"MIK" (space) message & send to 7575

کچرے سے صرف تعفن اٹھتا ہے

فی زمانہ انسان پر کس کس چیز‘ کس کس بات کا راج ہے کچھ پتا نہیں چلتا۔ غلام ربّانی تاباںؔ نے خوب کہا ہے ؎
دورِ کم عیاری ہے کچھ پتا نہیں چلتا
کون میرا قاتل ہے‘ کون چارہ گر میرا
آج کے انسان کو ہر چیز سے خطرہ ہے۔ حد یہ ہے کہ اپنے وجود سے لاحق خطرات بھی کم نہیں! عبیداللہ علیمؔ نے کہا تھا ؎
محبتوں میں عجب ہے دِلوں کو دھڑکا سا
نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
انسان کا بھی یہی مسئلہ اور مخمصہ ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس پر بھروسا کیا جائے، کسے اپنایا جائے، کسے نظر انداز کیا جائے، کس نظریے کا دامن تھاما جائے، کس تصور کو ذہن سے کھرچ کر پھینک دیا جائے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کو نظر انداز کیا جاتا رہتا ہے مگر آخر میں وہی کام کا نکلتا ہے اور یوں بھی ہوتا ہے کہ جس سے ایک عمر کی وابستگی رہی ہو وہ پلک جھپکتے میں دامن چھڑا لیتا ہے اور سبب بھی نہیں بتاتا۔
انسان کے مزاج کا معاملہ ہمیشہ عجیب رہا ہے۔ نفسی ساخت میں بہت کچھ شامل ہوتا رہتا ہے اور اپنے اثرات مرتب کیے بغیر نہیں رہتا۔ ہم تعلقات اور ماحول‘ دونوں سے بہت کچھ لاشعور یا تحت الشعور کی سطح پر اخذ کرتے رہتے ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے خیالات اور نظریات پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ اگر ذہن کی تہذیب و تطہیر پر توجہ نہ دی جائے تو اِس میں کچرا بھرتا چلا جاتا ہے۔ ذہن کا کام ہے سوچنا۔ یہ نیند کی حالت میں بھی اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ ہم دن بھر جو کچھ دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں وہ نیند کی حالت میں تہذیب و تطہیر کے مرحلے سے گزرتا ہے۔ یہ فطری یا قدرتی عمل ہے۔ تہذیب و تطہیر ہم شعوری سطح پر بھی کرتے ہیں۔ اُس میں اور قدرتی تہذیب و تطہیر میں بہت فرق ہے۔ جب ہم ذہن سے کچھ کھرچنے کا فیصلہ کرتے ہیں تب واقعی ذہن کی صفائی اُس درجے میں ہوتی ہے جو ہمیں مطلوب ہو۔ ماحول کی روش کچھ ایسی ہے کہ ذہن میں منفی تصورات، خیالات اور احساس کا ابھرنا لازم ہے۔ ہر دور کا ماحول مجموعی طور پر ایسا ہی رہا ہے یعنی کسی بھی انسان کو ماحول کے منفی اثرات سے بچتے ہوئے زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔ اس معاملے میں کوتاہی کے مرتکب ہونے والوں کو بالعموم عبرتناک خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اور آج کا ماحول؟ کچھ پتا نہیں چلتا کہ یہ میٹھا زیادہ ہے یا کھٹا۔ ہم ایک ایسے عہد کے نصیب میں لکھے گئے ہیں جس نے گزرے ہوئے تمام ادوار سے بہت کچھ یا سب کچھ پاکر اپنے آپ کو اِس انداز سے ترتیب دیا ہے کہ جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو واقعی ہوتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا۔
ماحول کے دباؤ کے تحت ذہن میں جو منفی خیالات ابھرتے ہیں وہ انسان کو بند گلی کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں۔ یہ بالکل فطری امر ہے اور اِس کے مقابل کھڑا ہونا بھی فطری عمل ہے۔ کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ عقلِ سلیم کو پروان نہ چڑھائے اور ماحول کے شدید منفی اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی سعی نہ کرے۔ ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ تعلقات اور ماحول میں جو کچھ منفی ہے اُس سے بچے اور اپنے آپ کو تعمیری سوچ کے دائرے تک محدود رکھنے پر متوجہ ہو۔ منفی سوچ انسان کو محدود کرنے پر تُلی رہتی ہے۔ ہر انسان میں غیر معمولی امکانات کے لیے تیار ہونے کی سکت ہوتی ہے۔ قابلیت کا دائرہ وسیع کرتے رہنے سے انسان ایسا بہت کچھ کرسکتا ہے جس کے بارے میں پہلے اُس نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔ بہت سوں کو اپنی صلاحیت و سکت کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہوتا کیونکہ اُنہوں نے اِس طرف متوجہ ہونے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی ہوتی۔ جب کوئی بھی انسان اپنے بارے میں سنجیدہ ہوتا ہے تب اُسے اندازہ ہو پاتا ہے کہ وہ خود کو امکانات کی دنیا میں کہاں تک لے جاسکتا ہے۔
