"MIK" (space) message & send to 7575

بچوں کا بھی تو کچھ سوچئے

بچے دنیا کی رونق ہیں۔ اُن کے دم سے زندگی کے میلے کی رنگا رنگی ہے، روشنی ہے۔ بچے مستقبل کے معمار ہیں۔ اُن کی بہتر پرورش اور عمدہ تعلیم و تربیت ہی کی بدولت معاشرے پروان چڑھتے ہیں۔ یہ سب کچھ اگر درست ہے تو پھر نظر انداز کیوں کردیا جاتا ہے؟ بچوں کی بہبود سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ عمومی سطح پر جو مسائل درپیش ہیں اُن سے ہٹ کر بھی بہت سی الجھنیں ہیں جو بچوں کے معاملات کو بگاڑ رہی ہیں۔ معمول کے حالات میں بچوں کو درپیش مسائل مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اچانک ابھرنے والی کسی بھی صورتحال میں بچوں کیلئے غیر معمولی الجھنیں ہوتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بچوں کے مسائل حل کرنے کے بارے میں سوچنے والے خال خال ہیں۔
دنیا بھر میں خانہ جنگیاں بھی ہو رہی ہیں اور دہشت گردی کا بازار بھی گرم ہے۔ اِن کے علاوہ افلاس اور بیروزگاری بھی بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے معاملات کو الجھانے میں مصروف ہیں۔ بچوں کی بہبود کے بارے میں دنیا بھر میں دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں؛ تاہم اُن کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے خاطر خواہ اقدامات کرنے والی ریاستوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے اِس معاملے میں بہت حد تک درست راہ پر گامزن ہیں مگر ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں بچوں کے لیے زیادہ نہیں سوچا جاتا۔ ایک مسئلہ تو وسائل کی کمی کا ہے اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کے لیے سوچنے کا کلچر ہی اب تک پروان نہیں چڑھا۔ سیاسی عدم استحکام، معیشت کی خرابی اور معاشرتی پیچیدگیاں مل کر ایسا ماحول تشکیل دیتی ہیں جس میں بڑوں کے لیے بھی الجھنیں کم نہیں ہوتیں تو پھر بچوں کے بارے میں سوچنے کی زحمت کون کرے۔ یونیسیف نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں بچوں کو مختلف النوع مسائل کا سامنا ہے؛ تاہم اِس وقت موسمی تبدیلیوں کی زد میں آنے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں موسمی تغیرات کے ہاتھوں نقلِ مکانی کا عذاب سہنے والے بچے کروڑوں میں ہیں اور اِس بات کے آثار نہیں کہ اُن کی مشکلات آسانی سے یا مستقبلِ قریب میں دور ہوسکیں گی۔ دنیا بھر میں بچوں کے مفادات کو نظر انداز کرنے کا چلن عام ہے۔ پسماندہ ممالک کا حال تو بہت ہی برا ہے۔ اِن ممالک کی حکومتیں بچوں کی بہبود کے حوالے سے سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتیں۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا حال زیادہ برا ہے۔ غذا اور غذائیت کی کمی کے باعث بچوں کی پرورش میں رہ جانے والی خامیاں اور کمزوریاں دور کرنے پر توجہ دینے کو بھی کم ہی لوگ تیار ہیں۔ ایسے میں اُنہیں پروفیشنل سطح پر مستقبل کے لیے تیار کرنے کے بارے میں کیسے سوچا جاسکتا ہے؟ یونیسیف نے اپنی جامع رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں موسلادھار بارشوں، سیلاب، سمندری طوفان اور جنگلات میں لگنے والی آگ سے بے گھر ہونے والے افراد کا ذکر تو کیا جاتا ہے مگر اُن سے وابستہ بچوں کی بات کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والوں کے بچوں کو بھی تو بہت سے معاملات میں شدید بے یقینی اور محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگلے تین عشروں میں موسمی تغیرات کے ہاتھوں آنے والی بحرانی کیفیت کے نتیجے میں نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے بچوں کی تعداد 11 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ موسموں کا ڈھانچا تبدیل ہونے یا یوں کہیے کہ بگڑنے سے دنیا بھر میں کہیں بارشیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں تو کہیں خشک سالی کا راج ہے۔ کہیں سیلاب سے لاکھوں افراد اچانک گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کہیں سمندری طوفان قیامت ڈھاتا ہے۔ دنیا بھر میں سمندر کی سطح بلند ہونے سے زمین کا کٹاؤ بڑھ گیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں زیرِ کاشت یا قابلِ کاشت رقبے میں پریشان کن حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ افریقی ممالک میں بچوں کا حال زیادہ برا ہے کیونکہ کہیں خشک سالی ہے اور کہیں خانہ جنگی۔ معاشی مشکلات بچوں کیلئے کچھ زیادہ کرنے کی گنجائش نہیں چھوڑتیں۔ وسائل کی شدید قلت پسماندہ ممالک کی حکومتوں کو خواتین اور بچوں کیلئے کچھ زیادہ کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ رہی سہی کسر کرپشن پوری کردیتی ہے۔ ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ خانہ جنگی اور دہشت گردی وغیرہ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کے بارے میں تو سوچا جارہا ہے مگر موسمی تغیرات کے ہاتھوں نقلِ مکانی سے دوچار ہونے والوں کے بارے میں سوچنے پر کم ہی لوگ مائل ہیں۔ اس حوالے سے درجہ بندی اب تک نہیں کی گئی۔ 2016ء سے 2021ء کے دوران شدید موسمی تغیرات کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 13 کروڑ 40 لاکھ افراد میں 4 کروڑ 30 لاکھ بچے تھے مگر وہ کسی گنتی میں نہیں‘ گویا اُن کا وجود ہی نہ ہو۔
ایسا نہیں ہے کہ شدید موسمی تغیرات کے ہاتھوں صرف پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک ہی کے بچوں کو مشکلات کا سامنا ہو۔ امریکہ، کینیڈا، چین اور بھارت میں بھی معاملات خراب ہیں۔ سیلاب نے چین اور بھارت میں کروڑوں بچوں کو در بدر کیا ہے جبکہ امریکہ اور کینیڈا کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے بے گھری کا سامنا کرنے والے بچوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ موسمی تغیرات کے ہاتھوں نقلِ مکانی کا عذاب جھیلنے والوں کے لیے کام کرنے والے ادارے بالعموم بڑوں اور بچوں میں فرق نہیں کرتے۔ اس حوالے سے یونیسیف کے لیے کام کرنے والی جنیوا میں قائم غیر سرکاری فلاحی تنظیم انٹرنیشنل ڈِزپلیسمنٹ مانیٹرنگ سنٹر نے بتایا ہے کہ موسمی تغیرات کے ہاتھوں نقلِ مکانی اور بنیادی وسائل سے محرومی کا سامنا کرنے والے بچوں کی نصف تعداد بھارت، چین اور فلپائن میں ہے۔ ویسے افریقہ کے بیشتر علاقوں کے بچے ایک طرف موسمی تغیرات کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور دوسری طرف اُنہیں سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں جاری خانہ جنگیاں بھی جھیلنی پڑ رہی ہیں۔ غیر قانونی نقل و حرکت اور تارکینِ وطن سے متعلق امور کی ویتنامی ماہر میمی وُو کہتی ہیں ''بچے اپنے مفادات کیلئے خود آواز بلند نہیں کرسکتے۔ بڑے نظر انداز کریں تو اُن کے لیے مشکلات اور بڑھ جاتی ہیں۔ افریقہ کے بیشتر معاشروں میں یہی ہو رہا ہے۔ کہیں بچوں کو ہتھیار تھماکر خانہ جنگی کا ایندھن بنادیا جاتا ہے تو کہیں اُنہیں بڑوں کے ہاتھوں جبری مشقت یا پھر جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یونیسیف اور دیگر ادارے بچوں میں غذا و غذائیت کی کمی اور تعلیم و صحتِ عامہ وغیرہ کے حوالے سے تو کسی حد تک فعال ہیں؛ تاہم اُن سے لی جانے والی جبری مشقت، جنسی استحصال یا خانہ جنگی کی بھٹی میں اُنہیں جھونکے جانے کے خلاف کچھ کرتے دکھائی نہیں دیتے‘‘۔
مستقبلِ قریب میں موسمی تغیرات کے ہاتھوں جن ریاستوں کے بچوں کو بڑے پیمانے پر نقلِ مکانی کا سامنا ہوسکتا ہے اُن میں افریقہ، بھارت اور بنگلہ دیش کے علاوہ ویتنام بھی شامل ہے۔ یونیسیف میں تارکینِ وطن سے متعلق اُمور کی ماہر لارا ہیلی کہتی ہیں کہ مستقبلِ قریب میں کروڑوں بچوں کو نقلِ مکانی کا سامنا کرنا پڑے گا مگر اِس حوالے سے سوچا ہی نہیں جارہا۔ لازم ہے کہ پالیسیاں مرتب کرتے وقت اور منصوبہ سازی میں بچوں کی بہبود کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ لارا ہیلی مزید کہتی ہیں کہ مطلوب ٹیکنالوجی اور آلات بھی ہیں، معلومات بھی معقول حد تک میسر ہیں؛ تاہم وہ سب کچھ نہیں کیا جارہا جو کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ موسمی تغیرات اور دیگر ہنگامی حالات کے ہاتھوں مصائب کا سامنا کرنے والے بچوں کا معاملہ تو سنگین ہے ہی، عام حالات میں نظر انداز کردیے جانے والے بچے بھی کم مظلوم نہیں۔ عمومی سطح پر والدین بچوں کی بہبود سے متعلق جامع اور مربوط سوچ نہیں رکھتے۔ بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر توجہ ضرور دینی ہے مگر معقولیت کے ساتھ۔ وسائل کو آنکھیں بند کرکے خرچ کردینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں سوچ بھی اہم ہے اور اِخلاص بھی درکار ہے۔ بچوں کو آج کی الجھنوں سے بچاکر مستقبل کیلئے تیار کرنے کی خاطر سوچ کا بدلا جانا لازم ہے۔ اِس معاملے میں نیت کے اِخلاص کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ بچوں کو بوجھ سمجھنے کے بجائے خندہ پیشانی سے قبول کرنے ہی کی صورت میں اُن کیلئے کچھ بہتر کیا جاسکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں