ہم جیے جاتے ہیں اور جینے کے حوالے سے پریشان بھی رہتے ہیں۔ کون ہے جو معیاری زندگی بسر کرنے کا خواہش مند نہیں؟ ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی اِس طور بسر ہو کہ لوگ دیکھیں اور رشک کریں۔ یہ خواہش کچھ ایسی بُری بھی نہیں مگر اِس کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے وہ نہ کیا جائے تو بات بنتی نہیں۔ بن سکتی بھی نہیں! محض خواہش کرلینے سے کچھ حاصل نہیں ہو پاتا۔ ہر انسان کو اپنے لیے گنجائش پیدا کرنا پڑتی ہے۔ محض خواہش کرنے سے دل کو کچھ دیر کے لیے سُکون تو مل سکتا ہے مگر اِس کے بعد...؟ پھر اُنہی تلخ سچائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن سے نپٹنے میں انسان کھپ جاتا ہے۔
کسی بھی انسان کے لیے اپنی سچائیوں سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں ہوسکتا۔ انسان کسی اور کے بارے میں کچھ جانے نہ جانے‘ کم از کم اپنی سچائیوں کو تو جانتا ہی ہے۔ وہ اپنی سچائیوں کے بارے میں جتنا جانتا ہے اُتنا کوئی اور نہیں جان سکتا۔ ہر انسان کے لیے سب سے بڑا معاملہ اپنی سچائیوں سے متعلق ہوتا ہے۔ کوئی کتنا طاقتور اور کتنا کمزور ہے‘ یہ بات خود اُس کے سوا کون جان سکتا ہے؟ آپ کسی بھی انسان کے بارے میں یہ دعویٰ کبھی نہیں کرسکتے کہ اُسے آپ خود اُس سے زیادہ جانتے ہیں۔
اپنی سچائیوں سے اچھی طرح باخبر ہونے کی بدولت ہم اپنے لیے بہترین راہ منتخب کرسکتے ہیں۔ ہم کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کرسکتے‘ یہ بات چونکہ کوئی اور نہیں جانتا اِس لیے وہ ہمارے لیے منصوبہ سازی بھی نہیں کرسکتا۔ اِس مرحلے سے ہمیں خود ہی گزرنا ہوتا ہے اور کسی بھی انسان کے لیے منصوبہ سازی کے بغیر ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی کامیاب انسان کے حالاتِ زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُس نے کچھ سوچا، کچھ طے کیا اور اُس پر عمل کیا۔ اِسی کا نام منصوبہ سازی ہے۔ جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ منصوبہ سازی کے مرحلے سے ضرور گزرتے ہیں۔ اس مرحلے سے گزرنے ہی پر وہ کچھ کرنے کی حقیقی تیاری کر پاتے ہیں۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ محض خواہش کرنے یا سوچ لینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ خواہش کا شدید ہونا اچھی بات ہے مگر اِس کا فائدہ اُسی وقت پہنچتا ہے جب انسان سنجیدگی کے ساتھ کچھ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، پھر تیاری کے مراحل سے گزرتا ہے اور اپنے لیے کوئی ایسی راہ منتخب کرتا ہے جس پر دور تک جانا ممکن ہو۔
کیریئر کا انتخاب زندگی کے بنیادی فیصلوں میں سے ایک ہے۔ کسی بھی انسان کو معاشی میدان میں کیا کرنا ہے اِس کا مدار اصلاً اِس بات پر ہے کہ وہ کس شعبے سے زیادہ شغف رکھتا ہے۔ جب انسان کسی شعبے کو پسند کرتا ہے تو اُس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے لیے پڑھنا بھی پڑتا ہے اور مشاہدے کے مرحلے سے بھی گزرتے رہنا پڑتا ہے۔ اداکاری ہی کو دیکھ لیجیے۔ جنہیں اداکار بننا ہو وہ محض سوچ لینے سے اداکار نہیں بن جاتے بلکہ اِس فن کو سیکھنے پر متوجہ ہوتے ہیں۔ پھر سٹیج ڈرامے، فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ سیکھنے کے عمل کا حصہ ہے۔ سیکھنے کے مختلف مراحل سے گزرنے ہی پر وہ ڈھنگ سے اداکاری کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ آج کل اداکاری سکھانے والے ادارے بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور اُن میں داخلہ لے کر کوئی بھی تھوڑی بہت اداکاری سیکھ لیتا ہے۔ اداکار بننے کے لیے اِتنا کافی نہیں ہوتا۔ یہ زندگی بھر سیکھتے رہنے کا ہنر ہے۔ مگر خیر ایک اداکاری پر کیا موقوف‘ ہر ہنر زندگی بھر سیکھتے رہنے کا معاملہ ہوتا ہے۔ سیکھنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں اور جامعیت پیدا کرنے کے لیے وقت کی کوئی حد بھی مقرر نہیں۔ آپ زیادہ کامیاب اُنہی کو پائیں گے جو زندگی بھر سیکھتے رہتے ہیں، اپنے فن میں زیادہ سے زیادہ گہرائی پیدا کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ یہ بے تابی ہی اُنہیں سیکھتے رہنے کی تحریک دیتی ہے۔
