پیدائش اور موت فطری امور ہیں جن پر کسی کا اختیار نہیں۔ جو پیدا ہوا ہے وہ ایک دن مرے گا۔ ہاں‘ پیدائش اور موت کے درمیان جو کچھ بھی ہے وہ ہمارے لیے قابلِ غور ہے۔ پیدائش اور موت پر اختیار بھلے ہی نہ ہو‘ ان دونوں کے درمیان جو کچھ بھی ہے وہ بہت حد تک ہمارے اختیار میں ہے۔ ہماری پسند و ناپسند ہماری زندگی پر اثر انداز ہوسکتی ہے اور ہوتی ہی ہے۔ ہم کیسے جئیں گے اِس کا تعین بہت حد تک ہمِیں کو کرنا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کی خواہش کس کے دل میں انگڑائیاں نہیں لیتی مگر کیا اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے درکار عزم پایا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب بالعموم نفی ہی میں دیا جاسکتا ہے۔ انسان مرتے دم تک اس بات کا خواہش مند رہتا ہے کہ زندگی ہر قدم پر خوش حالی سے ہم کنار رہے۔ اِس کے لیے وہ سو جتن کرتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان محنت تو بہت کرتا ہے مگر ساری منت غلط اندازوں کے ساتھ اور غلط سَمت میں ہوتی ہے۔ اِس کا نتیجہ؟ جاں فشانی کے باوجود کچھ خاص حاصل نہیں ہو پاتا۔ کسی کو معلوم نہیں کہ موت کب آئے گی؟ بہت سے لوگ انتہائی کمزور جسم کے ساتھ، بیماریوں کو جھیلتے ہوئے، طویل عمر پاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اچھے خاصے صحت مند ہوتے ہوئے بہت چھوٹی عمر میں دنیا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اِس سوال کا جواب طبی ماہرین کے پاس ہے نہ فطری علوم کے محققین کے پاس۔ وہ محض قیاس کے گھوڑے دوڑا سکتے ہیں۔
تحقیق کے میدان بہت سے ہیں۔ کم و بیش ہر معاملے پر دادِ تحقیق دی جارہی ہے۔ فی زمانہ ماہرین میں اس بات پر بھی ایک دوڑ سی لگی ہے کہ کسی نہ کسی طور معلوم کیا جائے کہ کوئی کتنا جیے گا۔ اِس کے لیے مصنوعی ذہانت سے بھی مدد لی جارہی ہے۔ جاپان کی اوساکا میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے محققین نے مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ایسا ماڈل تیار کیا ہے جس کی مدد سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ کوئی کتنا جیے گا۔ یہ کام سینے کے ایکس رے کی مدد سے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔The Lancet Healthy Longevityجرنل میں شائع ہونے والے مقالے میں اوساکا میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے محققین نے بتایا ہے کہ کسی بھی شخص کی عمر جتنی زیادہ ہوسکتی ہے اُس کے بیمار پڑنے کا امکان بھی اُتنا ہی توانا ہوتا ہے۔ گریجویٹ سٹوڈنٹ اور مقالے کے مصنف یاسو ہیٹو مستویاما (Yasue H. Matsuyama) کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ماڈل کی بنیاد پر طے ہونے والی حقیقی عمر صحت سے متعلق معاملات کی بہتر تشریح میں مدد کرسکتی ہے۔ ماہرین دراصل یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی انسان کو کون کون سے خطرناک امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔ خون، ٹشو اور ہڈیوں کے گودے کے تجزیے سے مستقبل میں لاحق ہونے والی بیماریوں کے بارے میں تھوڑا بہت ضرور جانا جاسکتا ہے۔ یہ بات 2008 ء سے 2011ء کے دوران مختلف ہسپتالوں میں 67 ہزار افراد کی سینے کی ایکس رے رپورٹس کی مدد سے کہی گئی ہے۔ محققین نے مختلف بیماریوں کا سامنا کرنے والے مریضوں کے سینے کے 34 ہزار ریڈیو گرافس کا بھی جائزہ لیا تاکہ اصل عمر اور مختلف بیماریوں کو شکست دینے کی صورت میں حاصل ہونے والی عمر کے فرق کو بہتر طور پر سمجھا جاسکے۔ مصنوعی ذہانت پر مشتمل ماڈل کی مدد سے کسی بھی شخص کی اصل عمر کے مقابلے میں زیادہ عمر کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ جسم کے مدافعتی نظام کی کیفیت بھی عمر کا اندازہ لگانے میں خاصی مدد دیتی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مصنوعی ذہانت کا ماڈل جسم کا ٹھوس تجزیہ کرکے بتاتا ہے کہ کوئی بھی شخص کس حد تک بیماریوں کو شکست دے سکتا ہے اور کہاں تک جی سکتا ہے۔
یہ تو ہوئی تحقیق اور تکنیک کی بات۔ اب آئیے زندگی کے اخلاقی پہلو کی طرف۔ ہر انسان زیادہ سے زیادہ جینا چاہتا ہے۔ یہ خواہش کسی بھی درجے میں بُری نہیں۔ قدرت کی بخشی ہوئی سانسیں اِتنی بڑی نعمت ہیں کہ انسان چاہتا ہے کہ اِن کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے۔ ہمیں کب تک جینا ہے یہ تو خدا ہی کو معلوم ہے مگر ہاں‘ ہم یہی چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ جئیں تاکہ دنیا کی رنگینیوں سے محظوظ ہوتے رہیں۔ یہ دنیا ہے ہی ایسی رنگین اور پُرلطف کہ اس کا نشہ اُترنے کا نام نہیں لیتا۔ جو لوگ حالات سے تنگ رہتے ہیں وہ بھی جینا چاہتے ہیں۔ جو آسودہ حال ہیں وہ کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ جینے کے متمنی رہتے ہیں۔ دنیا کے لیے اُن کا موہ ایسا نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ یہ دنیا ہے ہی اِتنی موہنی کہ جی نہیں بھرتا۔ زندگی نعمت ہے اور ہر نعمت اس لیے ہوتی ہے کہ اول تو اُس سے مستفید ہوا جائے اور دوسرا‘ اُس کا حق ادا کیا جائے۔ ہر انسان کو اِس دنیا سے جس قدر لطف اندوز ہونے کا حق حاصل ہے اُسی قدر فریضہ بھی تو اُس پر عائد ہوتا ہے کہ دنیا کو کچھ دے، لوگوں کو ڈھنگ سے جینے میں مدد دے۔ زندگی کا معاملہ مقدار سے زیادہ معیار کا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کوئی کتنا جیے بلکہ یہ ہے کہ کس طرح جیے یعنی زندگی کیسی ہونی چاہیے۔ منظم اور آسودہ حال معاشروں میں لوگ اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کرتے ہیں، چھوٹی عمر ہی میں بہت کچھ پالیتے ہیں۔ صحتِ عامہ کا بلند معیار انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بناتا ہے۔ کیریئر سے متعلق سوچ تیزی سے پروان چڑھتی ہے اور بارآور بھی ثابت ہوتی ہے۔ یہی حال دوسرے بہت سے معاملات کا بھی ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں میں کوئی طولِ عمر کی آرزو کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہاں بڑھاپا بھی شاندار اور قابلِ رشک ہوتا ہے۔ ایسے میں چند لمحات بھی مکمل زندگی جیسے لگتے ہیں۔ جب آسودگی ہو، بنیادی سہولتیں فراوانی سے میسر ہوں، شاندار طرزِ رہائش ممکن بنائی جاچکی ہو، صحتِ عامہ کا معیار قابلِ رشک ہو تب انسان بالکل عمومی سطح پر بھی خاصا خصوصی ہوتا ہے۔ دوسری طرف پسماندہ معاشروں میں طولِ عمر کی خواہش عجیب لگتی ہے۔ بڑھاپا تو خیر ہوتا ہی پریشان کن ہے، پسماندہ معاشروں میں ادھیڑ عمر بھی سُکون بخش نہیں ہوتی۔ ہم اپنے معاشرے ہی دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بڑھاپے کے ساتھ ساتھ ادھیڑ عمر بھی سوہانِ روح ہوتی ہے۔ ایسے میں طُولِ عمر؟ کسی نے خوب کہا ہے ؎
اب اور طُولِ عمر کی مجھ کو دعا نہ دو
جرمِ وفا کی ایسی کڑی تو سزا نہ دو
بات یہ ہے کہ جب حالات پریشان کن ہوں تو انسان موت کی تمنا کیے بغیر محض اس بات پر راضی رہتا ہے کہ جتنی لکھی ہے بس اُتنی ہی گزر جائے تو اچھا۔ ایسے میں طُولِ عمر کی تمنا کوئی کیوں کرے؟ ایسے میں کوئی طُولِ عمر کی دعا کرے تو دل میں یہی خیال ابھرتا ہے کہ ؎
ہاں وہی لوگ ہیں دراصل ہمارے دشمن
جو ہمیں عمر درازی کی دعا دیتے ہیں
دنیا بھر میں ماہرین طُولِ عمر یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ جاپان اور چین میں سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنے کی بدولت اوسط عمر بڑھتی جارہی ہے اور وہاں 80 یا 100 سال سے زائد جینے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یورپ میں بھی اوسط عمر معقول ہے اور لوگ بڑھاپے سے بھی بہت حد تک محظوظ ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بڑھاپا اچھا گزر سکتا ہے، پس ماندہ ممالک کا معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ یہاں تو اوسط عمر پوری کر پانا بھی آگ کا دریا پار کرنے جیسا ہے۔ جہاں بنیادی سہولتیں ڈھنگ سے میسر نہ ہوں وہاں کوئی بڑی عمر پاکر کیا کرے گا؟ زندگی اگر بامقصد ہو تو کچھ ہے ورنہ نہیں۔ ایسی زندگی کس کام کی جس میں انسان سہولتوں اور آسانیوں کے لیے ترستا ہی رہے؟ پاکستان جیسے معاشروں میں کوئی اوسط عمر بھی پوری کر پائے تو خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ آزمائش ختم ہوئی۔ افلاس زدہ اور بنیادی سہولتوں کی شدید قلّت سے اَٹے ہوئے معاشرے میں اگر کسی کو طویل عمر نصیب ہو تو نعمت زحمت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ طُولِ عمر یقینی بنانے سے زیادہ ہمیں اِس بات کی تگ و دَو کرنی چاہیے کہ جو اوسط عمر میسر ہے وہ معقول طریقے سے بسر ہو، جو کچھ ہم اپنے اور دوسروں کے لیے کرسکتے ہیں ضرور کریں۔ اگر اِتنا ہوسکے تو 55 یا 60 سال کی عمر بھی کافی ہے اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو پھر 100 سال تک بھی جینے کا کیا فائدہ؟