"MIK" (space) message & send to 7575

یہ کس کی زیست ہے…

ماحول ہر اس انسان کے لیے صرف اور صرف بے دلی کا مرقع ہے جو ڈھنگ سے جینے کی اہمیت کو سمجھنے سے انکاری ہو۔ ہمیں اپنے ماحول میں ایسے لوگ بکثرت دکھائی دیتے ہیں جو زندگی کو محض بوجھ سمجھ کر اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں اور جہاں بھی موقع ملتا ہے‘ زمین پر دے مارتے ہیں۔ جینے کا یہ ڈھنگ کسی بھی اعتبار سے قابلِ ستائش نہیں اور ظاہر ہے کہ قابلِ قبول بھی نہیں۔ زندگی بہت بڑا معاملہ ہے۔ یہ محض کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمول تک محدود نہیں۔ زندگی کا بنیادی مقصد محض پیٹ بھرنا نہیں بلکہ اپنے آپ کو بلند کرنا اور اُخروی زندگی کے لیے تیار کرنا ہے۔ اُخروی زندگی کا تصور پروان چڑھائے بغیر ہم معقول ترین انداز سے جینے کی طرف مائل نہیں ہو سکتے۔ عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ معمولات کے دائرے میں گھومتا رہتا ہے اور اسی کو زندگی سمجھ کر خوش بھی ہو رہتا ہے۔ معمولات کے دائرے میں گھومتے ہوئے جینا کسی بھی اعتبار سے زندگی بسر کرنے کا معقول ترین طریق نہیں۔ یہ تو محض حیوانی سطح ہے۔ حیوانات اس دنیا میں کوئی تبدیلی یقینی نہیں بناتے۔ اگر کوئی انسان کسی بھی طرح کی تبدیلی کی راہ ہموار نہیں کرتا تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ خالص حیوانی سطح پر جی رہا ہے۔ اس سطح پر جینے والے زندگی کا حق تو کیا ادا کریں گے‘ حق ادا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
عمومی سطح پر زندگی کو یوں لیا جاتا ہے گویا یہ کسی نہ کسی طور سانسوں کی گنتی پوری کرنے کا نام ہو۔ جب زندگی کو بوجھ سمجھ لیا جائے یا واجبات کے زُمرے میں رکھا جائے تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ زندگی کسی بھی اعتبار سے بوجھ ہے نہ واجبات کا جز۔ یہ تو نعمت ہے اور کسی بھی نعمت کو برتنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ انسان اس سے خود بھی مستفید ہو اور دوسروں کو بھی مستفید ہونے کا موقع فراہم کرے۔ ہمیں اللہ نے جو کچھ بھی عطا کیا ہے وہ دنیا کو بہتر بنانے کے لیے بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب زندگی کو مثبت سوچ کے ساتھ قبول کیا جائے اور اس کا حق ادا کرنے کی سوچ پروان چڑھائی جائے۔ عمومی سطح پر ایسا ہوتا نہیں۔ اکثریت کا یہ حال ہے کہ زندگی جیسی نعمت کو گلے میں پڑے ہوئے پھندے سے تعبیر کرتی ہے اور اسی ذہنیت کے ساتھ تمام معاملات سے نپٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایسی ذہنیت جو گُل کھلا سکتی ہے وہی گُل آج ہر طرف کھلے ہوئے ہیں۔
ہم زندگی بھر اپنے بارے میں سوچنے کو ترجیح دینے کے بجائے صرف یہ سوچتے رہتے ہیں کہ فلاں معاملے میں دنیا کیا کہے گی‘ فلاں معاملے میں کس نوعیت کا ردِعمل جھیلنا پڑے گا۔ دنیا کیا کہے گی؟ اس کا تو کام ہی کچھ نہ کچھ کہنا ہے۔ وہ کہتی ہی رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ بنیادی اہمیت ہماری سوچ کی ہے اور افسوس کہ یہی سوچ آسانی سے پروان نہیں چڑھتی۔ ہم اپنی اپنی زندگی کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ہمیں ہر وقت یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔
جب ہم اپنے معاملات کو دوسروں کی پسند و ناپسند پر چھوڑتے ہیں تب زندگی کی آب و تاب جاتی رہتی ہے۔ دوسروں کے بارے میں سوچ سوچ کر زندگی بسر کرنے والے اپنے وجود سے انصاف نہیں کر پاتے۔ اس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ ماحول ہم پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے مگر اسے ایک خاص حد تک رکھا جانا چاہیے۔ ماحول میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کا سب ہمارے لیے نہیں‘ ہمارے کام کا بھی نہیں۔ ہمیں الرٹ رہنا چاہیے کہ ماحول سے وہی کچھ قبول کریں جو ہمارے لیے کام کا ہو۔ جب ہم چوکس اور چوکنے رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں تب اپنے خلاف جانے والی ہر بات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ناگزیر ہے۔ ماحول ہمیں راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ہمیں اپنی طے کردہ راہ پر گامزن رہنا ہے۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ راہ سے ہٹانے کی کوشش کرنے والے ہر معاملے سے نجات پائیں یا اسے اس کی منطقی حدود میں رکھنے کی کوشش کریں۔ یہ کام مرتے دم تک کا ہے۔ اگر کسی بھی مرحلے میں آپ حوصلہ ہار کر بیٹھ گئے تو برسوں کی محنت پر دیکھتے ہی دیکھتے پانی پھر سکتا ہے۔ اور ایسا آپ نے بہت سوں کے معاملات میں دیکھا ہوگا۔ ہو سکتا ہے آپ کے ساتھ بھی یہ سب کچھ ہو چکا ہو۔ اُستادِ محترم رئیسؔ امروہوی نے زندگی کی ایک بڑی اور بدیہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ؎
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ!
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
بات کچھ یوں ہے کہ ہم میں سے بیشتر عمر بھر ماحول سے بہت کچھ یوں قبول کرتے رہتے ہیں کہ احساس بھی نہیں ہو پاتا۔ یہ سب کچھ ہمارے مزاج کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ پھر معاملہ یہ ٹھہرتا ہے کہ ہمارے خیالات بھی ہمارے نہیں ہوتے۔ دوسروں کی پسند و ناپسند ہمارے حواس پر ایسی طاری ہوتی ہے کہ ہم سوچنے کا معاملہ بھی دوسروں کی پسند و ناپسند پر چھوڑ دیتے ہیں۔ جب معاملہ اتنا بگڑ جائے تو کوئی بھی انسان اپنے وجود سے کیونکر انصاف کر سکتا ہے؟ دوسروں کی ناراضی سے بچنے کی کوشش کرتے رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ ہم رفتہ رفتہ دوسروں کے لیے جینا شروع کر دیتے ہیں۔ رئیسؔ امروہوی نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جب انسان اپنے معاملات کو ایک طرف ہٹاکر دوسروں کے بارے میں سوچتا ہے‘ ان کے خیالات کو زیادہ وقیع گردانتا ہے‘ ان کے معاملات سے (بلا ضرورت اور بلا جواز طور پر) بہت کچھ اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی اپنی زندگی ایک طرف رہ جاتی ہے اور دوسروں کے معاملات اس کے فکر و عمل پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں سانسیں تو اپنی ہوتی ہیں مگر ان پر تصرف کسی اور کا ہوتا ہے۔ انسان جب دوسروں کی پسند و ناپسند کو ذہن نشین رکھتے ہوئے سوچتا ہے تو پھر فیصلے بھی ویسے کیے جاتے ہیں۔ جب فیصلوں میں دوسروں کی مرضی کا خیال رکھا جائے تو سمجھ لیجیے بسر ہو چکی زندگی۔
ہر انسان کو اول و آخر اپنے لیے جینا ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کی ناراضی کے خوف میں مبتلا رہے تو ڈھنگ سے جی ہی نہیں سکتا۔ سب سے پہلے اپنی سہولت دیکھنی چاہیے اور ظاہر ہے کہ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اپنی سہولت میں کسی کے لیے زحمت کا پہلو نہ ہو۔ اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے کہ انسان کسی کو زحمت اور پریشانی سے بچانے کے لیے اپنی سہولت میں تھوڑی سی کمی کر لے؟ خیر یہ کام بھی صرف اس حد تک ہونا چاہیے کہ اپنی کارکردگی متاثر نہ ہو۔ توازن اسی کا تو نام ہے کہ انسان اپنے لیے زیادہ سہولت کا اہتمام بھی کرے اور دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث بھی نہ بنے۔
زندگی معمولات سے بلند ہو کر جینے کا نام ہے۔ اللہ نے اس دنیا میں ہمارا قیام محض اس لیے نہیں رکھا کہ ہم سانسوں کی گنتی پوری کرکے یہاں سے رخصت ہو جائیں۔ ہمیں محض جینا نہیں ہے بلکہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کی تگ و دَو میں مصروف رہنا ہے۔ زندگی کو زیادہ بارآور بنانے میں وہی لوگ کامیاب ہو پاتے ہیں جو آخرت کا تصور بھی ذہن میں ہمیشہ تازہ و توانا رکھتے ہیں۔ ہم سے ایک ایک سانس اور ایک ایک پل کا حساب لیا جائے گا۔ جو کچھ اللہ نے ہمیں مال و زر اور دیگر ظاہری اسباب کی شکل میں عطا فرمایا ہے اس کا بھی حساب دینا ہے۔ یہ حساب ہم اسی وقت دے سکتے ہیں جب اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو ممکنہ حد تک بہترین طریق سے بروئے کار لائیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنی ترجیحات اور فطری تقاضوں کے مطابق جئیں۔ دوسروں کی مرضی اور پسند و ناپسند کے تابع رہتے ہوئے جینے کی صورت میں ہم کبھی زندگی کا حق ادا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔
ہر دور کی اپنی سہولتیں اور اپنی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ انسان کو سہولتوں اور پیچیدگیوں کے بیچ سے گزرتے ہوئے جینا ہوتا ہے۔ جینا سب کے لیے آسان ہے مگر ڈھنگ سے جینا کسی کسی کو آتا ہے کیونکہ یہ شعور کا سَودا ہے۔ جینا اُسی وقت کام کا ہوتا ہے جب یہ اپنی ترجیحات اور اپنے فکر و نظر کے مطابق ہو۔ ایسی حالت ہی میں زندگی کا حق کسی حد تک ادا کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں