راتوں رات ڈھیروں دولت (کمانے کی نہیں بلکہ) پانے کی خواہش انسان کو تگنی کا ناچ نچاتی رہتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ دولت پانا کس انسان کی خواہش نہیں؟ ہر انسان اول تا آخر یہی چاہتا ہے کہ دنیا اُس کی جیب میں سما جائے، وہ دنیا کا دولت مند ترین انسان بن جائے اور پھر جو چاہے کرے۔ دنیا بھر میں محض کروڑوں نہیں بلکہ اربوں لوگوں کی یہ خواہش رہی ہے اور ہے کہ اُن کی زندگی راتوں رات بدل جائے اور اِس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور اِتنی دولت مل جائے کہ پھر مرتے دم تک کچھ کرنا نہ پڑے۔
راتوں رات بہت سی دولت پانے کا آسان ترین طریقہ کیا ہے؟ کوئی ایک طریقہ ہو تو بتایا بھی جائے۔ چوری، ڈکیتی اور کرپشن تینوں ہی طریقوں سے دولت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہاں‘ بے عقلی پر مبنی ایک غیر اخلاقی لیکن قدرے قانونی طریقہ یہ ہے کہ لاٹری کا ٹکٹ خریدیے اور انعام نکلنے کی صورت میں اپنے سارے خوابوں کی تعبیر پانے کے احساس سے سرشار ہو جائیے۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد باقاعدگی سے لاٹری کے ٹکٹ خریدتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں لاٹری کے ٹکٹ خریدنے کا رجحان بہت قوی ہے۔ پاکستان میں یہ رجحان کبھی پروان نہیں چڑھ سکا۔ بھارت میں آج بھی ریاستی اور مرکزی سطح کی ہزاروں لاٹریاں کام کر رہی ہیں۔ یہی حال خطے کے دوسرے ممالک کا بھی ہے۔ لوگ راتوں رات امیر بننے کے چکر میں ہر ماہ باقاعدگی سے لاٹری کے ٹکٹ اُسی طرح خریدتے ہیں جس طرح گھر کا سودا خریدا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تھوڑا بہت مل بھی جاتا ہے۔ جسے کچھ مل جاتا ہے اُس کا لاٹری پر اعتقاد مزید بڑھ جاتا ہے اور وہ زیادہ جوش و خروش کے ساتھ لاٹری کے ٹکٹ خریدنے لگتا ہے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ یہ ذہنیت لاٹری کے منتظمین ہی پیدا کرتے ہیں۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ لاٹری کے ٹکٹ کن کن علاقوں میں اور آمدنی کی کس سطح کے لوگوں میں زیادہ فروخت ہوئے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طور ہر طبقے کو تھوڑا بہت نوازنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ دوسروں کا بھی لاٹری پر اعتقاد بڑھے اور وہ بھی لاٹری ٹکٹ خریدنے پر مائل ہوں۔ دنیا بھر کے لاٹری منیجرز اِس حوالے محققین کا بھی سہارا لیتے ہیں تاکہ لوگوں کے لیے لاٹری کو زیادہ سے زیادہ پُرکشش بنایا جاسکے۔ لاٹری کو کامیابی بنانے والا فارمولا بہت سادہ اور انتہائی کامیاب ہے۔ جس کی لاٹری نکلتی ہے وہ تو اپنی ''کامیابی‘‘ کا ڈھول پیٹے گا ہی کیونکہ اُس کی جیب تو بھر گئی۔ وہ جب اپنے بدلے ہوئے حالات کے بارے میں بتاتا ہے تو دوسروں کو بھی لاٹری کے ٹکٹ خریدنے کی تحریک ملتی ہے۔ گویا خربوزے کو دیکھ کر خوبوزہ رنگ پکڑنے لگتا ہے۔ اگر ہزار افراد لاٹری کا ٹکٹ خریدیں اور اُن میں سے دس افراد کا بھی انعام نکل آئے تو وہ اِتنا راگ الاپتے ہیں کہ دوسروں کو بھی لاٹری کے ٹکٹ خریدنے کی تحریک ملتی ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ہزار افراد نے ٹکٹ خریدے تو دس افراد کا انعام نکلا یعنی 990 افراد تو محروم ہی رہے۔ لاٹری کے منتظمین اپنی جیب سے کچھ بھی خرچ نہیں کرتے۔ وہ تو لاٹری خریدنے والوں ہی کی رقم سے تھوڑا بہت انعام بانٹ کر باقی سب کچھ اپنی جیب میں رکھ لیا کرتے ہیں!
