"MIK" (space) message & send to 7575

زندگی کو ڈکارنے والا عذاب

ہم زندگی بھر مختلف النوع عذابوں سے دوچار رہتے ہیں۔ کچھ ہمارے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں اور کچھ حالات کی مہربانی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ عمومی سطح پر ہم ایسا بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں ہم اپنے آپ کو بہت حد تک مجبور محسوس کرتے ہیں۔ کیا واقعی ہم بیشتر معاملات میں مجبور ہوتے ہیں؟ اس حوالے سے اختلافِ رائے پایا جاسکتا ہے۔ ہم ہر معاملے میں لازمی طور پر بے بس یا لاچار نہیں ہوتے۔ ہم ایسا بہت کچھ کرتے ہیں جو ہمارے لیے سر بسر الجھن کا باعث ہوتا ہے جبکہ ہم اُس سے بچ کر بھی چل سکتے تھے یا چل سکتے ہیں۔ فی زمانہ بہت سے معاملات ذہنوں میں الجھنیں پیدا کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اِن میں ٹال مٹول سب سے بڑھ کر ہے۔ ٹال مٹول یعنی کام سے گریز! کام سے گریز کی بہت سے وجوہ ہوسکتی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ذہن وجوہ پیدا بھی کرلیتے ہیں! جو شخص کام سے بھاگتا ہے اُس کا ذہن مختلف بہانے تلاش کرتا اور گھڑتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر ٹال مٹول جواز پیش کیا جاسکے! ٹال مٹول کے حوالے سے ایک غلط تصور یہ ہے کہ لوگ کاہلی یا سستی کے باعث کام سے بھاگتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے یا کم از کم ہر معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کے ذہن اِتنے الجھے ہوئے ہیں کہ وہ خواہش کے باوجود کام نہیں کر پاتے۔ کسی بھی کام کو بروقت شروع کرنے اور ڈھنگ سے انجام تک پہنچانے کے لیے ناگزیر ہے کہ ذہن میں کوئی بے جا الجھن نہ پائی جائے۔ ذہن میں گرہیں پڑی ہوں تو انسان کسی بھی طور دلجمعی سے کام نہیں کرسکتا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے ماہرینِ نفسیات سے گفتگو کے ذریعے اُن لوگوں کے لیے مشوروں کا اہتمام کیا جو ٹال مٹول کے عادی یا ان کے اسیر ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ زندگی کسی بھی اعتبار سے اُتنی مشکل نہیں جتنی ہم اُسے سمجھتے اور بناتے ہیں۔ ہر انسان کے لیے آسانیاں موجود ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ وہ آسانیوں کو تلاش کرکے گلے لگانا چاہتا ہے یا نہیں۔ ماہرِ نفسیات لِنڈا سیپیڈن (Linda Sapadin) کہتی ہیں کہ ٹال مٹول کی نفسیات پر قابو پانے کے لیے اُسے سمجھنا لازم ہے۔ لوگ اِس مرحلے سے بھاگتے ہیں۔ کام سے گریز کے معاملے کو سمجھنے کے لیے معلقہ مواد پڑھنا پڑے گا تاکہ اندازہ ہوسکے کہ لوگ کام سے گریزاں کیوں رہتے ہیں۔ لِنڈا سیپیڈن نے اپنی کتاب ''How to Beat Procrastination in the Digital Age‘‘ میں ٹال مٹول کے حوالے سے بحث کے دوران بتایا ہے کہ تین طرح کے مزاج والے لوگ ٹال مٹول کی بھول بھلیوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ پہلے نمبر پر ''پرفیکشنسٹ‘‘ ہیں یعنی وہ لوگ جو ہر معاملے میں جامعیت کے قائل ہیں۔ ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کریں وہ ہر اعتبار سے جامع ہو۔ یہی سبب ہے کہ وہ کام کے معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیتے رہتے ہیں۔ وہ ناکامی اور تنقید‘ دونوں ہی سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ''ڈریمر‘‘ ہوتے ہیں یعنی خواب دیکھنے والے۔ یہ لوگ ہر معاملے میں خواب دیکھنے کے اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ اُنہی میں گم رہتے ہیں۔ یہ اپنے لیے مثالی صورتِ حال کے منتظر رہتے ہیں۔ جب تک تمام معاملات بھرپور ہم آہنگ دکھائی نہ دیں یہ کام نہیں کرتے۔ تیسرے نمبر پر ہیں ''وَریئر‘‘ یعنی پریشان رہنے والے لوگ۔ یہ لوگ بھی کام کے معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیتے رہتے ہیں اور اِس کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ اِن کے ذہن پریشان رہتے ہیں۔ پریشانی ناکامی کے خوف سے بھی ہوتی ہے اور یہ تنقید سے بھی بھاگتے ہیں۔ ''پرفیکشنسٹ‘‘ بھی ناکامی اور تنقید‘ دونوں سے ڈرتے ہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی سے محقق کی حیثیت سے وابستہ اِٹامر شیٹز کا کہنا ہے کہ ناکامی اور تنقید کا خوف انسان سے اعتماد چھین لیتا ہے اور وہ کام کے معاملے میں ٹال مٹول کا شکار رہتا ہے۔ اس حوالے سے بہت کچھ لکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ٹال مٹول سے بچنے کے لیے محض مشورے کافی نہیں، فکری ساخت کا بدلنا بھی ناگزیر ہے۔ غیر حقیقت پسندانہ طرزِ فکر انسان کو مختلف حوالوں سے الجھائے رکھتی ہے۔ جامعیت پسند افراد ہر معاملے میں ایسا معیار چاہتے ہیں جسے کوئی چھو نہ سکے۔ ایسا ممکن نہیں۔ کوئی بھی انسان کسی بھی حال میں ہر کام انتہائی جامعیت کے ساتھ نہیں کرسکتا۔ جو کام کرتے ہیں وہ غلطی بھی کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو سمجھنے اور ہضم کرنے کی ضرورت ہے۔ غلطی صرف وہی لوگ نہیں کرتے جو کچھ نہیں کرتے!
