زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا انسان کی ایک بنیادی سرگرمی ہے۔ خوب سے خوب کی تلاش اُس کی سرشت کا حصہ ہے۔ یہ تلاش کہیں رُکتی دکھائی نہیں دیتی۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے خوب کہا ہے ؎
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں
ہر انسان مرتے دم تک اِس کوشش میں مصروف رہتا ہے کہ جو کچھ میسر ہے اُس سے زیادہ ملے۔ یہ خواہش اور کوشش کچھ بُری نہیں اگر اخلاقی حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو۔ مشکل یہ ہے کہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں لوگ بہت آگے نکل جاتے ہیں اور بسا اوقات وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں اُنہیں کسی حال میں نہیں پہنچنا چاہیے۔ اِس کے نتیجے میں ایسی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جو زندگی کا تیا پانچا کردیتی ہیں۔ کسی بھی پسماندہ معاشرے میں لوگ زیادہ سے زیادہ کمانے کے حوالے سے جس ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں وہ ہمارے ہاں بھی پوری شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ یہ ذہنیت راتوں رات پیدا نہیں ہوئی۔ زمانے گزرے ہیں تب کہیں جاکر لوگوں کی سوچ بدلی ہے یا بدلی گئی ہے۔ ہم ایسی حقیقتوں کے ساتھ جی رہے ہیں جو ہوتی کچھ ہیں اور دکھائی کچھ دیتی ہیں۔ بہت کچھ ہے جو غیر محسوس طور پر ہماری زندگی، فکری ساخت اور طرزِ عمل کا حصہ بنتا جاتا ہے اور ہمیں اُس کا اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے یا گزرنے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے۔ آج عام پاکستان جس ذہنیت کا حامل ہے وہ اُس کی فکری ساخت کا حصہ نہیں تھی۔ خاصی جاں فشانی کے ساتھ تیار کی جانے والی منصوبہ سازی کے تحت لوگوں کو بدلا گیا ہے۔ جب کسی قوم کو نشانے پر لیا جاتا ہے تو کوشش نہ کرنے پر بھی بات سمجھ میں آنے لگتی ہے اور اِس تفہیم میں زیادہ وقت بھی نہیں لگتا۔ پاکستان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ایک طرف تو ملک کے اندر کچھ انتہائی با اثر حلقے تھے جو چاہتے تھے کہ لوگ صرف اور صرف زر کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہنے کے عادی ہوجائیں اور دوسری طرف بڑی طاقتیں بھی یہی چاہتی تھیں کہ پاکستانیوں کی غالب اکثریت دُنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے کی ذہنیت کی حامل ہوجائے اور آخرت کا تصور ذہن سے کھرچ کر پھینک دے۔ کم و بیش تین عشروں کی جاں فشانی کے بعد اہلِ مغرب اپنے مقاصد حاصل کرنے میں خاصی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ جس نوعیت کی تبدیلی درکار تھی وہ اب ممکن بنالی گئی ہے۔
مغرب کو کیا مطلوب تھا؟ صرف اور صرف انتشار۔ اہلِ پاکستان کے ذہنوں میں انتشار پیدا کرنا مقصود تھا اور وہ پیدا کرلیا گیا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ پاکستانیوں کی غالب اکثریت کو دن رات صرف ایک فکر کھائے جاتی ہے‘ وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ کیونکر کمایاجائے۔ جب زر پرستی مزاج کا حصہ بن جائے اور خالص مادّہ پرستی فکری ساخت پر حاوی ہو جائے تو انسان صرف یہ سوچتا رہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کیونکر کمایا جائے اور کس طور زیادہ سے زیادہ خرچ کرکے اپنے آپ کو کامیاب ترین افراد کے زمرے میں شامل کیا جائے۔ خالص دنیا پرستی کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ کمانے اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کو زندگی کا انتہائی بنیادی مقصد گردانے اور اِس سے آگے کچھ بھی نہ سوچے۔ ڈیڑھ‘ دو عشروں کے دوران کچھ تو بیرونی سازشوں کے باعث اور کچھ اپنوں کی پست ذہنیت کے ہاتھوں ہمارے یہاں ایک نئی ذہنیت پروان چڑھی ہے‘ وہ یہ کہ ہر وقت صرف رونا رویا جائے۔ حالات کا رونا رونے کی عادت اب اِتنی پختہ ہوچکی ہے کہ جو بظاہر شکوہ سنج رہنے کی ذہنیت پر یقین نہ رکھتا ہو اُسے لوگ حیرت اور حسد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پسند نہیں کرتے۔ جو اپنے معاملات کو کسی نہ کسی طور خوش اُسلوبی سے نمٹانے میں کامیاب ہو اور بے جا رونا دھونا نہ کرتا ہو وہ دیکھتے ہی دیکھتے Oddہو جاتا ہے یعنی لوگ اُسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔
رونے سے اور حالات کی خرابی کا راگ الاپنے سے دل کو سُکون ضرور ملتا ہے مگر ایک خاص حد تک ہی ایسا ہوتا ہے۔ محض روتے رہنا کسی بھی مسئلے کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا نہیں کرتا۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کتنا رونا چاہیے۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ فی زمانہ کوئی بھی انسان بحرانوں سے آزاد و محفوظ نہیں۔ ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی بحران براجمان رہتا ہی ہے۔ آج کی دنیا اور آج کی زندگی کا یہی بنیادی چلن ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے پر متوجہ رہنے کے بجائے صرف رو دھو کر جیا کرے۔ شکوہ سنج رہنا اول تو پسندیدہ عمل نہیں ہے لیکن اگر کوئی حالات کے جبر کے سامنے بالکل بے بس ہو تو فطری طور پر تھوڑا بہت شکوہ بنتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ لوگ تھوڑے بہت میں صرف بہت کو پسند کرتے اور چُنتے ہیں۔ کیا حالات کا شکوہ کرتے رہنے سے کچھ ہوسکتا ہے؟ جی ہاں! صرف خرابی بڑھ سکتی ہے اور بڑھ رہی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں حالات سے نالاں رہنے والوں کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ جنہیں رونا روتے رہنے کی عادت پڑ جائے وہ عمل سے دور ہو جاتے ہیں۔ جو توجہ عمل پر دینا ہوتی ہے وہ اگر حالات کا رونا رونے پر دی جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ حالات کا شکوہ اصلاً ناشکرے پن کا مظہر ہے۔ قدرت نے سبھی کو نوازا ہے، اس کے نظام میں عدمِ عدل ہے ہی نہیں۔ ہر معاملہ نپا تُلا اور جانچا پرکھا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اُسے دوسروں سے کم ملا ہے تو ذرا اپنے معاملات کا جائزہ لے۔ قدرت کا نظام عدل سے عبارت ہے۔ غلطی اگر ہوتی ہے تو انسان کی طرف سے ہوتی ہے۔ انسانوں کے درمیان معاملات عدم توازن کا شکار ہوں تو کوئی حالات کی چکّی میں پستا ہے اور کوئی مزے لُوٹتا ہے۔ یہ سب کچھ انسانوں کی طرف سے ہوتا ہے، قدرت کی طرف سے نہیں۔ کس دور کا انسان اپنے آپ سے، اپنے حالات سے مطمئن تھا؟ کسی بھی دور کا نہیں! ہر دور کے انسان نے زیادہ سے زیادہ پانے کی خواہش اور کوشش کی ہے۔ ہاں‘ تب کے اور آج کے دور میں نمایاں ترین فرق یہ ہے کہ تب انسان کے لیے صرف دولت کا حصول سب کچھ نہ تھا۔ وہ دوسرے بہت سے معاملات کو بھی اہمیت دیتا تھا۔ تب کا انسان مذاقِ لطیف کا حامل تھا۔ وہ زندگی کی خوبصورتی سے محظوظ ہوتا تھا۔ اُسے قدرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے میں لطف محسوس ہوتا تھا۔ تب دولت زندگی کی ضرورت تھی‘ کُل زندگی نہ تھی۔ آج بھی دولت زندگی نہیں ہے۔ ہم نے زندگی کی ایک بنیادی ضرورت کو مکمل زندگی کا درجہ دے کر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ یہ معاملہ انتہائی سنگین ہے مگر ہم اِس کی سنگینی کے درست ادراک کے لیے بھی تیار نہیں۔
کسی بھی بحرانی کیفیت کا سامنا خندہ پیشانی اور پامردی سے کیا جاتا ہے۔ حالات کا رونا روتے رہنا اپنے وجود کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ فی زمانہ ایک مقبول شکوہ پیکیج کا ہے۔ ملازمت پیشہ افراد کی عمومی گفتگو میں یہ لفظ ایسا رچ بس گیا ہے کہ اب اِس کا الگ ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ ڈیڑھ‘ دو عشروں کے دوران میڈیا کی بے مثال ترقی نے عام آدمی کو کئی الفاظ رجحان کے طور پر بخشے ہیں۔ پیکیج بھی ایک ایسا ہی لفظ ہے۔ اب عام گفتگو میں بھی لوگ گھوم پھر کر پیکیج تک پہنچ جاتے ہیں یعنی یہ کہ کسے کیا مل رہا ہے۔ کسی کو اچھا پیکیج مل رہا ہو تو کوشش ہوتی ہے کہ اُس کے ذریعے اُسی کے ادارے میں کام تلاش کیا جائے۔ یہ کوئی بُری بات نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک لفظ دل و دماغ پر سوار ہوچکا ہے۔ لوگ اب اٹھتے بیٹھتے کسی نہ کسی بات کو گھما پھراکر پیکیجز کے موازنے تک پہنچ جاتے ہیں۔ کیا زندگی ہمیں اس لیے بخشی گئی ہے کہ ہر وقت پیکیج پر بحث کرتے رہیں، اُسے بہتر بنانے کے بارے میں سوچتے رہیں، کوشاں رہیں؟ اور بھی بہت کچھ ہے جو ہماری توجہ چاہتا ہے۔ تمام معاملات کو زر پرستی کی چوکھٹ پر قربان کرنے میں صرف خسارہ ہے۔ حالات کے بارے میں شکوہ سنج رہنے سے بلند ہوکر جینا ہی انسانیت کے شایانِ شان ہے۔