کیا لاٹری میں کوئی بڑی رقم جیتنے سے زندگی بدل جاتی ہے؟ یہ سوال ہر اُس انسان کو سوچنا چاہیے جو راتوں رات بہت کچھ پانے کے لیے لاٹری کا ٹکٹ خریدتا ہے۔ ہم کچھ بھی کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کسی نہ کسی حد تک تبدیل ہونے کے لیے۔ دولت بھی اس لیے ہوتی ہے کہ ہمیں تبدیل ہونے میں مدد دے۔ تعلیم اور تربیت بھی اس لیے یقینی بنائی جاتی ہے کہ زندگی میں مثبت تبدیلی رونما ہو۔ کیا لاٹری کے انعام کی شکل میں ملنے والی بہت بڑی رقم انسان کو کسی بڑی مثبت تبدیلی کی طرف لے جاتی یالے جاسکتی ہے؟ یہ سوال ایک زمانے سے عمرانیات کے ماہرین کے لیے انتہائی پُرکشش رہا ہے۔ کئی عشروں کے دوران کے دوران لاٹری جیتنے والوں کی ذہنیت کے علاوہ لاٹری جیتنے سے پہلے اور بعد کی زندگی کے فرق کے حوالے سے بہت تحقیق کی گئی ہے۔ 1970ء اور 1980ء کے عشروں میں معروف ماہرِ عمرانیات ایچ رائے کیپلن (H. Roy Kaplan) نے لاٹری جیتنے والوں کے حالاتِ زندگی اور نفسی ساخت کے حوالے سے تحقیق کی جو دنیا بھر میں مقبولیت سے ہم کنار ہوئی۔ لاٹری جیتنے والوں سے کیے گئے سوالوں کے ذریعے بہت کچھ معلوم ہوا جو عام آدمی کے لیے خاصا دلچسپ تھا۔ عام آدمی اِس گمان میں مبتلا رہتا ہے کہ لاٹری جیتنے والے اپنے آپ کو بدلنے میں کامیاب رہتے ہیں جبکہ در حقیقت عمومی سطح پر ایسا نہیں ہوتا۔ لاٹری میں کوئی بڑی انعامی رقم جیتنے والوں میں محض ایک یا دو فیصد ہی اپنی زندگی کا معیار حقیقی مفہوم میں بلند کر پاتے ہیں۔
ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ اگر کم آمدنی والے طبقے میں کسی کا لاٹری میں بڑا انعام لگ جائے تو اُس کے لیے سکون سے جینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اُس کے اطراف میں موجود ضرورت مند مانگ مانگ کر اُس کا ناک میں دم کردیتے ہیں۔ اہلِ خانہ اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ احباب بھی اُن سے بہت سی توقعات وابستہ کر بیٹھتے ہیں۔ سبھی چاہتے ہیں کہ بڑی انعامی رقم میں سے اُنہیں بھی کچھ نہ کچھ ملے تاکہ اُن کی زندگی میں بھی تھوڑا بہت سکھ یقینی بنایا جاسکے۔ بالکل معمولی سطح پر زندگی بسر کرنے والوں کے لیے ڈھیروں دولت کو سنبھالنا بہت مشکل ثابت ہوتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ لاٹری میں بڑا انعام نکل آئے تو جی بھرکے خرچ کرنا شروع کرتے ہیں۔ کوئی اپنی لاٹری کی رقم سے کچھ خاص خرچ نہ کرے تو لوگ طعنے دینے لگتے ہیں کہ اب تو اِتنا مل گیا ہے، اب کیا بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کوئی خِسّت سے کام لے تو مصیبت‘ بہت خرچ کرے تو مصیبت! ع
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
بعض کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ لاٹری میں انعام نکلنے پر سرمایہ کاری کیجیے اور کم خرچ کرکے پہلے ہی طرح نارمل زندگی بسر کرتے رہیے تب بھی لوگ طعنے دیتے ہیں کہ اب کون سے اچھے وقت کے لیے مال جمع کر رہے ہو، جس اچھے وقت کا انتظار تھا اُسی کو یقینی بنانے کے لیے تو قدرت نے لاٹری کے انعام کی شکل میں اِتنی بڑی رقم سے نوازا ہے۔ اگر اچانک بہت بڑے پیمانے پر دولت حاصل ہو جائے تو اچھا خاصے مخمصے میں ڈال دیتی ہے۔ عام آدمی نے زندگی بھر اِتنی دولت کا سوچا نہیں ہوتا اِس لیے جب انعام میں بڑی رقم نکلتی ہے تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اُس کا کرے تو کیا کرے۔ ایسے میں بے ذہنی بڑھتی ہے اور درست فیصلے نہیں ہو پاتے۔ یہی سبب ہے کہ برطانیہ میں بعض لاٹری منیجرز انعام میں غیر معمولی رقم پانے والوں کی راہ نمائی کے لیے مالیاتی اُمور کے ماہرین کو اُس کے پاس بھیجتے ہیں۔ ماہرین لاٹری جیتنے والوں کو سرمایہ کاری وغیرہ کے بارے میں بتاتے ہیں تاکہ اچانک مل جانے والی بہت بڑی رقم کو ڈھنگ سے بروئے کار لاکر حالات بھی بہتر بنائے جاسکیں اور مستقبل کو واقعی محفوظ بنانا بھی ممکن ہو۔ لاٹری جیتنے والوں کو مالیاتی معاملات میں درست ماہرانہ رائے سے نوازنا اِس لیے ضروری ہے کہ اگر بے ذہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاٹری کی رقم کا بڑا حصہ ٹھکانے لگادیاجائے تو دوبارہ عمومی زندگی بسر کرنا سوہانِ روح ثابت ہوتا ہے۔
حقیقی کامیاب اور مال دار تو وہ ہے جو اپنی محنت سے کچھ پاتا ہے اور پورے شعور کے ساتھ منظم زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لاٹری کی شکل میں کوئی بڑی رقم ہاتھ آجائے تو اُسے سنبھالنے اور ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے لیے بہت تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ محنت کے بغیر مل جانے والی دولت انسان کے لیے خاصے پیچیدہ مسائل پیدا کرتی ہے۔ پھر اُسے مفت کی دولت کے پیمانے ہی سے جانچا جانے لگتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ علم و فن اور کاروبار وغیرہ کے حوالے سے کچھ کرنا بھی چاہے تو بہت سوچ بچار کے ذریعے فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ انسان لاٹری کے گورکھ دھندے سے دور رہتے ہوئے اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرے اور قدرت کے طے کردہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے کامیابی یقینی بنائے۔