے کے دردِ سر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایسے میں اپنے وجود کو اَپ گریڈ کرنا جُوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ آج کا انسان انتہائی خوش نصیب ہے کہ اُسے ہر شعبے میں منطقی طور پر آخری حد تک کی ترقی دکھائی دے رہی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ آج کا انسان انتہائی قابلِ رحم بھی ہے کہ اُس کے لیے ذہن کو درست حال میں رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنا آسان نہیں رہا۔ قدم قدم پر الجھنیں ہیں۔ اپنے آپ کو اَپ گریڈ کرنے کا عمل ایسا آسان نہیں کہ کہیے اور ہو جائے۔ اِس کے لیے سخت جاں گُسل نوعیت کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ وارن بفیٹ نے اپنے وجود میں سرمایہ کاری کا جو مشورہ دیا ہے اُس پر عمل کرنے میں انسان کھپ جاتا ہے۔ ہاں‘ اِس کے عوض جو کچھ ملتا ہے وہ قابلِ رشک ہوتا ہے۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ محنت اپنا عوض آپ ہوتی ہے۔ پوری سنجیدگی اور دیانت کی جانے والی محنت ایسی طمانیت دیتی ہے جس کا موازنہ کسی بھی چیز سے نہیں کیا جاسکتا۔
بھرپور زندگی بسر کرنے کے لیے انسان کو بہت کچھ طے کرنا پڑتا ہے۔ بھرپور زندگی یعنی کسی شعبے کو منتخب کرکے اُس پر پوری توجہ مرکوز رکھنا اور اپنی ساری صلاحیت و سکت اُس شعبے میں اپنی کارکردگی کو مثالی بنانے کے لیے بروئے کار لانا۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہوتا ہے جب ہم متعلقہ شعبے کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے اپنے آپ کو بدلتی ہوئی صورتِ حال کے مطابق تیاری کی حالت میں رکھیں۔ اب تبدیلی کی رفتار چونکہ بہت زیادہ ہے اِس لیے اپنے وجود میں سرمایہ کاری بھی زیادہ اور مستقل بنیاد پر کرنا پڑتی ہے۔ سوال صرف بہت کچھ سیکھنے کا نہیں بلکہ یہ طے کرنے کا بھی ہے کہ سیکھنا کیا ہے۔ وقت بہت کچھ سیکھنے کی راہ دکھا رہا ہے مگر سب کچھ ہمارے کام کا نہیں۔ ہمیں قدم قدم پر طے کرنا پڑتا ہے کہ کون سی چیز ہمارے کام کی ہے اور کون سی نہیں۔
معاملہ اَپ ڈیٹنگ سے کہیں آگے جاکر اَپ گریڈنگ کا ہے۔ آپ کی معلومات کا بالکل تازہ اور درست ہونا کافی نہیں، لیاقت بھی بدرجہ اتم ہونی چاہیے۔ کھیل کا مزہ تبھی ہے جب انسان کو کھیلنا آتا ہو، اُس کے بنیادی اصول اور قواعد معلوم ہوں۔ محض میدان میں اُترنے سے کوئی جیتے گا تو کیا‘ کھلاڑی بھی نہیں کہلائے گا۔ آپ نے بھی کچھ نہ کچھ تو طے کیا ہوگا۔ اب ذرا نظرِ ثانی کیجیے۔ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کیجیے۔ اپنے وجود پر کی جانے والی سرمایہ کاری کا گراف بلند کیجیے۔ زمانہ عجیب ہے۔ اپنے وجود پر سرمایہ کاری گھٹی تو سمجھیے شخصیت ہی گھٹ گئی۔