"MIK" (space) message & send to 7575

وہ کہاں رہ گئے؟

ہماری کائنات توازن اور اعتدال سے عبارت ہے۔ جہاں بھی اعتدال کے قدم لڑکھڑاتے ہیں وہاں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ قدرت نے ہمیں جو کچھ بھی عطا کیا ہے اُس میں سر بسر توازن ہے۔ یہ توازن اگر بگڑتا ہے تو ایسا صرف ہمارے ہاتھوں ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے افکار و اعمال کو متوازن رکھنے سے اجتناب برتنے لگتے ہیں اور زندگی بسر کرنے کے طریق کو لاپروائی کی نذر کرتے ہیں تب تمام معاملات اپنی اصل سے ہٹ کر عدمِ اعتدال کی طرف رواں ہو جاتے ہیں۔ آج ہمیں زندگی سر بسر غیر متوازن دکھائی دے رہی ہے۔ کوئی ایک معاملہ بھی اپنی اصل سے مطابقت رکھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا بنیادی طور پر اس لیے ہے کہ ہم ڈھنگ سے جینے کے نام پر ایسا بہت کچھ کر رہے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے۔ زندگی میں توازن اور حسن صرف اُس وقت پیدا ہوتا یا برقرار رہتا ہے جب ہم شعوری سطح پر ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارا ماحول چاہے جو بھی ہو‘ وہ ہر وقت اعتدال سے دور ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ لوگ مختلف سطحوں پر ایسا بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں جو توازن اور اعتدال کو ڈکار لیے بغیر ہضم کرنے کے درپے رہتا ہے۔ اگر ہم متوجہ نہ ہوں یعنی لاپروائی اور بے شعوری کو شعار بنالیں تو زندگی کے حسن کو غارت ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ڈھنگ سے جینے کی خواہش کس کے دل میں نہیں ہوتی؟ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ یا تو کسی بہت کامیاب شخصیت کی طرح جیے یا پھر اُس کی اپنی زندگی ایسی ہو کہ لوگ مثال دیتے پھریں۔ ڈھنگ سے جینے کا معاملہ محض سوچنے یا خواہش کرلینے کا نہیں۔ اِس کے لیے بہت تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ زندگی اگر نظم و ضبط سے عاری ہو تو کسی کام کی نہیں ہوتی۔ منصوبہ سازی اور نظم و ضبط سے نابلد یا گریزپا انسان کسی اور کے کام تو کیا آئے گا‘ اپنے لیے بھی کام کا نہیں ہوتا۔ ہر دور کا انسان ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونے کے معاملے میں تگ و دَو کے مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے کیونکہ قدرت کی طرف سے ہمیں خام مال فراہم کیا گیا ہے۔ اپنے مطلب کی end product ہمیں خود تیار کرنی ہے۔ اِس حوالے سے کی جانے والی تگ و دَو ہی میں تو زندگی کا لطف اور حسن پوشیدہ ہے۔ اگر سبھی کچھ بنا بنایا مل جایا کرے تو پھر انسان کے لیے عظمت کس چیز میں باقی رہے؟
ہر دور میں زندگی کے کچھ نہ کچھ بنیادی تقاضے رہے ہیں۔ چند ایک تقاضے زمان و مکان کی قید سے بہت دور ہیں یعنی ہر دور کے انسان کو اُن تقاضوں کا خیال رکھنا ہی پڑا ہے۔ وقت کی تنظیم و تطبیق بھی ایسا ہی تقاضا ہے۔ قدرت کی طرف سے عطا کیے جانے والے وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانا ہر دور کے انسان کا بنیادی مسئلہ یا معاملہ رہا ہے۔ وقت کے بارے میں سنجیدگی اختیار کرنے والے ہی کچھ کر پاتے‘ ڈھنگ سے جی پاتے ہیں۔ جب زندگی میں زیادہ ہماہمی اور حشر سامانی نہ تھی تب بھی وہی لوگ کامیاب ہو پاتے تھے جو وقت کو بطریقِ احسن بروئے کار لانے کی شعوری کوشش کیا کرتے تھے۔ جب زیادہ بھاگ دوڑ نہیں تھی تب بھی وقت کے معاملے میں سنجیدہ ہونا لازم تھا کیونکہ زندگی کی سست رفتاری انسان کو بھی سست بنا دیتی تھی۔ ماحول پر چھایا ہوا جمود فرد پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اگر پورے ماحول پر جمود طاری ہو تو فرد میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ زیادہ زور نہیں پکڑتا۔ ستائش اور معاوضے سے ہٹ کر بھی چند ایک عوامل ہیں جو انسان کو عمل کی تحریک دینے کے لیے ناگزیر ہیں۔ ماحول میں گرم جوشی اور ہماہمی ہو تو انسان کو کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک ضرور ملتی ہے۔ پُرجوش ماحول میں ٹھنڈے مزاج کا انسان بھی متحرک ہونے کے بارے میں سوچنا شروع کردیتا ہے۔ زندگی کی ہماہمی اور کشاکش بہت کچھ دیتی ہے تو بہت کچھ چھین بھی لیتی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھیے ہمارے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ آج ہماری زندگی سے اچھی خاصی دلکشی جاتی رہی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے کہ ہم زندگی میں دلکشی بڑھانے کے لیے کوشاں رہے ہیں! سبھی کو یہ فکر لاحق ہے کہ کسی نہ کسی طور زندگی کا دم خم بڑھ جائے۔ اب چاہے ایسا کرنے میں اپنا دم خم گھٹتا ہے تو گھٹتا رہے۔ اِس کی کسی کو کچھ خاص پروا نہیں۔ زندگی کی دلکشی میں اضافے کی خواہش کو عملی جامہ پہناتے وقت بیشتر کے ذہن میں صرف یہ بات رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کی جائے۔ یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ جو کچھ بھی ملے گا دولت کے بل پر ملے گا۔ جب ہم تمام معاملات کو خالص مادّہ پرستی کی عینک لگاکر دیکھتے ہیں تو یقینی طور پر توازن سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ زندگی جن باتوں سے متوازن ہوتی ہے ہم اُنہی باتوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بلکہ بوجھ سمجھتے ہوئے زندگی کو متوازن بنانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں! زندگی کے دامن میں ایسا بہت کچھ ہے جو بظاہر کچھ خاص خرچ کیے بغیر ملتا ہے اور دل کے لیے طمانیت کا وسیلہ ہو رہتا ہے۔
آج ہماری زندگی سے ایسا بہت کچھ نکل چکا ہے جو زندگی کی دلکشی میں اضافے کا ذریعہ ہے۔ کیا ہم اپنے معمولات میں ورزش کو شامل رکھ سکے ہیں؟ کیا ہماری خوراک متوازن ہے؟ جن چیزوں سے صحت کو شدید نقصان پہنچتا ہے اُن کے بارے میں ہم سنجیدہ اور متفکر ہیں؟ اِن سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ کامیاب زندگی یقینی بنانے میں سرگرداں رہتے ہوئے ہم یہ بھول بیٹھے ہیں کہ جن معمولات سے زندگی رنگین بنتی ہے اُن سے ہم نے دامن چھڑالیا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ آج ہماری زندگی میں بچوں اور جانوروں کی کچھ خاص اہمیت نہیں رہی۔ بچوں میں دلچسپی لینا، اُن کے ساتھ وقت گزارنا، اُن کی خوشیوں کا خیال رکھنا، اُنہیں یومیہ بنیاد پر تھوڑی سی سیر کرانا، ماحول سے روشناس کرانا ہم نے تقریباً ترک ہی کردیا ہے۔ ہم بچوں کے لیے کچھ کرنے کے نام پر بہت کچھ کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر اُن کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیحات میں شامل نہیں کرتے۔ بچے ہماری توجہ کے منتظر رہتے ہیں۔ یہی حال جانوروں کا بھی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ گھروں میں بلیاں، بکریاں، مرغیاں اور پرندے وغیرہ پالا کرتے تھے۔ جن گھروں میں جانور پلتے ہیں اُن کی رونق کچھ الگ ہی قسم کی ہوتی ہے۔ آج بھی ایسے گھروں کے لوگ خاصے خوش باش دکھائی دیتے ہیں جن میں جانور پلتے ہیں۔ بے زبان مخلوق کی ضرورتوں کا خیال رکھنا، اُن کا پیٹ بھرنا، اُن کی پریشانی دور کرنا انسان کو عجیب ہی قسم کی طمانیتِ قلب سے ہم کنار کرتا ہے۔ یہ بات وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو ایسا کرتے ہیں۔
ہم عملی زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں وہ بالعموم بچوں کی بہبود کے لیے کرتے ہیں مگر ہمارے ذہنوں کی زمین میں یہ بات کیل کی طرح گڑ گئی ہے کہ بچوں کو ہماری طرف سے جو کچھ بھی ملے گا وہ صرف دولت کی شکل میں ملے گا۔ بچوں کو اپنی ضرورتوں کے پورا ہونے سے غرض ہے۔ اُن کی ضرورتیں صرف کھانے پینے سے پوری نہیں ہوتیں۔ وہ توجہ بھی چاہتے ہیں۔ اُنہیں شفقت بھی درکار ہوتی ہے۔ اِس ضرورت کا اظہار وہ زبان سے نہیں کرسکتے مگر اُن کی طرزِ فکر و عمل بہت کچھ بیان کر رہی ہوتی ہے۔ اس معاملے میں بچے اور جانور ایک پلیٹ فارم پر دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُنہیں اپنایا جائے، ان سے کھیلا جائے، شفقت کا اظہار کیا جائے۔
آج ہر طرف ترقی کا بازار گرم ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز نے جینا جتنا آسان کیا ہے اُتنا ہی مشکل بھی بنایا ہے۔ ہم کامیاب زندگی یقینی بنانے کے نام پر اپنے آپ کو بھی دھوکا دے رہے ہیں اور اہلِ خانہ بالخصوص بچوں کی بھی حق تلفی کر رہے ہیں۔ بچے اور جانور زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں۔ اُن پر متوجہ ہوکر ہم زندگی کی رنگینی میں اضافہ کرسکتے ہیں مگر کر نہیں پارہے۔ ذہن تفکرات کی نذر ہوچکے ہیں۔ ناگزیر ہے کہ ذہنوں کو فضول اور لاحاصل تفکرات کے چنگل سے نکال کر معمول کی سادہ زندگی کی طرف لایا جائے۔ بچوں پر متوجہ ہونے اور ساتھ ساتھ جانوروں کا خیال رکھنے میں ہمارے لیے قابلِ رشک مسرّت کا سامان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں