ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق تبدیل ہونا ہر انسان کے لیے لازم ہے۔ اِس کے بغیر ڈھنگ سے زندہ رہنے کا آپشن ہوتا ہی نہیں۔ اگر کوئی بضد ہو کہ ماحول چاہے کتنا ہی بدل جائے وہ نہیں بدلے گا تو پھر اُس کا انجام بھی دیکھ لیجیے۔ ذرا اپنے آس پاس کے لوگوں ہی پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو کچھ دیر میں اندازہ ہو جائے گا کہ جنہوں نے اپنے آپ کو بدلتے ہوئے ماحول کے مطابق بدلنے کی کوشش نہیں کی وہ کہیں کے نہ رہے۔ دور کیوں جائیے، رشتہ داروں اور احباب میں ایسے لوگوں کو تلاش کیجیے اور اُنہیں دوسروں سے الگ کرکے دیکھیے۔ اُن کے معمولات کا جائزہ لینے پر اندازہ ہوگا کہ ماحول میں کیا کیا بدلا اور وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اور پھر اِس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ بھی اُنہوں نے بھگتا۔ ایسے لوگ ڈھلتی عمر کو پہنچنے تک بند گلی میں کھڑے ملتے ہیں۔ اُن کے پاس زیادہ تو کیا‘ آپشن ہوتے ہی نہیں۔ ایسے میں زندگی کی گاڑی دھکا سٹارٹ ہو جاتی ہے۔
کسی بھی معاشرے میں اپنے آپ کو نہ بدلنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی تن آسانی پر مرنے والے کم نہیں ہوتے۔ اُنہیں اس بات سے غرض ہی نہیں ہوتی کہ وہ جس معاشرے کا حصہ ہیں دنیا اُس پر مرتی ہے، اُسے نمونہ بناکر زندگی بسر کرتی ہے۔ وہ تیرنا نہیں چاہتے بلکہ اپنے آپ کو دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ دھارا اُنہیں اپنی مرضی کے مطابق کہیں بھی لے جاسکتا ہے اور لے ہی جاتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں خود کو نہ بدلنے والوں کا انجام بھی برا ہی ہوتا ہے مگر اِتنا بُرا نہیں ہوتا کہ جان کے لالے پڑجائیں۔ ترقی یافتہ معاشرے گری پڑی حالت کو پہنچنے والوں کو بھی اِتنا کچھ دیتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طور جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
پسماندہ معاشروں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اِن معاشروں میں اپنے آپ کو بدلنے سے گریز کرنے والوں کا انجام عبرت ناک ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں تبدیل نہ ہونے کا آپشن ہوتا ہی نہیں۔ ہمیں زندگی بھر آپشن ملتے رہتے ہیں مگر بعض آپشن محض کہنے کو آپشن ہوتے ہیں، در حقیقت اُن کی اپنے آپ میں کوئی قدر نہیں ہوتی۔ اگر کوئی ریلوے ٹریک پر لیٹا ہو اور ٹرین آجائے؟ لیٹے رہنے کا آپشن موجود ہے مگر یہ کوئی آپشن نہیں کیونکہ اِس آپشن کو اپنانے کا نتیجہ ہے یقینی موت۔ جس آپشن کو اپنانے سے سب کچھ ختم ہوجائے وہ آپشن نہیں کہلا سکتا۔
دنیا بھر میں شہر پھیلتے جارہے ہیں۔ لوگ دیہی آبادی کو چھوڑ کر شہروں میں رہائش اختیار کر رہے ہیں۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ دیہی علاقوں میں واقع اپنی زمینوں اور مکانات وغیرہ کو کرائے پر اٹھاکر شہروں میں جا بسے ہیں۔ اُن کے نزدیک دیہی علاقوں میں جینے کا مطلب ہے پیچھے رہ جانا۔ دیہی علاقے ہر عہد میں پسماندگی کی علامت رہے ہیں۔ شہروں کو ہمیشہ تہذیب و تمدن کے مرکز کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ سب سے پہلے شاید یورپ میں قصبوں کا کلچر متعارف کرایا گیا یعنی ایسے شہر جو دیہی علاقوں سے جُڑے ہوئے ہوں۔ یوں کہہ لیجیے کہ دیہات میں شہر ہوتا ہے اور شہر میں دیہات ہوتے ہیں۔ ایک طرف شہر کا لطف اور دوسری طرف لہلہاتے کھیت اور سادہ طرزِ زندگی۔ یہ ایک اچھا آپشن ہے! پاکستان میں کئی شہر دراصل قصبے ہیں یعنی وہ اپنے آپ میں شہر کا درجہ بھی رکھتے ہیں اور دیہی علاقوں یعنی کھیت کھلیان سے بھی جُڑے ہوئے ہیں۔ چھوٹی آبادی کے شہر دراصل قصبے ہوتے ہیں۔ اِن شہروں میں رہنے والے خاصی پُرلطف زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ ایک طرف وہ دیہی ثقافت سے وابستہ رہتے ہیں اور دوسری طرف شہری طرزِ زندگی سے بھی مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔ اور کیا چاہیے؟ پاکستان جیسے معاشروں کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ لوگ کسی بھی طرزِ زندگی سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوتے اور عمر بھر زندگی سے شکوہ کناں ہی رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں انسان ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ دنیا بھر کے بے بنیاد تصورات کا جال بُن کر لوگ اُس میں پھنس جاتے ہیں اور پھر نصیب کو کوستے رہتے ہیں۔ دیہی زندگی میں سو مشکلات ہوتی ہیں مگر سو فوائد بھی تو ہوتے ہیں۔ اُن کے بارے میں لوگ نہیں سوچتے۔ دیہات اور چھوٹے شہروں میں فاصلے برائے نام ہوتے ہیں۔ لوگ کام پر جانے اور واپس آنے میں کسی بھی طرح کی الجھن کا سامنا نہیں کرتے۔ موسم خراب ہو تب بھی کام پر جانا اور واپس آنا ڈراؤنے خواب جیسا نہیں ہوتا۔ خالص دیہی علاقوں یعنی دیہات میں لوگ چونکہ بنیادی طور پر کھیتی باڑی سے جُڑے ہوئے ہوتے ہیں اِس لیے اُن کے پاس وقت کافی ہوتا ہے۔ فراغت کو مثبت سرگرمیوں میں بھی تو کھپایا جاسکتا ہے۔ انسان کئی ہنر بھی سیکھ سکتا ہے، پڑھ سکتا ہے۔ میل جول بھی آسان ہوتا ہے۔ کسی کی پریشانی میں اُس کا ساتھ دینے کے لیے بھی خاصا وقت ہوتا ہے۔ دنیا کے ساتھ ساتھ دین کا بھی سوچا جاسکتا ہے۔ دیہی علاقوں میں انسان کے پاس اِتنا وقت بچتا ہے کے دلجمعی سے عبادت بھی کرسکتا ہے۔ سادہ طرزِ زندگی کی بدولت بالعموم زیادہ کمانا بھی لازم نہیں ہوتا۔
چھوٹے شہر بھی انسان کو ڈھنگ سے جینے کے اچھے خاصے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ قصبوں یعنی چھوٹے شہروں کی حدود بالعموم ڈھائی تین کلو میٹر تک ہوتی ہیں۔ کام پر جانا ہو تو انسان پیدل بھی جاسکتا ہے یا پھر اپنی سواری کے ذریعے پانچ منٹ میں پہنچ سکتا ہے۔ کسی سے ملنے جانا ہو تب بھی چند منٹ ہی لگتے ہیں۔ سندھ میں ایسے چھوٹے شہر بڑی تعداد میں ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ جنہوں نے اچھی منصوبہ سازی کے ساتھ جینے کا تہیہ کیا ہو وہ ایسے چھوٹے شہروں میں ڈھنگ سے جیتے ہیں۔ ایسے شہر انسان کو سُکون سے جینے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ وہ پڑھ بھی سکتا ہے، معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں میں توازن بھی برقرار رکھ سکتا ہے، اہلِ خانہ پر بھی توجہ دے سکتا ہے اور کسی کی مدد کرنے میں بھی زیادہ الجھن محسوس نہیں کرتا۔
بڑے شہروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ مزید پھیلتے جا رہے ہیں۔ یہ بھی فطری رجحان کا نتیجہ ہے۔ لوگ علاقوں اور چھوٹے شہروں سے نکل کر بڑے شہروں کا رُخ کر رہے ہیں یعنی اُنہیں مزید بڑا بنارہے ہیں۔ اس رجحان کو پروان چڑھانے والا سب سے بڑا عامل معاشی معاملہ ہے۔ دیہی علاقوں اور قصبوں میں کمانے کے مواقع بہت محدود ہیں۔ اگر منصوبہ سازی معیاری نہ ہو تو لازم ہو جاتا ہے کہ ڈھنگ سے جینے یعنی زیادہ کمانے کے لیے بڑے شہروں کا رُخ کیا جائے۔ پھیلتے ہوئے شہروں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اُن میں بسنے والے نہیں پھیل رہے۔ ماحول انسان سے تبدیلیوں کا تقاضا کرتا رہتا ہے مگر وہ‘ بالعموم‘ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ جب کوئی شہر پھیلتا ہے تو اُس میں ترقی کی رفتار بھی تیز ہو جاتی ہے اور زیادہ کمانا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ زیادہ اِس لیے کمانا پڑتا ہے کہ پھیلتے ہوئے شہر میں ہر چیز مہنگی ہوتی جاتی ہے۔ زمینوں کی قدر بڑھنے سے مکانات کی قیمتوں اور کرایوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ انسان کے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے کہ زیادہ کمائے۔ زیادہ کمانے کے لیے یا تو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے یا پھر کوئی نیا ہنر سیکھ کر معاشی جدوجہد کا راستہ بدلنا پڑتا ہے۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اپنے شعبے میں پائی جانے والی جدت کو اپنانا پڑتا ہے۔ محض زیادہ کام کرنے سے زیادہ نہیں کمایا جاسکتا۔ کچھ نیا سیکھنا پڑتا ہے، کچھ نیا کرنا پڑتا ہے۔
چھوٹے شہروں میں رہنے والوں پر تبدیلی کے لیے زیادہ دباؤ نہیں ہوتا۔ وہ محدود زندگی بھی بسر کرسکتے ہیں۔ بڑے شہروں میں رہنے والوں کو تبدیل ہونا ہی پڑتا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کے اخراجات بڑھتے جائیں تو انسان کے لیے لازم ٹھہرتا ہے کہ اپنی طرزِ فکر و عمل پر نظرِثانی کرے، کچھ ایسا کرے جس سے زندگی کا رُخ تبدیل ہو۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ خود بخود درست ہو جائے۔ اِس کے لیے متوجہ ہونا پڑتا ہے اور محنتِ شاقہ کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ بڑے شہروں میں رہنے والوں کے لیے اپنے وجود کی توسیع بھی لازم ہے یعنی ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونے کے لیے بدلتے ہوئے ماحول سے ہم آہنگ ہونا ہی پڑے گا۔