بھرپور اور قابلِ رشک کامیابی یقینی بنانے کے لیے انسان کو بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے مگر اِس سے بہت پہلے اُسے اپنے بارے سوچنا اور جاننا پڑتا ہے۔ اپنی تمام سچائیوں کو جانے اور سمجھے بغیر کوئی بھی زیادہ سیکھ نہیں سکتا، بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ ہر انسان میں بہت سی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں۔ کوئی ایک انسان بھی خامیوں سے پاک نہیں۔ اور ایسا بھی نہیں کہ کسی میں کوئی خوبی نہ پائی جاتی ہو۔ ہم سب کو اپنی اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جینا ہوتا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ خوبیوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور خامیوں کی تعداد گھٹتی جائے۔ یہ کام منصوبہ سازی کا متقاضی ہے۔ اپنی سچائیوں کے ساتھ جینے کا ہنر یہ ہے کہ انسان کسی بھی معاملے میں حقیقت پسندی کا دامن ہاتھ نہ چھوڑے۔ حقیقت پسندی یہ ہے کہ انسان وہی کچھ کرے جو وہ کرسکتا ہے اور جو کرنا چاہتا ہے۔ محض خواہش کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے مزاج کے خلاف جانا صلاحیت و سکت کو ضائع کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ بہت سوں کو آپ نے ایسے کام کرتے دیکھا ہوگا جن کا رجحان اُن میں نہیں پایا جاتا تھا مگر پھر بھی وہ یہ سب کرتے رہے اور پریشانی سے دوچار رہے۔ ایسا لالچ کے ہاتھوں بھی ہوتا ہے اور بے ذہنی کے نتیجے میں بھی۔ بے ذہنی یہ ہے کہ انسان اپنے وجود اور ماحول کو نظر انداز کرکے محض خواہشات کا غلام ہو رہے اور وہ کام بھی کرے جو مزاج کے خلاف ہو۔ کسی بھی کامیاب انسان سے پوچھئے کہ وہ اپنے کام کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے تو وہ یہی کہے گا کہ اُسے اپنے کام سے عشق تھا، تبھی تو کامیاب ہو پایا۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان کسی کام کو پسند نہ کرتا ہو، اُس سے عشق نہ کرتا ہو اور اس فیلڈ میں کامیاب ہو جائے۔ ہاں‘ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کو پسند نہ کرتا ہو مگر جب کرنا پڑے تو پسند بھی کرنے لگے اور پھر وہ کام اُس کی فکری اور جذباتی ساخت کا حصہ ہوکر رہ جائے۔ یہ بالکل ایسا معاملہ ہے کہ جیون ساتھی پسند کا ہونا چاہیے۔ اگر پسند کا جیون ساتھی نہ ملے تو پھر جو ملے اُسے پسند کر لیا جائے تاکہ بات بنتی چلی جائے!
کسی بھی شعبے میں کامیابی یقینی بنانے کے لیے بنیادی وصف ہے اپنے وجود سے مکمل آشنائی اور ہم آہنگی۔ انسان بہت کچھ کرسکتا ہے مگر صرف اُس وقت جب وہ اپنے وجود کو اچھی طرح سمجھتا ہو، اپنی تمام صلاحیتوں اور سکت سے اچھی طرح واقف ہو اور اُن کا معیار بلند کرنے پر متوجہ ہو۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہوتا ہے جب اعتماد کا گراف بلند ہو۔ آپ نے بہت سوں کو دیکھا ہوگا کہ عمر کا بڑا حصہ ناکامی کی نذر کردیتے ہیں اور ایسا محض اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنی سچائیوں سے واقف نہیں ہوتے اور اِس کے نتیجے میں اُن میں مطلوب درجے کا اعتماد بھی پیدا نہیں ہوتا۔ انسان اپنے بارے میں سبھی کچھ جانتا ہے مگر اِس حوالے سے ٹھوس بنیادوں پر سوچنا ہوتا ہے۔ ہم بہت سے معاملات میں بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر خود ہمیں ٹھیک سے اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم کہاں تک جاسکتے ہیں۔ اس حوالے سے تعلیم و تربیت کا اہتمام ہو، تیاری کی جائے تو بہت کچھ ممکن ہو پاتا ہے۔ اپنی سچائیوں سے باخبر رہنے کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنی خوبیوں اور خامیوں کے تمام پہلوؤں سے واقف ہو۔ ذہن میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ اگر اسے آزاد و بے لگام چھوڑ دیا جائے تو ذہن ڈھنگ سے سوچنے کے قابل نہیں ہو پاتا کیونکہ ہمارے محسوسات ذہن میں داخل ہوکر خیالات کی شکل اختیار کرتے ہیں اور پھر ذہن خیالات کی بہتات کے دریا میں بہتا چلا جاتا ہے۔
ذہن کا واضح ہونا کامیابی کی انتہائی بنیادی شرط ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم اِس حوالے سے سنجیدہ اور اپنے بنیادی اہداف و مقاصد سے مخلص ہوں۔ اپنی سچائیوں کو ہر وقت نظر میں رکھنا اس لیے بار آور ثابت ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں انسان کو خوب اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کب کیا کرسکتا ہے اور کتنا کرسکتا ہے۔ دنیا اُس مقام پر ہے جہاں کوئی بھی انسان بے ذہنی کا متحمل ہوسکتا ہے نہ اپنی سچائیوں کو نظر انداز کرنے کا۔ اپنی تمام سچائیوں سے واقفیت اور اُن سے مطابقت ہی ہمیں کچھ کرنے کے قابل بنا پاتی ہے۔