یوکرین جنگ طول پکڑتی جارہی ہے۔ روس کے لیے بھی مشکلات کم نہیں؛ تاہم زیادہ مشکلات یوکرین کے لیے ہیں کیونکہ اُس کی حمایت میں کھڑے ہونے والے اب بیٹھتے جارہے ہیں۔ یورپ یہ بات سمجھ چکا ہے کہ یوکرین جنگ میں زیادہ دیر تک دلچسپی نہیں لی جاسکتی۔ امریکہ اِس معاملے میں تنہا رہ گیا ہے۔ یوکرین کو غیر معمولی فوجی امداد کی ضرورت ہے مگر یورپ نے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ امریکہ اب تک ڈٹا ہوا ہے اور کسی نہ کسی طور روس کو یوکرین میں انگیج رکھنا چاہتا ہے تاکہ مطلوب مقاصد آسانی سے حاصل ہوسکیں۔ یوکرین کی الجھن یہ ہے کہ اُسے محض فوجی امداد ہی درکار نہیں بلکہ شہریوں کے لیے خوراک اور بنیادی سہولتوں کے لیے بھی امداد چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ تعمیرِ نو کے لیے بھی فنڈنگ ناگزیر ہے۔ یوکرین کی مشکلات میں زیادہ اضافہ اس بات سے ہوا ہے کہ یورپ میں عوام سوال اٹھا رہے ہیں کہ دوسروں کی جنگ میں ہمیں کودنے کی کیا ضرورت ہے۔ یوکرین کے لیے ہر طرح کی امداد کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کی تعداد یورپ میں بڑھتی جارہی ہے۔ امریکہ نے یورپی حکومتوں کو سمجھانے اور منانے کی کوشش کی ہے؛ تاہم معاملات اب تک درست نہیں ہو پائے ہیں اور اِس بات کے آثار بھی نہیں کہ مستقبل قریب میں ایسا ہوسکے گا۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ یوکرین میں جنگ کیونکر جاری رکھی جائے اور روس کو کس طور زیادہ سے زیادہ انگیج رکھا جائے۔ امریکہ نے یہ سوچا ہے کہ یوکرین کو روس کا سامنا کرتے رہنے کے قابل بنائے رکھنے کے لیے روسی اثاثے ہی بروئے کار لائے جائیں۔ یورپ اور امریکہ کے بینکوں میں روس کے 300 ارب ڈالر کے مالیاتی اثاثے محفوظ ہیں۔ تیل اور گیس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقوم میں سے نصف نکال کر روس نے امریکہ و یورپ کے بینکوں میں اس لیے رکھوائی ہے کہ یوکرین پر تھوپی جانے والی جنگ کی پاداش میں نافذ کی جانے والی پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے اُسے غیر معمولی تناسب سے فنڈز درکار ہوں گے۔ یورپ کے کئی ممالک نے یوکرین پر لشکر کشی کی پاداش میں روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ امریکہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ روس پریشان ہوکر یوکرین سے جان چھڑائے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ روس کئی محاذوں پر مشکلات کا سامنا کرکے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں امریکہ کے پاس زیادہ آپشنز نہیں۔ یوکرین کی مدد کے لیے خود امریکہ میں بھی زیادہ جذبہ نہیں پایا جاتا۔ کانگریس میں اس حوالے سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس‘ دونوں ہی چاہتے ہیں کہ اب ٹیکس دہندگان سے وصول کی جانے والی رقوم یوکرین جنگ پر ضائع نہ کی جائیں۔ تو پھر یوکرین کی مدد کیسے کی جائے؟ روس کے اثاثوں پر ہاتھ صاف کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کانگریس کے دو ارکان نے ایک قانون تجویز کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں روس کے محفوظ اور منجمد اثاثوں ہی کی مدد سے روس کے خلاف جنگ جاری رکھی جائے۔ یوکرین کو فوری طور پر پچیس‘ تیس ارب ڈالر درکار ہیں مگر اِتنی بڑی رقم یورپ دینے کو تیار ہے نہ امریکی عوام ایسا کرنے کے حق میں ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کے لیے 20 ارب 60 کروڑ ڈالر کا امدادی پیکیج تجویز کیا تھا جسے سینیٹ نے گھٹاکر 6 ارب ڈالر کردیا؛ تاہم ایوانِ نمائندگان نے یہ بھی منظور نہیں کیا اور جو بائیڈن کا تجویز کردہ پیکیج مکمل طور پر مسترد کردیا۔
کیا یورپ کے محفوظ فنڈز آسانی سے بروئے کار لائے جاسکتے ہیں؟ یوکرین پر روسی لشکر کشی کے بعد سے اب تک یہ فنڈز منجمد ہیں۔ انجماد ختم کرنا آسان نہیں۔ یورپ کی بیشتر حکومتیں روس کے منجمد فنڈز بروئے کار لانے کے خلاف ہیں۔ وہاں روس کے محفوظ و منجمد فنڈز 200 ارب ڈالر کے ہیں۔ امریکہ کے علاوہ آسٹریلیا، کینیڈا اور جاپان میں بھی روس کے فنڈز موجود ہیں۔ یورپ اچھی طرح جانتا ہے کہ روس کے فنڈز کو غیر منجمد کرکے یوکرین کے لیے بروئے کار لانے کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ روس بعض معاملات میں الجھا ہوا ضرور ہے مگر ایسا گیا گزرا نہیں کہ اپنے مفادات پر ضرب لگانے والوں کو آسانی سے بخش دے۔ یورپی قائدین اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اگر روس نے کچھ ایسا ویسا کیا تو معاملات کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے کہ وہ روسی اثاثوں سے چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں امریکہ کا ساتھ دینے سے گریزاں ہیں۔ یورپ میں رائے عامہ یہ ہے کہ یوکرین جنگ کے لیے روسی اثاثوں سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ یورپ نے روسی اثاثوں کو غیر منجمد کرکے یوکرین کے لیے بروئے کار لانے کا راستہ اختیار کیا تو دنیا بھر میں وہ ہزاروں افراد اور ادارے اپنے ارادوں پر نظرِ ثانی کریں گے جو مغربی ممالک بالخصوص یورپ میں مالیاتی اثاثے رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اور جن لوگوں، اداروں یا حکومتوں نے یورپ میں بہت بڑے پیمانے پر مالیاتی اثاثے محفوظ کر رکھے ہیں وہ اگر اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے اور فنڈز نکالنا شروع کردیئے تو؟ ایسی حالت میں یورپ کے مالیاتی نظام کا دھڑن تختہ ہوسکتا ہے۔ مالیاتی امور کے یورپی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ قانونی طور پر روسی اثاثوں کو بروئے کا لانے کا کوئی جواز ہے ہی نہیں۔ اگر اس معاملے میں پیش رفت ممکن بنانی ہے تو پہلے قانونی جواز پیدا کرنا پڑے گا۔
ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ روس کے منجمد اثاثوں کو یوکرین کے لیے بروئے کار لانے کا متنازع معاملہ امریکہ نے اٹھایا ہے جبکہ وہ کسی بھی اعتبار سے اس جنگ کا فریق نہیں۔ بین الاقوامی قانون کے تحت صرف وہی شخص یا ملک کسی بھی ملک کے منجمد اثاثوں کو غیر منجمد کرکے بروئے کار لاسکتا ہے جو کسی تنازع، صورتِ حال یا جنگ وغیرہ سے متاثر ہوا ہو۔ امریکہ اس معاملے میں زیادہ دور تک نہیں جاسکتا۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ کوئی بھی قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے۔ امریکہ اگر یوکرین کی مدد کے لیے روس کے اثاثوں کو غیر منجمد کرکے استعمال کرنے کی راہ پر گامزن ہوگا تو زیادہ دور تک نہ چل سکے گا کیونکہ قانونی اعتبار سے ایسا کرنے کا کوئی ٹھوس جواز موجود نہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ زیادہ سے زیادہ پانچ ارب ڈالر بروئے کار لاسکے گا۔ 300 ارب ڈالر کے مقابلے میں پانچ ارب ڈالر کچھ بھی نہیں مگر اس رقم کے استعمال کیے جانے کی صورت میں بھی امریکہ کو شدید عواقب کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ مشتعل ہوکر روسی قیادت ایسے اقدامات کرسکتی ہے جن سے امریکہ اور یورپ‘ دونوں کے لیے الجھنیں بڑھ جائیں۔ چین اور چند دوسرے ہم خیال ممالک کو ساتھ ملا کر روس ایسے حالات پیدا کرسکتا ہے جن میں امریکہ اور یورپ کیلئے اپنے اپنے مفادات کو زیادہ تحفظ فراہم کرنا ممکن نہ ہو سکے۔ یورپ بھر میں یوکرین جنگ کے حوالے سے رائے عامہ بدل چکی ہے۔ بیشتر یورپی عوام نہیں چاہتے کہ اُن کے دیے ہوئے ٹیکسز سے یوکرین جنگ کو جاری رکھنے کا کام لیا جائے۔ برطانیہ کے علاوہ یورپی یونین میں بھی اندر کی طرف دیکھنے کا رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ بیشتر یورپی قائدین اِس بات کے حق میں ہیں کہ پہلے اپنا گھر درست رکھنے پر توجہ دی جائے اور گنجائش ہو تو دوسروں کے معاملات بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔
دنیا نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ عالمی سطح پر طاقت کا توازن وہ نہیں رہا جو ہوا کرتا تھا اور جس کی بدولت دنیا کو ڈھنگ سے چلانا ممکن ہو پاتا تھا۔ امریکہ کمزور پڑچکا ہے۔ یورپ میں بھی وہ بات نہیں رہی۔ چین اور روس میں اِتنی طاقت بہرحال نہیں کہ تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے سکیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ طاقتور ممالک مل کر کوئی ایسا نیا عالمی نظام ترتیب دیں جس کی مدد سے عالمی سیاست و معیشت کی گاڑی کو ڈھنگ سے چلانا ممکن بنایا جاسکے۔ یورپ نے بین الاقوامی کردار ترک کردیا ہے۔ امریکہ اب بھی بضد ہے کہ جہاں موقع دکھائی دے گا وہاں کچھ نہ کچھ مہم جُوئی کرے گا۔ روس بپھرا ہوا ہے۔ چین معاشی اعتبار سے بہت مضبوط ہے اور اب عسکری اعتبار سے بھی اپنے آپ کو مضبوط تر بناتا جارہا ہے۔ اسلحہ سازی کے حوالے سے روس بھی گیا گزرا نہیں۔ اگر اُس سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو معاملات تیزی سے خرابی کی طرف جاسکتے ہیں۔