اِس دنیا سمیت پوری کائنات نہ صرف یہ کہ ہمارے لیے ہے بلکہ مسخر بھی کردی گئی ہے۔ قدرت نے انسان کو وہ سب کچھ عطا فرمایا ہے جو اِس مسخر کائنات سے بطریقِ احسن محظوظ و مستفید ہونے کے لیے ناگزیر سمجھا جاسکتا ہے۔ ذہن سے بڑی دولت کیا ہوسکتی ہے؟ کسی بھی دوسرے جاندار کو سوچنے، سمجھنے اور ماحول کو بدلنے کی صفت عطا نہیں کی گئی۔ تمام جاندار ایک خاص نظام یا منصوبے کے تحت دنیا کا حصہ بنائے جاتے ہیں، اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اور مدتِ قیام پوری ہونے پر یہاں سے چل دیتے ہیں یا چلتے کردیے جاتے ہیں۔ اُن سے حساب کتاب نہیں ہونا۔ صرف انسان سے حساب لیا جانا ہے کیونکہ اُسے شعور عطا فرمایا گیا ہے۔ انسان کو ذہن کی شکل میں ایسا میکانزم بخشا گیا ہے جو اِس دنیا کے حسن میں اضافے کا ذریعہ بن سکتا ہے اور بنتا بھی ہے مگر اِس کے لیے لازم ہے کہ انسان کو ذہن سے کام لینے کا شوق ہو۔ یہ شوق مشکل سے پروان چڑھتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ دنیا کی رنگینیوں میں گم ہوکر اپنے حصے کے کام بھول جاتے ہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں زندگی کا تصور صرف یہ ہے کہ اِس دنیا میں پائی جانے والی زیادہ سے زیادہ آسائشوں کا حصول یقینی بنایا جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ مرتے دم تک قدم قدم پر صرف لُطف محسوس ہو۔ اِس لُطف کو یقینی بنانے کے لیے جن جاں گُسل مراحل سے گزرنا ہوتا ہے اُنہیں وہ حذف کرنا چاہتا ہے اور کرتا بھی ہے۔ لوگ شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ شارٹ کٹ تلاش کرنا بُری بات نہیں مگر ہر معاملے میں شارٹ کٹ ممکن نہیں۔ اگر کسی معاملے میں بھرپور محنت کرنا ناگزیر ہو تو محنت و مشقّت کے مرحلے سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ انسان کا مزاج کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ وہ سارے مزے لُوٹنا چاہتا ہے؛ تاہم معمولی درجے کی محنت بھی اُس سے بخوشی نہیں ہوتی۔ خواہشیں ہزار ہیں مگر اُنہیں عملی شکل دینے کے لیے جو کچھ کرنا ہے وہ سب کچھ کرنے کا جی بالکل نہیں چاہتا۔
ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں آسانیاں اور مشکلات قدم قدم پر ساتھ چلتی ہیں۔ جتنی رنگینیاں ہیں اُتنی ہی تاریکیاں بھی ہیں۔ سب کچھ ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔ رنگینیوں میں گم رہنے سے ہم تاریکی کو ٹال نہیں سکتے۔ آسانیوں کی تلاش میں سرگرداں رہنے سے مشکلات دور نہیں ہو جاتیں۔ ہمیں بخشی جانے والی زندگی انگور کے دانے کی طرح ہے۔ یہ بھی تھوڑی کھٹّی اور تھوڑی میٹھی ہے۔ ہمیں کھٹاس اور مٹھاس دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ زندگی کو متوازن رکھنے کا منصب ذہن کو عطا کیا گیا ہے مگر ذہن اس منصب کے تقاضے صرف اُس وقت نبھا سکتا ہے جب اُس سے بطریقِ احسن کام لیا جائے۔ یہ دنیا بہت کام کی ہے مگر ہمارے لیے یہ اُسی وقت کام کی ثابت ہوسکتی ہے جب ہم اِسے سمجھنے میں کامیاب ہوں اور اِس سے مستفید ہونے کے بارے میں بھی کچھ سوچیں۔ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ دنیا کو تماشے کا مقام اور زندگی کو محض تماشا گردانتے ہیں۔ کسی بھی شے کی حقیقت کو جانے بغیر اُس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ جب تک دنیا میں ہے تب نچلا نہ بیٹھا رہے بلکہ زندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ زندگی کا حق ادا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہاں‘ اِس حوالے سے نیت کے اخلاص کے ساتھ تھوڑی بہت کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔
کیا انسان زندگی کا حق ادا کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہے؟ کیا وہ زندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے؟ عمومی سطح پر تو ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ لوگ دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ زندگی آسان سے آسان تر ہوتی جائے مگر اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو کچھ کیا جانا چاہیے وہ سب کچھ کرنے کا من کسی کسی کا ہے۔ لوگ کچھ کیے بغیر ہی سب کچھ حاصل کرلینا چاہتے ہیں۔ یہ دنیا اِس طور نہ پہلے چلی سکی ہے نہ آئندہ چلے گی۔ ہر دور میں یہ دنیا صرف اُن کی بدولت بدلی ہے جنہوں نے کچھ کرنے کی ٹھانی اور پھر اپنے ارادوں اور عزائم کے مطابق محنت بھی کی۔ محض تماشائی بنے رہنے والوں کو کسی بھی بات کا کریڈٹ نہیں دیا جا سکتا۔ وہ تبدیلیوں کے واقع ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اُنہیں سوچنے، سمجھنے اور کچھ کرنے سے غرض نہیں ہوتی۔ اُن کا مشغلہ تو صرف اِتنا ہے کہ جب ہانڈی پک جائے تو کھانے بیٹھ جائیں۔ ذرا سوچئے کہ اگر ہر عہد کے تمام انسانوں کی سوچ یہی رہی ہوتی تو یہ دنیا آج کہاں ہوتی۔ آج ہمیں اپنے اطراف شاندار مادّی ترقی کے مظاہر دکھائی دے رہے ہیں وہ ہزاروں سال کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ ہر عہد کا انسان محنت کرتا آیا ہے اور جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے وہ منتقل ہوتے ہوتے ہم تک پہنچا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہم زندگی کا حق ادا کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں؟ کیا ہماری دل میں یہ خواہش انگڑائیاں لیتی ہے کہ دنیا کی رنگینیوں میں اضافہ یقینی بنایا جائے، کچھ ایسا کیا جائے جواِس دنیا کا حسن اور افادیت دونوں بڑھائے؟ اگر نہیں یہ بے حد تشویش ناک بات ہے۔ ہمیں محض تماشائی بننے کے لیے اِس دنیا میں نہیں بھیجا گیا۔ ہمیں اِس دنیا سے مستفید بھی ہونا ہے اور اِسے مستفید بھی کرنا ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم یہ بات سمجھیں کہ ہمارے خالق نے ہماری تخلیق کا کوئی مقصد ضرور رکھا ہے۔ اِس دنیا سے شدید نا انصافی اور اپنے وجود سے غداری کی ایک واضح شکل یہ ہے کہ انسان یہاں سے سرسری گزرے، کسی معاملے پر توجہ نہ دے، کسی بات کو سمجھنے کی کوشش نہ کرے اور مرتے دم تک صرف یہ سوچتا رہے کہ جب دوسرے اِتنا کچھ کر ہی رہے ہیں تو پھر مجھے کچھ بھی کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ میر تقی میرؔ نے کہا تھا ؎
سرسری تم جہاں سے گزرے ... ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
غور کیجیے تو ایسا ہی ہے۔ انسانوں کی غالب اکثریت اِس دنیا سے سرسری تو گزرتی ہے۔ یہ دنیا ٹھہر ٹھہر کر دیکھنے کی جگہ ہے۔ یہاں ہر معاملہ ہماری توجہ چاہتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ سنجیدگی انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ جو لوگ سنجیدہ ہوتے ہیں وہی اِس دنیا کو سمجھ پاتے ہیں اور اِس کے لیے کچھ کر پاتے ہیں۔ دنیا کے بارے میں بیسیوں تصورات پائے جاتے ہیں۔ بیشتر تصورات اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ دنیا سے دل نہ لگایا جائے، یہاں کے قیام کو عارضی سمجھا جائے اور صرف آخرت کی فکر کی جائے۔ بالکل درست! مگر آخرت میں جو کھیتی کاٹی جانی ہے اُس کی بُوائی یہیں ہونی ہے۔ اِس دنیا کی رنگینیوں میں گم ہوکر نہیں رہ جانا؛ تاہم یہاں اپنے قیام کو بے دِلی سے عبارت بھی نہیں کرنا۔ زندگی بھرپور ہوش و حواس اور دلچسپی کے ساتھ بسر کی جانی چاہیے۔ جینے سے جی اُچاٹ ہو جائے تو آخرت کے لیے کچھ بھی کرنے کا من کیسے ہوگا؟ جینے میں بھرپور دلچسپی بھی لینی ہے اور تعلقات بھی بہتر رکھنے ہیں۔ زندگی مل جل کر گزرتی ہے۔ اشتراکِ عمل کے ذریعے ہی انفرادی کارکردگی کا گراف بلند کیا جاسکتا ہے۔
اِس دنیا سے سرسری گزرنے کی ذہنیت کو ترک کیے بغیر ہم زندگی کا حق ادا کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہو ہی نہیں سکتے۔ قدرت نے ہر ذرّے میں ایک جہان آباد کیا ہے۔ دنیا کو سمجھنا ہے، اِس کی حقیقت پر غور کرنا ہے، اِس کی سکت سے مستفید ہونا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو ڈھنگ سے بروئے کار لاتے ہوئے اِس دنیا کا معیار بلند کرنا ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اِس دنیا کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، یہاں کے بنیادی مظاہرِ قدرت کی حقیقت کے بارے میں غور کیا جائے، اِس کی رنگینیوں سے کماحقہٗ مستفید ہوتے ہوئے اپنی زندگی کے خاکے میں رنگ بھرے جائیں۔ یہ سب کچھ سنجیدہ ہوئے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جس طور ہم کسی معقول تقریب میں عمومی سے کپڑے پہن کر نہیں جاتے بالکل اُسی طرح اِس دنیا میں اپنے قیام کو بارآور بنانے کے لیے ہمیں سرسری طرزِ فکر ترک کرکے ٹھوس اندازِ فکر و نظر اپنانا پڑے گا۔ فکر و نظر کی پختگی ہی ہمیں اِس دنیا میں بسی ہوئی دنیائیں دیکھنے کے قابل بناسکتی ہے۔