"MIK" (space) message & send to 7575

یکسوئی کی کہانی

مہدی حسن کیا تھے؟ ... گلوکار۔ امیتابھ بچن کیا ہیں؟ ... اداکار۔ نوشاد صاحب کیا تھے؟ ... موسیقار۔ روی شنکر کیا تھے؟ ... ستار نواز۔ بسم اللہ خان؟ ... شہنائی نواز۔ سیف الدین سیفؔ کیا تھے؟ ... نغمہ نگار۔ بابا اعظمی کی وجہِ شہرت؟ سنیماٹو گرافی۔ نسیم حجازی کیا تھے؟ تاریخی ناول نگار۔ وزیر آغا کا شعبہ؟ ... اِنشا پردازی۔اور بھی بہت سی شخصیات ہیں جنہوں نے اپنے اپنے شعبے میں خوب نام کمایا اور دنیا کے لیے مثال قائم کی۔ کچھ غور کیا آپ نے؟ ہم نے جتنے بھی نام گنوائے‘ وہ سب کے سب اپنے شعبے کے بڑے تھے اور ہیں۔ اور ہاں‘ اِن میں سے ہر ایک نے کسی ایک معاملے میں نام کمایا۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شہنائی بھی بجارہا ہے اور ستار نواز کے طور پر معروف ہے۔ کسی ایک شعبے ہی میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔
بھرپور کامیابی یقینی بنانے کا عزم لے کر میدان میں آنے والے صرف اور صرف یکسوئی ہی کی مدد سے کچھ کر پاتے ہیں۔ ہر شعبے میں وہی انسان آگے بڑھتا ہے جو یک سُو ہوتا ہے یعنی کسی ایک معاملے پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ مہدی حسن کے بارے میں آپ نے سُنا ہے کہ اُنہوں نے گانے کے علاوہ کچھ کیا ہو؟ کبھی کسی نے بتایا ہے کہ امیتابھ بچن اداکاری کے ساتھ ساتھ سکرپٹ رائٹنگ بھی کرتے ہیں؟ کبھی آپ نے سُنا کہ سیف الدین سیف محض نغمہ نگار نہ تھے بلکہ دُھنیں بھی ترتیب دیا کرتے تھے؟ کبھی کسی نے بتایا کہ نوشاد صاحب موسیقی ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ ڈائریکشن سے بھی شغف رکھتے تھے؟ آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ ہونا ہی چاہیے کیونکہ اِن تمام شخصیات نے اپنے اپنے مخصوص یعنی واحد شعبے میں نام کمایا۔ یہ کمائی محض اِس بنیاد پر تھی کہ اِنہوں نے اپنے کام پر بھرپور توجہ دی، کسی اور شعبے میں غیر ضروری طور پر دخل دینا مناسب نہ جانا اور کیریئر کے تمام مراحل میں اِن کا انہماک قابلِ دید و قابلِ داد رہا۔ بھرپور کامیابی کے لیے یکسوئی ناگزیر ہے۔ یکسوئی یعنی کسی ایک سمت سفر کرنا۔ جو لوگ یکسوئی کے معاملے میں لاپروا ہوتے ہیں اُن کی زندگی میں بگاڑ آپ کو پہلی نظر میں دکھائی دے جائے گا۔ سنجیدگی اور یکسوئی ہی کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرنے والی صفات ہیں۔
ہم معاشرے میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو شعبے بدلتے رہتے ہیں۔ یہ بھی یکسوئی کے نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ کوئی بھی شعبہ بہت سوچ سمجھ کر منتخب کرنا چاہیے۔ ہر شعبے میں غیر معمولی مسابقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ مسابقت کے مرحلے سے تو گزرنا ہی پڑے گا۔ اور یہ کوئی ایک بار کا معاملہ نہیں۔ مسابقت تو زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اگر کیریئر کے لیے شعبے کا انتخاب سوچ سمجھ کر نہ کیا جائے تو کچھ ہی دنوں میں بیزاری سی پیدا ہوتی ہے اور انسان کچھ اور کرنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ دنیا بھر میں کیریئر کونسلنگ اِسی لیے تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔ نئی نسل کو عملی زندگی کی مؤثر ابتدا کے لیے مشاورت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ماہرین اُسے بتاتے ہیں کہ کیا، کیوں اور کیسے کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں اب تک کیریئر کونسلنگ کا شعبہ انتہائی کمزور ہے۔ والدین اس بات کی اہمیت محسوس ہی نہیں کرتے کہ اُن کی اولاد کو ناگزیر طور پر مشاورت کرنا ہوتی ہے تاکہ عملی زندگی کے لیے بہترین شعبے کا انتخاب کیا جائے۔ ایک طرف تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے اُس میں اُس کی دلچسپی ہے بھی یا نہیں اور پھر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھنا پڑتا ہے کہ جس شعبے کا انتخاب عمل میں لایا جارہا ہے اُس میں معاشی امکانات اور بہتری کی سکت ہونی چاہیے۔ اگر کوئی شعبہ کمزوری سے متصف ہو تو اُسے منتخب کرنے والے کچھ ہی دنوں میں کچھ اور کرنے کا سوچیں گے یعنی جو وقت اُس شعبے میں لگایا ہوگا وہ ضائع ہی ہوگا۔
یکسوئی کا مطلب ہے جو شعبہ منتخب کرلیا ہے اُس کے ہر پہلو پر متوجہ رہنا۔ فی زمانہ ہر شعبے میں پیش رفت کا بازار گرم ہے۔ لوگ راتوں رات بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بڑبولا پن بھی بہت زیادہ ہے۔ لوگ کام کم کرتے ہیں اور منہ کے فائر زیادہ کرتے ہیں۔ باتیں زیادہ ہیں اور کام بہت ہی کم اور وہ بھی خاصا غیر مؤثر۔ آج کل فیشن سا چل پڑا ہے کہ جو کچھ بھی کیا جائے اُسے تخلیق قرار دیا جائے۔ کسی بھی شعبے میں بہت سوچ بچار کے بعد جب کچھ کیا جاتا ہے تب کوئی حقیقی تخلیق سامنے آتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی چیز محض کہہ دینے سے تخلیق ہو جاتی ہے۔ ہر شعبے کے نمایاں ترین افراد جب کسی ایک کام پر پوری توجہ مرکوز کرتے ہیں تب اُن کی طرف سے تخلیق کے درجے میں کچھ سامنے آتا ہے۔ علم و فن کی دنیا میں انہماک کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ اگر انہماک نہ ہو، یکسوئی سے گریز کیا جائے تو ڈھنگ سے کچھ بھی نہیں ہو پاتا۔ ہم زندگی بھر یکسوئی کی بات کرتے رہتے مگر یکسوئی کو یقینی بنانے کے معاملے میں سنجیدہ کم ہی لوگ ہو پاتے ہیں۔ آج یکسوئی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ذہن کو منتشر کرنے والے حالات بہت زیادہ ہیں۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا رہتا ہے جو ذہن کو راہ سے ہٹانے کے درپے ہوتا ہے۔ ہر وقت الرٹ رہنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی متوجہ نہ رہے اور لاپروائی کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائے تو دیکھتے ہی دیکھتے اُس کی ساری محنت ٹھکانے لگ جاتی ہے اور اُسے کامیابی کی طرف سفر دوبارہ شروع کرنا پڑتا ہے۔
جدید ترین تعلیم و تربیت میں دو باتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے: یکسوئی اور نظم و ضبط۔ حقیقت یہ ہے کہ یکسوئی بھی نظم و ضبط ہی کے نتیجے میں ممکن ہو پاتی ہے۔ آج ہر شعبہ غیر معمولی نوعیت کی پیش رفت سے عبارت ہے۔ تحقیق و ترقی نے معاملات کو بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اگر کسی کو واقعی آگے بڑھنا ہو تو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ نظم و ضبط اپناکر یکسوئی یقینی بنائے بغیر کوئی بھی علم و فن کے معاملے میں اپنا آپ منوانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ پیشرفت کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ ہر شعبے میں بہت کچھ نیا ہو رہا ہے۔ تکنیکی شعبوں میں اپنے آپ کو اَپ ڈیٹیڈ رکھنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ بعض شعبوں میں تو اَپ ڈیٹنگ دردِ سر ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہی کو لیجیے۔ اِس میں بہت کچھ نیا ہو رہا ہے۔ ایک طرف تکنیکی سطح پر اور دوسری طرف سوچنے کی سطح پر۔ مواد بھی کم نہیں اور عملی پہلو بھی انتہائی پیچیدہ ہے۔ ایسے میں کوئی اپنے آپ کو اَپ ڈیٹ رکھنا چاہے تو دن رات پڑھنا پڑتا ہے، دوسروں کی محنت کے نتائج دیکھنا پڑتے ہیں۔ شعبہ تکنیکی ہو تو عملی پہلو پر زور رہتا ہے یعنی لوگوں نے جو کچھ کیا ہے اُس پر متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ نصف سے زائد وقت تو اِسی میں کھپ جاتا ہے۔
فی زمانہ ذہن کا کسی ایک راہ پر گامزن رہنا یعنی مکمل یکسوئی کی حالت میں ہونا انتہائی دشوار ہے۔ یہ محض سوچنے کا معاملہ نہیں۔ اگر کچھ کرنا ہے تو ذہن کو سُکون درکار ہوتا ہے۔ ذہن کا سُکون اُسی وقت ممکن ہے جب وہ ترتیب کا حامل ہو، انتشار کی کیفیت سے دور ہو اور فضول سرگرمیوں پر ذرا بھی متوجہ نہ ہوتا ہو۔ اگر کسی نے ذہن کو ڈھیلا چھوڑا ہوا ہے اور اُس میں سبھی کچھ آنے دیتا ہے تو بھٹکنا یا راہِ راست سے ہٹ جانا فطری ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جن لوگوں نے کچھ کیا ہے اُنہوں نے پہلے ذہن کو یکسو کیا ہے۔ ذہن کی یکسوئی ہی انسان کو کسی بھی بڑے کام کے لیے تیار کرتی ہے۔ اگر بیک وقت کئی شعبوں الجھا ہوا ہو تو کوئی ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا۔ نوجوانوں کے لیے یکسوئی ناگزیر ہے کیونکہ وہ فطری طور پر کئی شعبوں میں دلچسپی لے رہے ہوتے ہیں۔ اُنہیں عملی زندگی کے باضابطہ آغاز سے قبل ہر شعبہ انتہائی پُرکشش دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں اُن کی موزوں کونسلنگ کی جانی چاہیے۔ اُنہیں مزاج اور رجحان کے مطابق شعبہ منتخب کرنے میں مدد دی جانی چاہیے تاکہ بعد میں محنت اور وقت ضائع نہ ہو۔ یکسوئی کی کہانی تو بس اِتنی ہے کہ کوئی ایک شعبہ سوچ سمجھ کر منتخب کیجیے اور اُسی کے ہو جائیے، اپنے آپ کو اُس شعبے کی نذر کردیجیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں