"MIK" (space) message & send to 7575

یہ ارادے کی بات ہے

زندگی کا پورا ڈھانچا بدلنا اور اُسے حقیقی فلاحی حقیقت میں تبدیل کرنا ہر دور میں کسی کرشمے سے کم نہیں رہا۔ ماضی بعید میں حقیقی فلاحی ریاست کا تصور انتہائی معدوم تھا۔ چند ایک حکمرانوں نے عدل اور انصاف کی بنیاد پر تھوڑی مدت تک اچھی طرزِ حکمرانی کا مظاہرہ کیا مگر اِس سے معاشروں کا زیادہ بھلا نہ ہوسکا کیونکہ بعد میں آنے والے حکمرانوں نے پھر وہی جبر اپنایا جو حکمرانوں کے خمیر میں پیوست ہوا کرتا ہے۔ فلاحی ریاست کا تصور ہر دور میں آئیڈیل رہا ہے۔ انسان سوچتا ہی رہا کہ کوئی ایسی حکومت ہو جو اپنے دائرے میں آنے والے تمام لوگوں کو معیاری طرزِ زندگی کی طرف لے جانے میں ممد و معاون ثابت ہو۔ لوگ سوچتے تھے کہ جب بہت کچھ ایجاد ہوچکے گا، زندگی میں آسانیاں آجائیں گی تب فلاحی ریاستوں کا معرضِ وجود میں لانا ممکن ہوسکے گا مگر صنعتی انقلاب سے ایسا ممکن ہوسکا نہ موجودہ دور کے کی حیرت انگیز مادّی ترقی سے۔ ہاں‘ چند استثنائی معاملات ضرور ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں بہترین اور جامع ترین فلاحی ریاستیں سکینڈے نیویا میں پائی جاتی ہیں۔ ڈنمارک، فن لینڈ، ہالینڈ، ناروے، سویڈن، آئس لینڈ وغیرہ ہر اعتبار سے مکمل فلاحی ریاستیں ہیں۔ ان ریاستوں میں غیر معمولی شرح سے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں مگر اِس کے عوض زندگی کی تمام بنیادی ضرورتیں اِس طور فراہم کی جاتی ہیں کہ انسان کو کسی بھی معاملے میں کچھ زیادہ فکر لاحق نہیں رہتی۔ یہ خالص مادّی ترقی کا معاملہ ہے۔ اِن یورپی فلاحی ریاستوں میں روحانیت کی کیفیت کیا ہے، مذہب کس مرحلے میں ہے اور لوگوں کی زندگی میں مذہب کیا کردار ادا کر رہا ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ فلاحی ریاست کا تصور اِس کے سوا کیا ہے کہ انسان کو سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنے کے معاملے میں زیادہ پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، دو وقت کی روٹی اور دیگر بنیادی معاملات کے اہتمام کے بارے میں زیادہ سوچنا نہ پڑے؟ جب بنیادی ضرورتوں کا حصول دردِ سر نہیں رہتا تب انسان زندگی کو زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانے پر متوجہ ہوتا ہے اور اس حوالے سے محنت کرتا ہے۔ سکینڈے نیوین ممالک میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ ریاست نے تمام بنیادی معاملات کی ذمہ داری اِس طور سنبھال رکھی ہے کہ لوگ اِس حوالے سے بالکل بے فکر ہوکر جی رہے ہیں۔ اِن ممالک میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ معاشی اور معاشرتی انصاف کی وہ سطح دیکھنے کو مل رہی ہے جو عقل کو دنگ کرنے کے لیے کافی ہے۔
دنیا بھر میں عام آدمی انتہائی نوعیت کی مشکلات سے دوچار ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے ایک انتہائی بنیادی ضرورت ہے ماس ٹرانزٹ کا معقول نظام۔ احساسِ ذمہ داری کی حامل حکومتیں اس بات کا خاص خیال رکھتی ہیں کہ عام آدمی کو روزانہ کام پر جانے اور واپس آنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ویسے تو پورے مغرب ہی میں ماس ٹرانزٹ کا پروگرام لاجواب ہے؛ تاہم سکینڈے نیوین ممالک میں معاملات نقطۂ عروج پر ہیں۔ ڈنمارک، ناروے، فن لینڈ، سویڈن اور دیگر سکینڈے نیوین ممالک میں سائیکل کا استعمال عام ہے۔ اچھے خاصے مال دار لوگ بھی سائیکل کی سواری پسند کرتے ہیں۔ اِس سے ایک تو صحت کا معیار بلند رہتا ہے اور دوسرا سفر کا خرچ بھی برائے نام آتا ہے۔ سڑکیں انتہائی معیاری ہیں۔ ٹریفک کنٹرول غیر معمولی ہے۔ آب و ہوا بہت معیاری ہے۔ ایسے میں انسان یومیہ سفر بھی سائیکل پر کرے تو حیرت کیسی؟ ان ممالک میں لوگ سائیکل پر میٹرو یعنی زیرِ زمین ریلوے کے سٹیشن تک جاتے ہیں، اپنی سائیکل وہاں پارک کرتے ہیں، ٹرین میں سوار ہوکر کام پر جاتے ہیں اور واپسی پر سائیکل ہی کے ذریعے گھر واپس آ جاتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے بہت سے بنیادی معاملات کا بھی ہے۔ کسی کو بھی بجلی، پانی، گیس وغیرہ کے بارے میں سوچنا نہیں پڑتا۔ حکومت چونکہ ہر چیز کا ٹیکس لیتی ہے اس لیے فراہمی کی بھی پابند ہے۔ اس معاملے میں دیانت انتہائی درجے کی ہے۔ بات صرف بنیادی ضرورتوں کی تکمیل تک نہیں محدود نہیں۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا نظام بھی درجۂ کمال پر ہے۔ عمومی صحت کا معیار بہت بلند ہے۔ علاج چونکہ ریاستی خرچ پر ہوتا ہے اس لیے لوگ بہترین سہولتوں کے ساتھ صحت یاب ہوتے ہیں۔ معیاری تعلیمی اداروں کی بھی کمی نہیں۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر سے نوجوان معیاری تعلیم کے لیے سکینڈے نیویا کا رُخ کر رہے ہیں۔ کیا ایسی فلاحی ریاستوں کا قیام ناممکن ہے؟ اگر ناممکن ہوتا تو یہ ریاستیں کیونکر دنیا کے نقشے پر موجود ہوتیں؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان جو چاہے سو کرسکتا ہے۔ سوال صرف ارادے کا ہے۔ آج مسلم دنیا میں حقیقی فلاحی ریاست ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ سعودی عرب، ملائیشیا اور ترکیہ جیسے ممالک میں عوام کو بہت کچھ ملا ہے مگر پھر بھی وہ سب کچھ نہیں مل سکا ہے جس کی بنیاد پر ہم اِن ریاستوں کو حقیقی فلاحی ریاست قرار دے سکیں۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہیں جن پر بحث کی اِس وقت گنجائش نہیں۔ اجمالاً کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی عزم کی شدید کمی کے باعث ہم اب تک فلاحی ریاستوں کے تصور کو حقیقت کا روپ دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک تو فلاحی ریاستوں کا معیار یقینی بنانے کے بارے میں سوچنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ ہمارے ہاں عام آدمی اب تک انتہائی بنیادی ضرورتوں ہی کو رو رہا ہے۔ جنہیں بجلی، پانی اور گیس کی فراہمی یقینی بنانے کی تگ و دَو سے فرصت نہ مل پائے وہ عالمی برادری میں کوئی قابلِ ذکر مقام یقینی بنانے کے بارے میں کیا سوچیں۔ آج پاکستان بہت سے وسائل سے ہم کنار ہوتے ہوئے بھی انتہائی درجے کی محرومیوں کا شکار ہے۔ یہ سب کچھ واضح عزم کی کمی کا نتیجہ ہے۔ لوگوں کو روزانہ کام پر جانے اور آنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ گھر سے کام کے مقام تک کے سفر میں ڈیڑھ دو گھنٹے کھپ جاتے ہیں۔ جب انسان کام پر تھکا ہوا پہنچے تو کام کیا کرے گا؟ ایسے میں کارکردگی کا متاثر ہونا فطری امر ہے۔ کوئی کتنے ہی دعوے کرے، اگر کام پر جانے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگے اور پیسوں کے ساتھ ساتھ توانائی کا بھی ضیاع ہو تو ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل ہونے میں پھر گھنٹہ‘ ڈیڑھ گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ہاں افرادی قوت سے کماحقہٗ استفادہ ممکن نہیں ہو پاتا۔اپنی تقدیر بدلنے کیلئے کسی بھی قوم یا معاشرے کو بھرپور عزم کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ پہلا پڑاؤ ہے۔ اِس کے بعد ہی کچھ کرنے کی تیاری کی جاسکتی ہے۔ اِس تیاری کا درجہ بھی عزم کی نوعیت سے مطابقت رکھتا ہے۔ جس کا جیسا عزم اُس کی ویسی تیاری۔ کوئی بھی معاشرہ اُسی وقت ترقی کرسکتا ہے جب ریاست تمام بنیادی ذمہ داریاں قبول کرے اور اپنے باشندوں کو زیادہ سے زیادہ سُکون کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کرے۔ یورپ نے ثابت کیا ہے کہ غیر معمولی عزم اور بھرپور ریاضت کے ذریعے اِس دنیا میں قیام کو قابلِ رشک بنایا جاسکتا ہے۔ آج یورپی ممالک باقی دنیا کیلئے فلاحی ریاست کے بہترین نمونے فراہم کرتے ہیں۔ بہت سی باتوں میں یورپ کے قائدین اور اہلِ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے؛ تاہم جہاں تک دُنیوی زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرسکون اور پُرآسائش بنانے کا تعلق ہے، یورپ کی ریاضت اور اُس کے ثمرات کی داد دینا پڑے گی۔ کسی بھی معاشرے کو فلاحی ریاست کے نمونے میں تبدیل ہونے کیلئے بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلا مرحلہ ہے انفرادی مفادات ترک کرنا۔ جب ہم انفرادی مفادات کی سطح سے بلند ہوکر سوچتے ہیں تبھی معاشرے کو مثالی بنانے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ اجتماعی مفادات کو عزیز رکھنے کی سوچ مگر بہت مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ سراسر ایثار کا معاملہ ہے۔ ایثار ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اِس کیلئے غیر معمولی اور مستقل نوعیت کی تحریک درکار ہوا کرتی ہے۔ زندگی کا پورا ڈھانچا بدلنا پڑتا ہے۔ اگر گھر کی سطح پر بھی دیکھیں تو ہر فرد کو اپنے اپنے مفادات پسِ پشت ڈال کر پورے گھر کے مفاد کو ذہن نشین رکھنا پڑے تو خاصی الجھن محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میں پورے معاشرے کے مفاد کو ترجیح دینا کسی طور کوئی آسان مرحلہ نہیں کہ سوچئے اور گزر جائیے۔ اِس حوالے سے تربیت کی ضرورت ہے۔ بھرپور تحریک دیے جانے ہی پر مطلوب عزم پیدا ہوسکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں