جو کچھ بھی ہمیں دکھائی دے رہا ہے یا ہماری زندگی کا حصہ ہے وہ سب سوچ کا نتیجہ ہے۔ جو کچھ بھی اس دنیا میں پایا جاتا ہے وہ کبھی ذہنوں میں تھا‘ سوچ کا حصہ تھا۔ جو کچھ ذہن کے پردے پر اُبھرتا ہے وہ عمل کے ذریعے سامنے آتا ہے اور دنیا دیکھتی ہے۔ یہ ہر معاشرے کا معاملہ ہے۔ قابلِ رشک ترقی کے حامل معاشرے بھی سوچ کے ذریعے ہی ایسے بن پائے ہیں اور انتہائی پس ماندہ معاشرے بھی پیچھے اس لیے رہ گئے ہیں کہ وہ سوچ کے معاملے میں عمومی رائے بدلنے اور لوگوں کو سوچنے کی تحریک دینے میں ناکام رہے ہیں۔ سوچ کی نوعیت ہی طے کرتی ہے کہ آپ کس طرف جائیں گے اور کیا پائیں گے۔ سوچ آزاد و خود مختار اور بے جا پابندیوں سے آزاد ہو تو انسان بہت کچھ کر گزرتا ہے۔ سوچ کی نوعیت پر اس بات کا مدار ہے کہ آپ اپنے وجود کو تمام صلاحیتوں اور سکت کے ساتھ کس طور بروئے کار لائیں گے۔
فکر و نظر کا معاملہ بہت اہم ہے۔ جس کی نظر میں گہرائی و گیرائی ہوتی ہے وہ دوسروں پر اپنے آپ کو ثابت کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ دنیا صرف یہ دیکھتی ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ جو کچھ آپ کے ذہن میں ہوتا ہے وہی سامنے آتا ہے‘ عمل کی شکل اختیار کرتا ہے۔ جو کچھ ابھی آپ کے ذہن میں ہے وہ بھلا کسی پر کس طور ظاہر ہوسکتا ہے؟ کسی بھی انسان کا ذہن دوسروں پر کبھی نہیں کھلتا۔ یہ کام عمل کے ہاتھوں ہو پاتا ہے۔ آپ بھی بہت کچھ سوچتے ہوں گے مگر کسی کو بتاتے نہیں ہوں گے تو کوئی جان پاتا بھی نہیں ہوگا۔ یہی معاملہ باقی تمام انسانوں کا بھی ہے۔ فکر و نظر کی بالیدگی ہر اس انسان کیلئے ناگزیر ہے جو کچھ کرنا چاہتا ہے‘ اپنے آپ کو منوانا چاہتا ہے۔سوچ محدود ہو تو انسان محدود زندگی بسر کرتا ہے۔ ہر انسان کو سوچ کی بنیاد ہی پر لائحۂ عمل طے کرنا ہوتا ہے۔ سوچ کی سمت طے کرتی ہے کہ آپ کی منزل کیا ہوگی اور وہاں تک کیونکر پہنچا جاسکے گا۔ یہ سب کچھ خود بخود رونما ہونے والا معاملہ نہیں۔ ہر انسان کو اپنے لیے بہت کچھ طے کرنا پڑتا ہے۔
ہر دور میں اہلِ نظر اس نکتے پر زور دیتے آئے ہیں کہ انسان کو سوچ آزاد رکھنی چاہیے یعنی کھل کر سوچنا چاہیے۔ کھل کر سوچنے کیلئے ناگزیر ہے کہ انسان کسی بھی معاملے میں محدود اندازِ فکر کا حامل نہ ہو۔ لگی بندھی سوچ کے دائرے میں گھومتے رہنے سے انسان ایسی باتیں سوچتا ہے جن کا سکوپ محدود ہوتا ہے۔ ذہن کے کینوس کو بڑا رکھنے کیلئے غیر معمولی تیاری کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی انسان کی سوچ خود بخود بلند نہیں ہوتی‘ بلند کرنا پڑتی ہے۔ یہ کام مطالعے کے ذریعے بھی ہوتا ہے اور مشاہدے سے بھی۔ جب کوئی اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہوتا ہے تب اُس کے علم کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جاتا ہے۔
ماحول انسان پر کئی زاویوں سے اثر انداز ہوتا ہے بلکہ اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ ماحول کا ایک بنیادی اور خاصا وقیع اثر سوچ پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ فکری ساخت یا نفسی ڈھانچا ماحول سے اثرات قبول کیے بغیر نہیں رہتا۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو چپکے چپکے ہماری فکری ساخت کا حصہ بنتا جاتا ہے اور ہمیں اس کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔ کبھی کبھی انسان ایسا بھی سوچتا ہے جو لاشعور کی سطح پر ہوتا ہے یعنی اسے خود بھی ٹھیک سے اندازہ نہیں ہو پاتا کہ وہ کیا اور کیوں سوچ رہا ہے۔ ایسی حالت میں خاصا وقت گزرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں کوئی بڑی غلطی سرزد ہوگئی ہے۔سوچ اگر لگی بندھی ہو تو ذہن زیادہ دور تک نہیں چل پاتا۔ لگی بندھی سوچ کے مظاہر ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ کسی بھی نوعیت اور سطح کے ماحول کا بغور جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ لگی بندھی سوچ رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ لگی بندھی سوچ کا مطلب چند حدود کا تعین کرکے اُن کے اندر رہتے ہوئے امکانات کا جائزہ لینا ہے۔ آپ نے بہت سوں کو بات بات پر بچت کی تلقین کرتے اور بچت کرتے دیکھا ہوگا۔ ایسے لوگ ہر معاملے میں زیادہ سے زیادہ بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچت کرنا بہت اچھی بات ہے مگر یہ لگی بندھی سوچ ہی کا ایک نمایاں مظہر ہے۔ بچت کے ذریعے ہم اپنے مالیاتی وسائل سے کچھ بچاکر رکھ پاتے ہیں تاکہ کسی مشکل گھڑی میں کام آئے۔ مشکلات سے نپٹنے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے تاہم اس سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ کمانے کا سوچے اور اس حوالے سے عملی سطح پر کچھ کرے۔ بچت کا بہترین طریقہ زیادہ کمانا ہے۔ جب انسان زیادہ کماتا ہے تو بہت کچھ خود بخود بچ جاتا ہے! زیادہ کمانے کی صورت میں بچت کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے نہ اس حوالے سے عملی طور پر کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔
محدود یا لگی بندھی سوچ کے نمونے دیکھنے ہوں تو بعض مخصوص دکان داروں کو دیکھیے‘ کیبن یاٹھیلے لگانے والوں کے بارے میں سوچئے۔ آپ نے بہت سوں کو عشروں سے ایک ہی کام کرتے دیکھا ہوگا۔ اسے کہتے ہیں محدود سوچ۔ ایسے لوگ لگی بندھی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔ انسان اگر کوئی کیبن چلا رہا ہو تو اس سے آگے کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے‘ کچھ تیاری کرنی چاہیے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب انسان کبھی کبھی الگ تھلگ بیٹھ کر اپنے معاملات کا جائزہ لے‘ امکانات پر غور کرے اور کچھ نیا کرنے کا ذہن بنائے۔ کیا محض ایک کیبن چلاتے ہوئے زندگی بسر کرنا زندگی کا حق ادا کرنے کی معقول ترین صورت ہے؟ ایسے میں تو انسان کنویں کا مینڈک ہوکر رہ جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ایک روزہ کرکٹ میچ چالیس اوورز کا ہوا کرتا تھا۔ پھر یہ پچاس اوورز کا ہوا۔ جب چالیس اوورز کا تھا تب اوپنرز ابتدائی پندرہ اوورز میں تیس چالیس رنز اسکور کرتے تھے اور اسے بھی کارنامہ سمجھا جاتا تھا! یہ ٹرینڈ 1990ء کی آمد تک چلتا رہا۔ تب تک کسی کسی ٹیم میں کوئی ایک آدھ ایسا کھلاڑی ہوتا تھا جو کبھی کبھی چوکوں‘ چھکوں کی بارش کردیتا تھا۔ 1990ء کے عشرے کے اوائل میں جے سوریا‘ ڈیوڈ بُون‘ ڈین جونز اور ان کے بعد سعید انور‘ عامر سہیل وغیرہ نے ابتدائی پندرہ اوورز میں دائرے سے باہر کھیلنے کی روایت ڈالی۔ ایک روزہ میچ کے دوران ابتدائی پندرہ اوورز میں آؤٹ فیلڈ خالی رہتی تھی کیونکہ بیشتر کھلاڑی وکٹ کے نزدیک دائرے تک رہا کرتے تھے۔ جے سوریا‘ سعید انور اور عامر سہیل جیسے بیٹرز نے اونچے شاٹ کھیلنے کا ٹرینڈ دیا۔ اسے انگریزی میں آؤٹ آف دی باکس تھنکنگ کہتے ہیں۔ وہی لوگ ڈھنگ سے جی پاتے ہیں جو آؤٹ آف دی باکس تھنکنگ پر یقین رکھتے ہیں اور اس حوالے سے اپنے آپ کو آزماتے بھی ہیں۔ فی زمانہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بھی آؤٹ آف فی باکس تھنکنگ کی ضرورت ہے۔ قومی ٹیم بہت حد تک لگی بندھی سوچ کی حامل ہوکر رہ گئی ہے۔ اسے اس دائرے سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ نفسی امور کے ماہرین سے سیشن کرواکے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو سوچ بدلنے پر مائل کرنا لازم ہے۔ خوفزدہ ہوکر کھیلتے رہنے سے کوئی وکٹ تو بچا سکتا ہے‘ میچ نہیں۔ سوال وکٹ پر محض ٹھہرنے کا نہیں‘ رنز بنانے کا ہے۔ کھلاڑی پچ پر صرف ٹھہرے رہیں تو سکور بورڈ بھی ٹھہرا رہتا ہے۔
زندگی کا ہر معاملہ ہم سے تازہ اور وسیع سوچ کا تقاضا کرتا ہے۔ چند حدود میں رہتے ہوئے سوچنے سے انسان اپنے وجود کو محدود کرتا چلا جاتا ہے۔ دنیا ان کیلئے ہے جو سوچنا جانتے ہی نہیں بلکہ سوچنا چاہتے بھی ہیں۔ آج کی دنیا میں آؤٹ آف دی باکس تھنکنگ کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ ہر شعبہ زیادہ سے زیادہ تنوع چاہتا ہے۔ ہر آجر کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کیلئے کام کرنے والے ٹھوس‘ توانا اور منفرد سوچ رکھتے ہوں۔ سوچ کی تازگی ہی کسی بھی آجر کے کام کو آسان بناتی ہے۔ منجمد یا لگی بندھی سوچ کے حامل اجیر جب اپنا بھلا نہیں چاہتے تو ان کا بھلا کیونکر چاہیں گے جن کیلئے وہ کام کرتے ہیں؟آپ کیا چاہتے ہیں؟ لامحدود سوچ کو گلے لگانے کا عزم کیجیے۔ اسی صورت آپ فکر کی گہرائی و گیرائی یقینی بنانے میں کامیاب ہو پائیں گے۔