مثبت سوچ کا حامل ہونا آسان نہیں کیونکہ قدم قدم پر حوصلہ شکن معاملات پائے جاتے ہیں۔ ماحول کی مجموعی روش ذہن کو منفی سوچ کی طرف دھکیلتی رہتی ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے اپنے آپ کو منفی سوچ سے بچانا آسان نہیں ہوتا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ منفی سوچ رکھنے کے لیے کچھ کرنا نہیں پڑتا۔ یہ خود بخود ابھرتی ہے اور اپنے آپ ہی پروان بھی چڑھتی ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہے جو سوچ کو منفی بنانے پر تُلا رہتا ہے۔ دوسری طرف مثبت سوچ پیدا نہیں ہوتی بلکہ پیدا کرنا پڑتی ہے۔ اور اِسے پروان چڑھانا تو اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ ذہن کو مثبت سوچ کی طرف مائل کرنے والی باتیں ماحول میں کم ہوتی ہیں۔ لوگ منفی باتوں کی طرف تیزی سے متوجہ ہوتے ہیں۔ منفی خبریں بھی تیزی سے گردش کرتی ہیں۔ مثبت سوچ کو گلے لگانے والے کم ہوتے ہیں کیونکہ اِس کے لیے تھوڑی بہت قربانی دینا پڑتی ہے۔ مثبت سوچ انسان سے نیت کا اخلاص اور ایثار مانگتی ہے۔ اِس راہ پر گامزن ہونا اور چلتے رہنا ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ منفی سوچ کے دائرے سے نکلنا ہر انسان کے لیے لازم ہے مگر ایک کام اِس سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے منفی سوچ رکھنے والوں سے بچ کر رہنا۔ ماحول ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جو ہر معاملے میں منفی سوچ کو آگے رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی منفی انداز سے سوچنے پر اُکساتے رہتے ہیں۔ منفی سوچ چونکہ خود بخود اور تیزی سے پروان چڑھتی ہے اِس لیے ماحول میں منفی سوچ رکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایسے لوگ خود بھی کچھ نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی تعمیری انداز سے کچھ کرنے نہیں دیتے۔ یہ لوگ کسی کو براہِ راست تو نہیں روک سکتے اس لیے بہت سوچ سمجھ کر ایسی حکمتِ عملی تیار کرتے ہیں جس کے بارے میں کسی کو کچھ شبہ بھی نہ ہو اور بات بھی بن جائے۔ یہ لوگ عمومی گفتگو میں بھی امکان سے زیادہ ناممکنات کی بات کرتے ہیں۔ کسی سے تعلقات بہتر بنانے کے بجائے قطعِ تعلق پر زور دیتے ہیں۔ منفی سوچ رکھنے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ جب بھی کسی معاملے پر متوجہ ہوتے ہیں تو سب سے پہلے بدگمانی اور تشویش کی بات کرتے ہیں۔ منفی سوچ کے حامل افراد چونکہ کسی پر زیادہ بھروسا نہیں کرتے اس لیے اُن سے یہ توقع وابستہ کی ہی نہیں جاسکتی کہ وہ دوسروں پر اعتبار کرنے کی تحریک دیں گے۔ ایسے لوگ ہر معاملے میں شکوک و شبہات کو دیگر تمام امور پر فوقیت دیتے رہتے ہیں۔ اِنہیں بدگمانیوں کے دائرے میں گھومتے رہنا مرغوب ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ منفی سوچ رکھنے والوں کو شناخت کیسے کیا جائے اور اُن سے بچنے کی بہترین تدبیر یا تدابیر کیا ہوسکتی ہیں۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ منفی سوچ انسان کو امکانات سے دور لے جاتی ہے اس لیے منفی سوچ رکھنے والے کسی بھی معاملے میں امید کا دامن تھامنے کے بجائے محض خدشات ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ اِن کی گفتگو خاصی حوصلہ شکن ہوتی ہے۔ حقیقت پسندی کو یہ لوگ اپنائیں گے کیا، اُس کے قریب سے گزرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اگر کوئی اِن کے سامنے مثبت طرزِ فکر اپنانے کی بات کرے تو یہ عجیب و غریب دلائل پیش کرکے اُسے مایوسی کے گڑھے میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
منفی سوچ کچرے کی طرح ہوتی ہے۔ کچرے سے صرف تعفن اٹھ سکتا ہے اور تعفن ہی اٹھتا ہے۔ منفی سوچ رکھنے والوں کا یہی معاملہ ہے۔ اُن کی باتوں سے مایوسی اور حوصلہ شکنی کا تعفن اٹھتا ہے۔ یہ تعفن محسوس ہوئے بغیر رہتا نہیں۔ منفی سوچ کے حامل کسی بھی فرد کے ساتھ کچھ دیر رہیے تو آپ محسوس کرنے لگیں گے کہ آپ میں زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کی لگن کمزور پڑ رہی ہے۔ اِن لوگوں کی باتوں میں زندگی نہیں ہوتی۔ یہ شعور اور احساس سے مزین زندگی بسر کرنے کو ترجیح نہیں دیتے اور دوسروں کو بھی اِسی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زندگی کسی بھی درجے میں اس قابل نہیں کہ منفی اور حوصلہ شکن سوچ کے گڑھے میں دھکیلی جائے۔ اِسے پورے ہوش و حواس کے ساتھ اپنائیے، امکانات کے بارے میں سوچیے اور اپنے وجود کو بروئے کار لانے پر توجہ دیجیے۔ منفی سوچ اور منفی سوچ رکھنے والوں سے بچ کر رہیے۔ اِسی میں آپ کی اور آپ کی امکانات بھری زندگی کی خیر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں