"MIK" (space) message & send to 7575

خوش رہنا ہے‘ خوش رکھنا ہے

اس حقیقت کو تو آپ بھی تسلیم کرتے ہوں گے کہ کسی واضح مقصد کے بغیر بسر کی جانے والی زندگی کسی بھی درجے میں زندگی کہلانے کی مستحق نہیں ہوتی۔ قدرت نے ہمیں اس بات کا پابند کیا ہے کہ چند چھوٹے مقاصد اور ایک خصوصی یا بڑے مقصد کا تعین کیے بغیر زندگی بسر نہ کریں۔ اس دنیا میں کچھ بھی تو نہیں جو بلا مقصد ہو۔ کسی بھی بے جان چیز اور کسی بھی جاندار کو دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ اُس کا کچھ نہ کچھ مقصدِ تخلیق ضرور ہے۔ جب دیگر تمام جمادات و نباتات اور جاندار کسی نہ کسی مقصد کے تحت زندگی کی نعمت سے سرفراز کیے گئے ہیں تو پھر انسان کیونکر کسی مقصد کے بغیر جی سکتا ہے یا اسے جینا چاہیے۔ انسان کے لیے تو مقصد کے تعین کا معاملہ بہت اہم بلکہ زندگی کی بنیاد ہے۔
زندگی کے بہت سے مقاصد ہوسکتے ہیں۔ مقاصد کا تنوع زندگی کی رنگینی بڑھاتا ہے۔ ہم زندگی بھر یہی سوچتے رہتے ہیں کہ زندگی کا بنیادی مقصد کیا ہونا چاہیے۔ یہ سوچتے سوچتے ہی ہم اپنا سارا وقت ختم کر بیٹھتے ہیں اور دنیا سے بوریا بستر لپیٹنے کی منزل آجاتی ہے۔ زندگی کے بارے میں سوچنا ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے۔ سوچے بغیر ہم کچھ بھی طے نہیں کرسکتے کیونکہ سوچنے ہی سے طے ہو پاتا ہے کہ کچھ بھی کیوں، کیسے، کہاں، کب اور کس حد تک کیا جانا چاہیے۔ عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ موقع ملتے ہی یا سر پر ذمہ داری پڑتے ہی سوچنے سے بھاگتا ہے۔ اُسے ایسا لگتا ہے کہ سوچنے کا عمل کسی بھی درجے میں کچھ خاص سُودمند نہیں اور ایسا کرنے سے بالعموم الجھنیں بڑھتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ معاشرے میں غالب اکثریت اُن کی ہے جو ''سوچاں نئیں تے موجاں ای موجاں‘‘ کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ ذرا تسلی سے معاشرے کا جائزہ لیجیے تو آپ اِس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جو لوگ ہر معاملے میں اچھی طرح سوچ بچار کرنے کے عادی ہوتے ہیں اُن کے لیے الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سوچنے سے احساسِ ذمہ داری بھی توانا ہوتا ہے۔ جب کسی کو معاملات کی اصلیت کا اندازہ ہوتا ہے تو وہ آنکھیں بند کرکے کسی بھی راہ پر چل نہیں پڑتا بلکہ کسی نہ کسی طور اپنے آپ کو معاملات سے جوڑے رکھتا ہے، حقائق سے چشم پوشی نہیں کرتا اور یوں اُس کی گردن میں پھندا پہلے پڑتا ہے! سوچنے والوں کو آپ دوسروں سے بہت الگ پائیں گے۔ اُن میں ٹھہراؤ بھی ہوتا ہے اور حساب کتاب بھی۔ وہ کوئی بھی کام کسی واضح ترتیب یا نظم کے بغیر نہیں کرتے۔
ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں تو قدم قدم پر اندازہ ہوتا ہے کہ بیشتر خرابیوں کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ سوچتے نہیں۔ سوچنے سے گریز کے نتیجے ہی میں زندگی کا توازن بگڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب سبھی کچھ سامنے ہے، سوچنے کا نتیجہ بھی اور نہ سوچنے کا نتیجہ بھی تو پھر انسان سوچنے سے گریز کی روش ترک کیوں نہیں کرتا۔ انسان سوچنے سے اصلاً اس لیے بھاگتا ہے کہ اِس کے لیے اپنے آپ پر تھوڑا سا جبر بھی کرنا پڑتا ہے۔ سوچنے کا عمل انسان کو چند ایک معاملات میں ایثار کی طرف جانے کی تحریک دیتا ہے۔ اگر مزاج میں ایثار نہ ہو تو انسان سوچنے کے عمل سے دور رہنا پسند کرتا ہے۔ کوئی سوچنے کو کتنا ہی غیر اہم سمجھے، تھوڑے سے غور و فکر سے سمجھ سکتا ہے کہ سوچنے ہی سے زندگی کا حسن بڑھتا ہے، ترتیب کا سامان ہوتا ہے، زندگی کو زیادہ بارآور بنانے کا موقع ملتا ہے۔ سوچنے ہی سے ہم طے کر پاتے ہیں کہ قدرت نے زندگی کی شکل میں جو عالی شان نعمت عطا فرمائی ہے اُس کا کرنا کیا ہے۔ ہر انسان کو یہ طے کرنا ہی پڑتا ہے کہ زندگی سے کیا کشید کرنا ہے اور اِسے کیا دینا ہے۔ یہ خالص لین دین کا معاملہ ہے یعنی جتنا گُڑ ڈالیے اُتنا ہی میٹھا ہوگا۔ کنویں سے وہی چیز باہر آتی ہے جو اُس میں ہوتی ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کنویں میں کھارا پانی ہو اور آپ میٹھے پانی کی اُمید میں ڈول ڈالیں اور کنویں کا کھارا پانی ڈول میں آنے پر‘ محض آپ کی خواہش کی احترام میں‘ میٹھا ہوجائے۔ ایسا کسی معجزے سے تو ہوسکتا ہے مگر معجزے اب نہیں ہوتے۔ عمومی معاملات میں ہمیں اُنہی اصولوں کا پابند رہنا پڑتا ہے جس کی پابندی کائنات کا ذرہ ذرہ کرتا ہے۔ہم زندگی بھر چند خصوصی معاملات کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ زندگی زیادہ سے زیادہ بارآور ثابت ہو۔ زندگی کی دلکشی، رنگینی اور اثر پذیری بڑھانے کے لیے ناگزیر ہے کہ خوب سوچ سمجھ کر جیا جائے۔ جب انسان کسی بھی معاملے کے تمام ممکنہ عواقب پر نظر رکھتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے تب حقیقی مسرت کا سامان ہوتا ہے۔
فلموں نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ غیر معمولی موضوعات پر بنائی جانے والی فلموں سے انسان کو بہت کچھ کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ ایک دور تھا کہ لوگ صرف محبت کی داستان دیکھنا چاہتے تھے۔ اب فلم بین بہت کچھ دیکھنے کے متمنی ہیں‘ بالخصوص کچھ ایسا جو اُن کی زندگی میں تھوڑی بہت تبدیلی کی راہ ہموار کرے۔ 2007ء میں ریلیز ہونے والی معروف فلم ''دی بکٹ لسٹ‘‘ میں ایک خوبصورت جملہ یوں ہے ''قدیم مصر میں ایک کہاوت بہت مشہور تھی۔ کہا جاتا تھا کہ جب انسان بعد از مرگ حساب کتاب کے مرحلے سے گزرتا ہوا جنت کے دروازے پر پہنچے گا تو اُس سے دو سوال پوچھے جائیں گے۔ اُن سوالوں کے جواب کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا کہ وہ شخص جنت میں داخلے کا مستحق ہے یا نہیں۔ پہلا سوال تو یہ ہوگا کہ دُنیوی زندگی میں کبھی حقیقی مسرت پائی اور دوسرا سوال یہ ہوگا کہ کسی کو خوش رکھنے کی کوشش کی یا نہیں‘‘۔
خوش رہنا ہر انسان کے لیے بنیادی یا خصوصی مقصد کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی میں مسرت کا سامان ہوتا رہے۔ خوش رہنے کی خواہش بالکل فطری ہے۔ آج کی زندگی الجھنوں اور پیچیدگیوں سے عبارت ہے۔ ویسے تو ہر دور کے انسان کو مختلف معاملات میں آزمائش کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؛ تاہم آج کا انسان قدرے مختلف زندگی بسر کر رہا ہے۔ وہ بہت کچھ پانا چاہتا ہے مگر کچھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ روش یا طرزِ فکر و عمل زندگی کو زیادہ بارآور نہیں بناسکتی۔ انسان کو خوشی اُسی وقت ملتی ہے جب وہ دوسروں سے بہت کچھ حاصل کرتا ہے اور اُنہیں بھی بہت کچھ دینے پر راضی رہتا ہے۔
کسی بھی ماحول میں صرف اُنہیں پسند کیا جاتا ہے جو خوش رہتے ہیں اور خوش رکھتے ہیں۔ یہ دونوں عمل دو طرفہ نوعیت کے ہیں؛ یعنی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو دوسروں کی خوشی میں خوش رہنا پڑے گا۔ بالکل اِسی طور آپ کسی کے لیے خوشی کا سامان کریں گے تو وہ بھی جواب میں آپ کو تھوڑی بہت خوشی ضرور دینا چاہے گا۔خوشی کسی بھی شکل میں اور کسی بھی حد تک ہوسکتی ہے۔ ہر معاملے میں مال و زر کا فرنٹ پر ہونا ناگزیر نہیں۔ یہ بھی لازم ہے کہ مال و زر کا کردار ہی کسی معاملے کے بطن سے ہمارے لیے واقعی خوشی برآمد کرے گا۔ خوش رہنا مزاج کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔ جو خوش مزاج ہوتے ہیں وہ اپنے قریب ترین ماحول کو تر و تازہ رکھتے ہیں۔ اُن کے ساتھ کچھ وقت گزارنے والے اچھے موڈ کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں۔ اور پھر اُن میں بھی دوسروں کو خوش رکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
آپ کیا چاہتے ہیں؟ خوش رہنا یا بیزاری سے لدی ہوئی زندگی بسر کرنا؟ بیزاری اور ناخوشی کے ساتھ جینے میں کچھ نہیں رکھا۔ آپشن اگر ہے تو خوش رہنے ہی کا ہے۔ جب تک ہم خوش رہتے ہیں، ماحول جگمگاتا رہتا ہے۔ جیسے ہی ہم بیزاری کی سمت بڑھتے ہیں، ماحول کی رعنائی اور سرخوشی دم توڑنے لگتی ہے۔ قدرت بھی یہی تو چاہتی ہے کہ ہم خوشی خوشی جئیں اور اپنے وجود کو صرف اپنے لیے بروئے کار نہ لائیں بلکہ دوسروں کو بھی کچھ دیں۔ کسی کو تھوڑی سی خوشی دینے کیلئے کچھ خاص خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ یہ صرف طے کرنے کا معاملہ ہے۔ اِدھر آپ نے فیصلہ کیا اور اُدھر زندگی میں خوشی کا سامان ہوا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں