کسی بھی معاشرے کے معیاری اور خوش و خرم ہونے کا اندازہ کس بات سے لگایا جاتا ہے؟ عمومی صحت کے معیار سے؟ انفرادی آمدن سے؟ قومی معیشت کے استحکام سے؟ یا اِن تمام معاملات کو یکجا کرکے؟ کسی بھی معاشرے میں مسرت کی حقیقی بنیاد بہت سے معاملات سے مل کر بنتی ہے۔ مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کیفیت کا نہ ہونا بھی مستحکم معاشرے کی بہت بڑی علامت ہے۔ جو معاشرے مستقبل کے بارے میں ڈھنگ سے نہیں سوچ پاتے وہ ماضی کی خرابیوں میں اُلجھے رہتے ہیں۔آج اگر کسی کو حقیقی کامیاب اور مستحکم معاشرے کے درشن کرنا ہوں تو مغربی معاشروں کی طرف دیکھتا ہے۔ مغرب یعنی امریکا اور یورپ۔ ان دونوں خطوں نے مادّی ترقی کا ایسا شاندار نمونہ پیش کیا ہے کہ سات آٹھ عشروں سے دنیا بھر کے پسماندہ خطوں کے کروڑوں افراد اِن خطوں میں آباد ہونے کا خواب آنکھوں میں بسائے زندگی بسر کرتے آئے ہیں۔ پاکستان میں بھی امریکا کو مستقل مستقر بنانے کے خواہش مند کروڑوں میں ہیں۔ بات بات پر امریکا کی مثال دینے والوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ امریکا اور یورپ سے مرعوب نئی نسل کو یہ سمجھانا اونٹ کو رِکشے میں سوار کرانے جیسا ہے کہ ہر چمکیلی چیز سونا نہیں ہوتی۔ ہر ترقی یافتہ معاشرہ اس قابل نہیں کہ اپنایا جائے۔ ہر معاشرے کے اپنے اطوار ہوتے ہیں جن سے مطابقت پیدا کرنا سب کے لیے ممکن اور آسان نہیں ہوتا۔
امریکا ہم میں سے بیشتر کے لیے ایک انتہائی قابلِ قبول نمونہ ہے۔ اس نمونے کو اپنانے کے لیے بے تاب رہنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ہمارے بہترین اذہان کو اگر اپنے لیے کوئی قابلِ قبول اور قابلِ سکونت خطہ دکھائی دیتا ہے وہ بس امریکا ہے۔ پاکستانیوں کی غالب اکثریت کی نظر میں امریکا روئے ارض پر جنت ہے‘ امیدوں اور امکانات کا خطہ ہے۔ یہ بات ایک خاص حد تک ہی درست ہے۔ امریکا میں امکانات کی کمی ہے نہ مواقع کی۔ باصلاحیت افراد وہاں بہت کچھ پاتے ہیں۔ دنیا بھر کے ذہین ترین یا قابل ترین افراد امریکا پہنچ کر اپنے آپ کو منواتے ہیں اور اپنے اپنے ممالک کے لیے خطیر ترسیلاتِ زر کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جن ممالک کو ہم ترقی کے نقطۂ عروج پر دیکھ کر خوش اور مرعوب ہو رہے ہیں وہ صرف مادّی ترقی سے متصف ہیں۔ وہاں باطن اور روح کے حوالے سے کچھ خاص نہیں بچا۔ اگر چند ایک اخلاقی اقدار سلامت بھی ہیں تو خالص عملی زندگی کی ضرورت کے تحت۔ مثلاً کم نہ تولنا اور جھوٹ نہ بولنا بہت اچھے اوصاف ہیں مگر یہ اوصاف کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس وجہ سے اپنائے گئے ہیں کہ مادّی ترقی کو نقصان سے بچانا ہے۔ اِن اوصاف کو اپنانے کا بنیادی مقصد اس کائنات کے خالق کو خوش کرنا نہیں بلکہ انفرادی و اجتماعی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا ہے۔ تجارت اور کاروبار میں یہ اعلیٰ درجہ دیانت اس لیے بھی ہے کہ ان ممالک نے پسماندہ ممالک کو دیکھ کر سیکھا ہے کہ اُن جیسے حال سے بچنا ہے تو وہ حرکتیں ترک کرنا ہوں گی جو اُن میں پائی جاتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں کرپشن نہیں ہے مگر ہاں‘ ایسی کرپشن وہاں نہیں پائی جاتی جو عام آدمی کا جینا حرام کردے۔
امریکا ہمارے خواب و خیال کی دنیا پر چھائی ہوئی تصویر کا نام ہے۔ امریکا اور یورپ کے ترقی یافتہ معاشروں کی مجموعی کیفیت کیا ہے‘ اس کا حقیقی اندازہ تو کچھ اُنہی کو ہوسکتا ہے جو وہاں سکونت پذیر ہیں۔ ہم تو محض اعداد و شمار اور رپورٹس کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرسکتے ہیں۔ امریکا اخلاقیات‘ باطن اور روح کے اعتبار سے کہاں کھڑا ہے‘ اس کے بارے میں وہاں سے کم ہی کچھ سامنے آتا ہے۔ سب مادّی ترقی کی چکاچوند کا شکار ہیں اور کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ حال ہی میں شائع ہونے والے چند تجزیوں سے انتہائی پریشان کن معاملات سامنے آئے ہیں۔ معروف تجزیہ نگار ڈیوڈ بروکز نے لکھا ہے کہ چند ایک باتیں بہت پریشان کر رہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ امریکیوں کو آخر کس بات نے شدید اُداسی اور ڈپریشن کی طرف دھکیل دیا ہے۔ امریکا بھر میں شراب تو پی ہی جاتی تھی‘ اب منشیات کا استعمال بھی خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں خود کشی کا رجحان بھی زور پکڑ رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مایوسی لوگوں کو منشیات کے استعمال کی طرف دھکیل رہی ہے۔ آج امریکا میں ایسے لوگوں کی تعداد 1990ء کے مقابلے میں چار گنا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اُن کا کوئی قریبی دوست نہیں۔ 25 سے 54 سال تک کی عمر کے ایسے امریکیوں کی تعداد اب 38 فیصد تک ہے جو شادی شدہ بھی نہیں اور جن کا کوئی پارٹنر بھی نہیں۔ 1990ء میں یہ تناسب 29 فیصد تھا۔ 40 سال سے یا اس سے زیادہ عمر کے 25فیصد امریکی غیر شادی شدہ ہیں اور تنہا زندگی بسر کر رہے ہیں۔ نصف سے زیادہ امریکیوں کا شِکوہ ہے کہ کوئی اُنہیں اچھی طرح نہیں جانتا یعنی اُن میں حقیقی دلچسپی لینے والا کوئی نہیں۔ ہائی سکول کی سطح کے جو طلبہ شدید اُداسی اور بے چارگی کا شِکوہ کرتے ہیں اُن کا تناسب 2009ء میں 26 فیصد تھا‘ اور 2021ء میں 44 فیصد ہوگیا۔
ڈیوڈ بروکز کے مطابق ایک اور انتہائی پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ امریکا بھر میں ایسے لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جو بات بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور بدسلوکی پر اُتر آتے ہیں۔ بہت سی نرسوں کا کہنا ہے کہ اُن کی بہت سی ساتھی یہ شعبہ چھوڑ رہی ہیں کیونکہ بدسلوکی کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ لوگ نفرت اور تعصب کو بھی طرزِ حیات کے حصے کے طور پر اپنا رہے ہیں۔ نفرت پر مبنی جرائم 2020ء میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے۔ قتل کی وارداتیں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ ملک بھر میں گن کلچر پنپ رہا ہے۔ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اُن کے پاس گن ہوگی تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ عادی مجرموں سے نمٹنے کی حد تک تو گن کلچر قابلِ قبول ہے تاہم گن کی بنیاد پر اپنے سماجی معاملات کو درست کرنے کی روش؟ یہ تو انتہا ہے۔ جب اسلحے کے زور پر بات منوانے کا کلچر پنپنے لگے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ سماجی سطح پر اعتماد خطرناک تیزی سے گھٹ رہا ہے۔ لوگ خیر کے کاموں میں حصہ لینے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ 2000ء میں دو تہائی امریکی گھرانے رب کی رضا کے لیے خیرات کیا کرتے تھے۔ 2018ء میں یہ تناسب نصف سے بھی کم رہ گیا۔
ڈیوڈ بروکز کی اجمالی رائے یہ ہے کہ امریکی معاشرے میں عدمِ تحفظ کا احساس تیزی سے شدت اختیار کر رہا ہے۔ محاذ آرائی کی کیفیت نے تمام معاملات کو آپس میں اُلجھادیا ہے۔ شدید ڈپریشن لوگوں کی نفسی ساخت سے چمٹ کر رہ گیا ہے۔ بات بات پر آپے سے با ہر ہو جانے والوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لوگ اسلحے کے ذریعے اپنے آپ کو نئی شناخت دینے اور زیادہ محفوظ تصور کرنے کی طرف مائل ہیں۔ محفوظ ٹھکانوں کی تعداد بھی گھٹ رہی ہے۔ آج کے امریکی معاشرے میں کوئی بھی کہیں بھی محفوظ نہیں۔ آج امریکی معاشرہ مادّی اعتبار سے کیسا ہی دل کش اور راحت بخش دکھائی دیتا ہو‘ اخلاقی و روحانی معاملات بری طرح رُلے ہوئے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے کی ذہنیت نے اخلاقی اقدار اور آخرت کے تصور کے لیے کوئی گنجائش چھوڑی ہی نہیں۔ ایسے میں ڈپریشن نہ پھیلے تو پھر کیا ہو؟ صرف مادّی ترقی سے پیٹ نہیں بھرتا۔ روح کے لیے بھی تو خوراک درکار ہے‘ وہ کہاں سے لائیے گا؟
انسان اگر سکون پانا چاہے تو کہیں بھی پاسکتا ہے۔ پسماندہ معاشروں میں بھی آپ ایسے لوگوں کو دور سے شناخت کرسکتے ہیں جو معمولی مالی حیثیت کے حامل ہوتے ہوئے بھی خاصی معیاری زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ ہیں گو کہ اُن کی تعداد خاصی کم ہے۔ امریکا اور یورپ کے ترقی یافتہ معاشروں کی ساری چمک دمک مادّی ترقی سے ہے۔ باطنی یا روحانی ترقی کے حوالے سے وہ کورے ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاں سے جو لوگ محض چمک دمک دیکھ کر وہاں سکونت اختیار کرتے ہیں وہ بھی ایک دن محسوس کرتے ہی ہیں کہ
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سَحر تو نہیں