حقیقت پسندی یہ ہے کہ انسان اپنی اصلیت سے اچھی طرح واقف ہو اور اُسی کے مطابق کام کرے۔ انسان کو وہی کام اچھی طرح کرنا چاہیے جو وہ اچھی طرح کرسکتا ہو۔ وہ لوگ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں جو اپنے وجود سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ کوئی بھی انسان ایک خاص حد تک ہی جاسکتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے ہر وقت بہت زیادہ اور پوری جامعیت کے ساتھ کام کرنا ممکن نہیں۔ سوال مالی حیثیت کا نہیں، صلاحیت و سکت کا ہے۔ جو لوگ جامعیت پسند ہوتے ہیں وہ اپنی قابلیت کا دائرہ وسیع کرنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن سے کوئی غلطی سرزد نہ ہو۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب قابلیت انتہائی نوعیت کی ہو۔ محض خواہش کرلینے سے قابلیت پیدا نہیں ہوتی۔
ماہرِ نفسیات وارا سری پَلّی کا کہنا ہے کہ خوابوں کی دنیا میں گم رہنے والے حقیقت کی دنیا میں پیش آنے والی مشکلات سے خائف رہتے ہیں۔ ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں اُس میں کچھ بھی جامع نہیں۔ جامعیت تو ہمیں پیدا کرنا پڑتی ہے۔ خوابوں میں گم رہنے والوں کے لیے کوئی بھی کام ڈھنگ سے کرنا ممکن نہیں رہتا کیونکہ وہ ہر وقت مثالی نوعیت کے مواقع کے منتظر رہتے ہیں۔ ہم یہ حقیقت بالعموم نظر انداز کردیتے ہیں کہ ٹال مٹول کے نتیجے میں ذہن الجھا رہتا ہے اور جذبات میں بھی نشیب و فراز کی کیفیت برقرار رہتی ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد غیر معمولی محنت سے تھکتے ہیں مگر زیادہ تھکن اُن پر سوار ہوتی ہے جو کام ہی نہیں کرتے! کام سے گریز کی راہ پر گامزن رہنے والے شدید اضطراب اور ڈپریشن کی زد میں رہتے ہیں۔ نیند میں بھی باربار خلل واقع ہوتا ہے۔ کسی بھی کام کو غلطی کے ساتھ کرنے سے کہیں بُری بات یہ ہے کہ انسان کام ہی نہ کرے۔ غلطی کی صورت میں بھی اِس بات کا اطمینان تو بہرحال رہے گا کہ کچھ کیا ہے، فارغ بیٹھے نہیں رہے۔ زندگی حقیقت پسندی سے عبارت ہونی چاہیے۔ ہر انسان کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہوتا ہے۔ جو کرنا ہے وہ کرنا ہی چاہیے۔ محض سوچتے رہنے اور کام کو ٹالتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کسی بھی کام کو کرنے کا بہترین موقع تلاش کرتے رہنے سے وہ کام ہو ہی نہیں پاتا۔ لازم ہے کہ انسان اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے معاملے میں سنجیدہ ہو۔ یہ حقیقت ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کام زیادہ اہم ہے، جامعیت کو ہر حال میں اولین ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ بے داغ کارکردگی کسی کی نہیں ہوتی۔ یا ہر وقت بے داغ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ غیر معمولی صلاحیت و سکت کے حامل ہوتے ہیں وہ بھی کام کرنے سے کتراتے رہتے ہیں اور یہ رویہ محض ناکامی کے خوف کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ناکامی کا خوف دامن گیر رہے تو انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اس خوف سے نجات پانے کی ضرورت ہے۔ تنقید سے بچنے کی ہر کوشش لازم نہیں۔ کبھی کبھی تنقید انسان کو کچھ نیا کرنے کا راستہ بھی دکھاتی ہے۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ٹال مٹول کی طرف جانے والے عوامل میں متعلقہ معلومات کا نہ ہونا بھی اہم ہے۔ جو لوگ اپنے کام کے حوالے سے ادھوری معلومات رکھتے ہیں وہ بھی کام شروع کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ اپنے شعبے کے علم و فن سے اچھی طرح واقف ہونا سب کے لیے ناگزیر ہے۔ ادھوری معلومات اور ناکافی قابلیت کی بنیاد پر کام کرنے والے پریشان رہتے ہیں۔ ٹال مٹول کے حوالے سے یہ حقیقت بھی نظر انداز کردی جاتی ہے کہ کسی شعبے میں ترقی کی گنجائش زیادہ نہ رہے یا منافع کمانے کی صلاحیت دم توڑنے لگے تو انسان کچھ بھی کرنے سے گھبراتا ہے۔ ٹال مٹول کا ہر معاملہ مزاج کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی حالات بھی انسان کو اِس طرف لے جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں