دنیا بھر میں اِس نکتے پر اب غیر معمولی طور پر زور دیا جارہا ہے کہ انتہائی مال دار افراد کو معاشرے کی مجموعی بہبود کے لیے اپنا کردار زیادہ وسعت کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ گئی ہے۔ انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں بعض افراد اور ادارے اِتنے مضبوط ہیں کہ کمزور اور پس ماندہ خطوں کے درجنوں ممالک مل کر بھی اُن کی مالی حیثیت کا مقابلہ نہیں کرسکتے! پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے۔ اندرونی سطح پر بھی معاملہ یہ ہے کہ معاشی ناہمواری اِتنی زیادہ ہے کہ کسی بہتری کے بارے میں سوچنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ چند گھرانوں نے پوری معیشت کو مٹھی میں لے رکھا ہے۔ تمام فیصلے ان چند گھرانوں ہی کی مرضی کے محتاج ہیں۔ سیاست میں بھی چند گھرانے ہیں اور کاروباری دنیا میں بھی چند گھرانے ہی ہیں جو تمام معاملات پر متصرف ہیں۔
دنیا بھر میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ قومی معیشت کے استحکام کی خاطر انتہائی مال دار افراد اپنا کردار زیادہ دیانت، خلوص اور گرم جوشی سے ادا کریں۔ بڑے کاروباری اداروں اور انتہائی مال دار شخصیات پر زیادہ ٹیکس عائد کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ ٹیکس لگانے کا مطالبہ بھی انتہائی مال دار افراد ہی کی طرف سے کیا جارہا ہے! ہائی پروفائل ارب پتی چاہتے ہیں کہ ٹیکس سسٹم کا ڈھانچا تبدیل کرکے زیادہ دولت والوں سے زیادہ ٹیکس وصول کیے جائیں۔ ساتھ ہی ساتھ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت زیادہ ٹیکس لگاکر لی جانے والی رقوم سیاست دانوں یا بیورو کریسی کے اللوں تللوں پر ضائع نہیں کی جانی چاہیے بلکہ اِس کے ذریعے اُن کے لیے کچھ کیا جانا چاہیے جو حالات کی چکی میں پس رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اربوں افراد انتہائی نامساعد حالت میں جی رہے ہیں۔ اُنہیں بنیادی سہولتیں بھی کافی حد تک میسر نہیں۔ ایسے میں وہ معیاری انداز سے زندگی بسر کرنے کا تو سوچ بھی نہیں سکتے۔ عمر کا بڑا حصہ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے میں کھپ جاتا ہے۔ دولت کے ارتکاز نے کئی معاشروں کو شدید مشکلات کے بعد اب بقا کے مسئلے سے بھی دوچار کردیا ہے۔ چند گھرانے یا چند انتہائی مال دار افراد جب پوری قوم کے فیصلے کرنے لگیں تو معاملات اِتنے بگڑتے ہیں کہ ریاست ہی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ ایک زمانے سے ہم سن رہے ہیں کہ انتہائی مال دار طبقے کے لوگ پس ماندہ طبقات کو بہت کچھ دینا چاہتے ہیں۔ وہ اس حوالے سے اعلانات بھی کرتے ہیں اور کچھ نہ کچھ دیتے بھی ہیں مگر اِس سے معاشروں میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں رونما نہیں ہو رہیں۔ ارب پتی افراد کی طرف سے نیک خواہشات کے اظہار کے باوجود حوصلہ افزا حالات پیدا ہونے کا نام نہیں لے رہے۔
جنوری 2023ء میں برطانوی اخبار گارجین نے خبر دی تھی کہ دنیا بھر سے کم و بیش 200 ارب پتی افراد نے سیاست دانوں سے کہا ہے کہ وہ ٹیکس کا نیا سیٹ اَپ لائیں تاکہ انتہائی مال دار افراد سے ٹیکسوں کی مد میں بھاری رقوم وصول کرکے معیشت کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ بہبودِ عامہ یقینی بنائی جا سکے۔ مال دار طبقے کی طرف سے یہ بات اِس لیے کہی گئی کہ بھاری ٹیکس لگانے پر بھی بہبودِ عامہ کے لیے کچھ خاص نہیں کیا جارہا۔ ناہمواری اور عدم مساوات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ یہ کال سوئس شہر ڈیووس میں 53 ویں ورلڈ اکنامک فورم کے دوران دی گئی۔ اس حوالے سے کھلے خط پر دستخط کرنے والوں میں امریکہ کی ڈزنی لینڈ ایمپائر کی ابیگیل ڈزنی بھی شامل تھیں۔ خط میں کہا گیا کہ ورلڈ اکنامک فورم میں دنیا بھر کی اشرافیہ جمع ہوکر ایک بکھری ہوئی دنیا میں اشتراکِ عمل کی بات کرتی ہے مگر اِس سے کچھ خاص فرق واقع نہیں ہوتا۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ باتیں تو بہت کی جاتی ہیں مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو سب کترانے لگتے ہیں۔ ''گارجین‘‘ کے مطابق یہ ارب پتی چاہتے ہیں کہ اِنہیں محبِ وطن ارب پتی کے طور پر جانا جائے نہ کہ قوم کا خون نچوڑنے والوں کے طور پر۔ اِن کا کہنا ہے کہ دولت کا ارتکاز غیر معمولی خرابیاں پیدا کر رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امیروں سے اچھی خاصی دولت لے کر غریبوں کے حالات بہتر بنائے جائیں۔ یہ معاملہ غیر معمولی طور پر احتیاط طلب ہے کیونکہ امیروں سے لی ہوئی دولت پر پس ماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کی بیورو کریسی اور سیاست دان متصرف رہیں تو غریبوں کے حالات کبھی بہتر نہیں ہوں گے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ انتہائی مال دار افراد نے معاشی ناہمواری ختم کرنے کی بات کی ہے۔ گزشتہ برس بھی ڈیووس فورم کے موقع پر 102 ارب پتی افراد نے ایسے ہی خط کے ذریعے کہا تھا کہ اب ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے جمہوری معاشروں کا اعتماد بحال ہو اور عام آدمی کو بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع ملے۔ اِسی طور 2019ء میں ہنگری سے آبائی تعلق رکھنے والے امریکی ارب پتی جارج سوروز نے مال دار افراد کے ایک گروپ کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک خط امریکی حکومت کے نام لکھا تھا جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ایک نیا ویلتھ ٹیکس متعارف کرایا جائے جس کا بنیادی مقصد امیروں سے دولت لے کر غریبوں تک منتقل کرنا ہو۔ جارج سوروز اور اُن کے ہم خیال افراد صرف یہ چاہتے تھے کہ بھاری ٹیکسوں کی شکل میں اُن سے لی جانے والی خطیر رقوم بیورو کریسی یا سیاست دانوں کی جیب میں نہ جائے بلکہ ایسے منصوبوں پر خرچ ہو جن سے عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہو۔ فوربز میگزین کے مطابق اس خط میں درج تھا کہ بے حد مال دار افراد پر بھاری ٹیکس لگاکر معیشت کو زیادہ مستحکم کرنا امریکی حکومت کی اخلاقی اور معاشی ذمہ داری ہے۔ خط کے متن کے مطابق جن لوگوں اور کاروباری گروپوں کے ہاتھوں میں دولت مرتکز ہے اُن سے بھاری ٹیکسوں کی مد میں زیادہ وصولی کے ذریعے تعلیم و صحتِ عامہ کی سہولتوں بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو مستحکم تر کیا جاسکتا ہے، ماحول کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ ممکن ہے اور معاشرے میں پائی جانے والی مجموعی معاشی ناہمواری بھی معتدبہ حد تک دور کی جاسکتی ہے۔ 2010ء میں مائیکرو سوفٹ کے بانی سربراہ بل گیٹس نے ''دی گِونگ پلیج‘‘ کے زیر عنوان ایک تحریک شروع کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ انتہائی مال دار افراد اپنی دولت کا نصف معاشرے کے لیے وقف کریں۔ بل گیٹس نے امریکی ارب پتی اور سٹاک مارکیٹ ٹائیکون وارن بفٹ کے ساتھ مل کر ''دی گِونگ پلیج‘‘ کی رکنیت کو 28 ملکوں کے 230 ارب پتی افراد تک پھیلادیا۔ ان میں فیس بک کے بانی مارک زکر برگ، ایلون مسک، سٹینڈرڈ آئل کے وارث ڈیوڈ راک فیلر، میڈیا کی دنیا کے بے تاج باشاہ ٹیڈ ٹرنر اور سٹار وارز کے خالق جارج لوکاز بھی شامل ہیں۔ بل گیٹس کہتے ہیں ''میرا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ جو کسی کی مدد کرسکتا ہو اُسے مدد کرنی ہی چاہیے‘‘۔ ویسے اس رائے سے مکمل اتفاق کرنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں۔
برطانوی مصنف پال ویلیلی نے ''گارجین‘‘ کے لیے ایک مضمون میں لکھا کہ عام خوش فہمی یہ ہے کہ مال دار افراد کی طرف سے دیے جانے عطیوں سے دولت کی منصفانہ تقسیم اور محروم طبقات کی اشک شُوئی ممکن ہو پاتی ہے۔ اُن کا استدلال یہ ہے کہ امداد یا خیرات کے طور پر دی جانے والی رقوم کے حوالے سے سب سے بڑی الجھن یہ ہے کہ دینے والے اپنی مرضی کے مطابق دیتے ہیں اور ضرورت مندوں کی حقیقی ضرورتوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر بڑوں کی طرف سے اربوں ڈالر بھی دیے جائیں اور اُن سے غریبوں کے لیے منصوبہ سازی کے تحت کچھ نہ کیا جاسکے تو ایسی امداد اور عطیات کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔ اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کو خیرات نہیں‘ سخاوت کی ضرورت ہے۔ اکتوبر 2021ء میں امریکی سینیٹر ران وائیڈن نے بلینئر ٹیکس تجویز کیا جس کا مقصد صرف ارب پتی افراد کی دولت نہیں بلکہ مجموعی طور پر ساری دولت کی نگرانی تھا مگر اس بل کو دونوں بڑی جماعتوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں بھی دولت کا ارتکاز ختم کرنے کے لیے انقلابی نوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایسے اقدامات میں بہبودِ عامہ کو مرکزی حیثیت دی جانی چاہیے۔