کم و بیش چار صدیوں کے دوران یورپی طاقتوں نے دنیا بھر میں جو اکھاڑ پچھاڑ مچائی ہے اُس کے نتیجے میں دنیا کچھ کی کچھ ہوتی رہی ہے۔مغرب کی گوری اقوام نے جب مادّی علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت یقینی بنانے کے بعد ''کلرڈ‘‘ دنیا کو کچھ سکھانے کی ٹھانی تب بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔ انگریزوں، ولندیزیوں، پرتگالیوں، فرانسیسیوں اور جرمنوں نے اپنے اپنے علاقوں سے نکل کر دنیا کو سدھارنے کا فیصلہ کیا اور اُس پر عمل بھی کر گزرے۔ بعض معاملات میں ارادہ سدھارنے کا نہیں بلکہ محض نئی دنیائیں تلاش کرنے کا تھا اور اِس کے نتیجے میں کچھ اور ہی ہوگیا۔ کرسٹوفر کولمبس نے ہندوستان تک پہنچنے کا آسان راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی اور امریکہ جا پہنچا۔ وہ سپین کے حکمراں خاندان کی مہربانی کے سہارے اس مہم پر روانہ ہوا تھا۔ جن یورپی ممالک نے دوسرے خطوں کو فتح کرکے اُنہیں اپنی نو آبادیوں میں شامل کیا اُن میں سپین بھی نمایاں تھا۔ امریکہ میں نمایاں ترین تمام فاتح اور غاصب یورپی اقوام کے باشندوں نے رہائش اختیار کر لی اور وہاں اُن کے اور مقامی آبادیوں کے درمیان لڑائیاں بھی ہوئیں۔ آج بھی براعظم امریکہ میں دیگر یورپی نسلوں کے ساتھ ساتھ ہسپانوی نسل کے لوگ بھی نمایاں تعداد اور نمایاں حیثیت میں آباد ہیں۔
کسی بھی پرائے خطے کو اپنا بنانے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ ایک طریقہ عسکری قوت کے ذریعے اُسے دبوچ کر اُس پر اپنی مرضی تھوپنے کا ہے۔ مفتوح خطے کے لوگ کسی بھی فاتح اور غاصب قوم کو دل سے قبول نہیں کرسکتے۔ دوسرا معقول تر طریقہ یہ ہے کہ کسی خطے یا علاقے کو فتح تو کیا جائے؛ تاہم وہاں کے لوگوں کو غلام بنانے کے بجائے اُن سے اچھا سلوک روا رکھا جائے اور اُنہی میں سے کسی کو اپنا نمائندہ بناکر اُسے حکمرانی سونپ دی جائے۔ مقصود یہ ہو کہ اُس خطے یا علاقے کے قدرتی وسائل لُوٹے نہ جائیں بلکہ مقامی لوگوں کے حالاتِ زندگی بہتر بنائے کے لیے بروئے کار لائے جائیں۔ یورپی اقوام نے یہ دوسرا طریقہ بہت محدود پیمانے پر اختیار کیا۔ اُن کے لیے زیادہ پسندیدہ اور قابلِ ترجیح پہلا طریقہ ہی تھا۔ کسی علاقے کو فتح کرنے کے بعد بڑے پیمانے پر قتلِ عام کے ذریعے اپنی دھاک بٹھانا طویل عرصے تک یورپی اقوام کا بنیادی طریقِ کار رہا۔ یہی طریقِ کار بعد میں امریکہ نے بھی اپنایا۔ اور کیوں نہ اپناتا؟ امریکہ میں یورپ ہی کے لوگ آباد ہیں اور وہی اس کے حکمران ہیں۔ اُن کی ذہنیت صدیوں بعد بھی زیادہ نہیں بدلی۔ امریکی پالیسیوں سے یورپ کی غاصب اقوام کی ذہنیت صاف جھلکتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک امریکہ نے دنیا بھر میں جو کچھ بھی کیا ہے وہ اس بات غماز ہے کہ یورپی اقوام کی ذہنیت سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔ امریکی پالیسیوں میں تکبر اور سرکشی کا عنصر نمایاں رہا ہے۔ اپنے آپ کو باقی دنیا سے برتر سمجھنے کا زُعم سب سے زیادہ امریکیوں کو ہے۔
امریکہ اور یورپ نے مل کر بیسویں صدی کے دوران پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھا۔ بیسویں صدی کے اواخر میں معاملات تبدیل ہونے لگے تو امریکہ اور یورپ‘ دونوں ہی کو احساس ہوا کہ اب دال زیادہ دیر گلے گی نہیں۔ چین اور چند دوسری اقوام تیزی سے ابھرنے اور پنپنے لگیں تو امریکہ و یورپ کو اندازہ ہوگیا کہ تبدیل ہونے کا وقت آگیا ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ تبدیلی کیا اور کیوں ہو۔ امریکہ کے لیے اپنی پالیسیاں بدلنا بہت مشکل ثابت ہوا کیونکہ اُس نے دنیا بھر میں پیر کچھ زیادہ ہی پسارے ہوئے ہیں اور پھر یوں بھی ہے کہ وہ علم و فن کی نرم قوت سے زیادہ سخت یعنی عسکری قوت پر یقین رکھتا ہے۔ دوسری طرف یورپ کے لیے تبدیل ہونا زیادہ مشکل نہ تھا کیونکہ وہ عسکری قوت کا حامل ہونے کے باوجود نرم قوت یعنی علم و فن اور معیشت کے میدانوں میں اپنی پوزیشن بہتر بناتا آیا تھا۔ دنیا بھر میں یورپ کو یکسر خونخوار طاقتوں کے مجموعے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ فیشن بھی یورپ سے لیے جاتے ہیں اور نئی سوچ بھی۔ یورپ کا عام باشندہ جس انداز سے زندگی بسر کرتا ہے وہ دنیا بھر میں پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ یورپی اقوام نے بھی خون آشام درندوں کی طرح دنیا بھر میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور لُوٹ مار بھی کی؛ تاہم اُنہوں نے کچھ دینے کی بھی کوشش کی۔ امریکہ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ یورپ کے باشندوں کا عمومی مزاج اب بھی دوستانہ اور قبولیت کی ذہنیت کا عکاس ہے۔ دوسری طرف امریکیوں کو دنیا بھر میں نفرت اور شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ عام امریکی کا مزاج ہے بھی کچھ ایسا کہ اُس سے شائستگی کم ہی جھلکتی ہے۔ عام یورپی باشندہ دنیا کو قبول کرنے کے معاملے میں بہت آگے بڑھا ہوا دکھائی دیتا ہے جبکہ عام امریکی باشندے کی طرزِ فکر و عمل تکبر اور سرکشی کی مظہر سی ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ تہذیب سے زیادہ ٹکراؤ کی علامت بنا رہتا ہے جبکہ عام یورپی باشندہ تہذیب و شائستگی کا نمائندہ نظر آتا ہے کیونکہ وہ نرم قوت کا مظہر ہے۔
طویل عرصے تک چین نے بھی کئی خطوں پر حکمرانی کی ہے۔ یہی معاملہ روس کا بھی رہا ہے؛ تاہم دونوں کی اپنی اپنی حدود رہی ہیں۔ چین اب ایک بار پھر غیر معمولی قوت کے ساتھ پنپ اور ابھر چکا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ عالمی سطح پر اپنے آپ کو منوانے کا سفر شروع کرنے سے پہلے چین نے امریکہ، یورپ اور دیگر سابق غاصب قوتوں کے ''طریقِ واردات‘‘ کو جاننے کی کوشش نہ کی ہو؟ ایسا ممکن نہیں۔ چین ہر اعتبار سے ایک منظم ملک ہے۔ روس طاقتور ضرور ہے؛ تاہم وہ حقیقی عالمی قوت کے طور پر اپنے آپ کو منوانے کے حوالے سے زیادہ منظم اور منصوبہ بند نہیں۔ چین کی طرزِ فکر و عمل میں تنظیم بھی دکھائی دیتی ہے اور منصوبہ سازی بھی۔ یہ تو ممکن نہیں کہ چین کے پالیسی میکرز اور منصوبہ سازوں نے چار پانچ صدیوں کی تاریخ کا بھرپور جائزہ نہ لیا ہو، مغرب کی شاندار مادّی ترقی اور اُس کے نتیجے میں پنپنے والی عسکری قوت کے مظاہر کے بارے میں خوب نہ پڑھا ہو۔
چین نے بیسویں صدی کے آخری تین عشروں کے دوران اپنے آپ کو اِتنی تیزی سے پروان چڑھایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشتر وقت کسی کو اُس نے اپنی طاقت اور عزائم کی ہوا بھی نہیں لگنے دی۔ چین نے سب سے بڑی معاشی قوت کے طور پر ابھرنے کے بعد بھی کسی خطے کو دبوچنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ وہ نرم وقت کو بنیاد بناکر چلتا آیا ہے۔ اُس کی کوشش ہے کہ دنیا بھر میں اپنے پیر صرف صنعت و تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے جمائے جائیں۔ چین نے یورپ اور امریکہ میں براہِ راست سرکاری سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے اور چینی باشندوں نے سینکڑوں ارب ڈالر کے اثاثے بھی وہاں بنا رکھے ہیں۔ چین کو نظر انداز کرنا اب مغربی پالیسی میکرز کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اگر چین اپنی سرمایہ کاری نکالتا ہے یا چینی باشندے اپنے ارادے تبدیل کرتے ہیں تو اچھی خاصی اکھاڑ پچھاڑ واقع ہوگی۔
امریکہ اور یورپ کے لیے چین کی طرزِ فکر و عمل بہت پریشان کن ہے کیونکہ دونوں ہی کی خواہش ہے کہ چین اپنے آپ کو منوانے کی کوشش میں تھوڑی بہت طاقت بروئے کار لائے اور کچھ ایسا کرے کہ بعض (بالخصوص قریبی) خطے اس سے خوف محسوس کریں۔ امریکہ اور یورپ کی خواہش و کوشش ہے کہ چین کسی بڑے مناقشے کا فریق بنے۔ مغربی تجزیہ کار چین کو بار بار تاؤ دلا رہے ہیں۔ تجزیوں میں یہ بات کھل کر کہی جارہی ہے کہ جب تک چین کسی بڑے مناقشے میں براہِ راست شریک ہوکر فریق نہیں بنے گا تب تک عالمی سیاست و معیشت میں اپنے آپ کو زیادہ منوانے کے قابل نہ ہوسکے گا۔
چین جانتا ہے کہ جذباتی ہوکر کسی جنگ میں الجھنے کی صورت میں اُس کا بہت کچھ داؤ پر لگ جائیگا۔ مغربی تجزیہ کار چینی قیادت کی سوچ کو ''بنیا ذہنیت‘‘ قرار دیکر کچھ ایسا ویسا کرنے پر اُکسا رہے ہیں؛ تاہم وہ ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہتی جس سے کسی بھی کمزور ملک کو خوف محسوس ہو۔ چین کا ایک بڑا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں اُسے شک اور خوف کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ چین کے پالیسی میکرز کو اِسی طور سوچ سمجھ کر اور سنبھل سنبھل کر چلنا ہے تاکہ امریکہ اور یورپ پر دباؤ بھی بڑھتا رہے، اُن کی بدحواسی کا گراف بھی نیچے نہ آئے۔