آپ نے بہت سے بچوں کو مختلف کام کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ کہیں کسی ہوٹل پر کوئی بچہ کام کرتا ہوا ملتا ہے تو کہیں کسی ٹھیلے پر کچھ بیچتا دکھائی دیتا ہے۔ بہت سے دکان دار بچوں کو کام پر رکھتے ہیں۔ بعض دکان دار اچھے تاثر کے لیے بھی ایسا کرتے ہیں مثلاً کاسمیٹکس کی دکان پر دس بارہ سال کا لڑکا کام کرے تو خواتین کو ڈیلنگ میں زیادہ الجھن محسوس نہیں ہوتی۔
کام کرتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کھیلنے کودنے اور تعلیم حاصل کرنے کے دن معاشی مشقت کی نذر ہو رہے ہیں۔ یہ سوچ کر ذہن میں عجیب سے الجھن اور طبیعت میں خاصی بے چینی پیدا ہوتی ہے جو یقیناً فطری امر ہے۔ کسی بھی بچے کو کام کرتا ہوا یعنی معاشی جدوجہد میں مصروف یا الجھا ہوا پاکر ہر اُس انسان کو الجھن ہوگی جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ بچوں سے اُن کا یہ خوبصورت زمانہ کسی بھی صورت چھیننا نہیں چاہیے۔
کسی بھی بچے کو کمانے کی ذمہ داری سے نجات دلانے کی بنیادی ذمہ داری اُس کے اہلِ خانہ اور قریبی رشتہ داروں کی ہے۔ اگر خاندان میں کوئی گھرانہ بہت اچھا کماتا ہو تو اُسے کمزور گھرانوں کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ زندگی کو بوجھ سمجھ کر بسر نہ کریں بلکہ معقول طریقے سے جی سکیں۔ اگر کسی گھرانے کی آمدنی کم ہو تو خاندان کے مال دار گھرانوں کو آگے بڑھ کر مدد کرنی چاہیے تاکہ معاملہ بچوں کو کام پر لگانے تک نہ پہنچے۔
کمزور گھرانوں کی مدد کرنا اخلاقی ذمہ داری ہے یعنی کسی پر قانونی اعتبار سے دباؤ تو نہیں ڈالا جاسکتا کہ وہ لازمی طور پر ایسا کرے۔ کسی بھی انسان کو بہت چھوٹی عمر سے کام پر لگانا ہر اعتبار سے شرمناک ہے اور بالخصوص ایسی صورت میں کہ جب ایسا کرنے کا کوئی جواز بھی نہ ہو۔ بعض کاروباری گھرانے اچھی خاصی آمدنی ہونے پر بھی بچوں کو اچھی تعلیم دلانے سے گریز کرتے ہوئے کام پر لگائے رکھتے ہیں۔ یہ سراسر غلط روش ہے۔ ذرا بڑا ہونے پر اُنہیں کام ہی کرنا ہوتا ہے، عمر بھر کمانا ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی کو زندگی سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہونے کی گنجائش دی جائے تو ایسا کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟
پاکستانی معاشرے میں بچوں پر بھی ماحول یا حالات کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ کمزور معاشی حیثیت والے گھرانوں کے بچے خاصی چھوٹی عمر سے بہت سی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اُن پر کمانے کے حوالے سے غیر معمولی دباؤ ہوتا ہے۔ یہ دباؤ چونکہ حالات کا نتیجہ ہوتا ہے اِس لیے بچوں کے اہلِ خانہ اور دیگر متعلقین کچھ خاص نہیں کر پاتے۔ بچپن کے حسین دور سے خوب محظوظ ہونا اور آنے والے زمانوں کے لیے تعلیم و تربیت کے حوالے سے اچھی تیاری ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ یہ حق اُس سے چھین لیا جائے تو زندگی ادھوری رہ جاتی ہے۔ ہر بچہ بہت سے خواب آنکھوں میں سجائے بڑا ہوتا ہے۔ شیر خوارگی کی حدود سے نکل کر جب وہ شعور کی وادی میں قدم رکھتا ہے تب ماحول اُس پر دھیرے دھیرے کھلتا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں یہ عمل بہت سست ہوا کرتا تھا۔ اب آئی ٹی سیکٹر میں حیران کن پیش رفت کے نتیجے میں سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے باعث اِس میں ایسی تیزی آگئی ہے کہ بہت کچھ بچوں کے ذہنوں میں بھرتا جاتا ہے اور اُنہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ ایسی بہت سی باتیں جان رہے ہوتے ہیں جن کا جاننا اُن کے لیے کسی بھی درجے میں لازم ہے نہ مفید۔ سوشل میڈیا نے بچوں سے اُن کا بچپن چھیننے کا عمل تیز کردیا ہے۔ آج کے بچے خاصی چھوٹی عمر میں ایسا بہت کچھ جان چکے ہوتے ہیں جو اُن کی فکری نشو و نما کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ذہن میں اگر بہت سی لایعنی یا بے مصرف باتیں جمع ہو جائیں تو بچے تعلیم و تربیت کے معاملات میں شدید الجھن محسوس کرتے ہیں۔ سوال کلاس روم یا امتحانی ہال کی کارکردگی کا نہیں بلکہ پوری زندگی کا ہے۔ چھوٹی عمر میں شدید الجھن سے دوچار ہو جانے والا ذہن بڑی عمر میں بھی الجھا ہوا رہتا ہے اور یوں انسان عملی زندگی میں وہ سب کچھ نہیں کر پاتا جو وہ کرنا چاہتا ہے۔
کسی بھی بچے کو عملی زندگی کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے کی عمر کیا ہونی چاہیے یا کیا ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہر انسان کے نزدیک مختلف ہوگا اور ہونا ہی چاہیے۔ ہر انسان اپنے مخصوص حالات کے تحت زندگی بسر کرتا ہے اور اُس کے بچوں کی تعلیم و تربیت بھی اُنہی مخصوص حالات کی مناسبت سے ہوتی رہتی ہے۔ مال دار گھرانوں کے بچوں پر چونکہ کمانے کے لیے زیادہ دباؤ نہیں ہوتا اس لیے وہ خاصی بڑی عمر تک تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتے اور زندگی سے بھرپور لطف کشید کرتے رہتے ہیں۔ غریب گھرانوں کے بچے اس معاملے میں تھوڑے کم نصیب ہوتے ہیں۔ وہ اگر چھوٹی عمر میں کام نہ کریں تو اُن پر کمانے کے حوالے خاصا دباؤ ہوتا ہے جو اُن کی تعلیم و تربیت کے معیار پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ بیشتر غریب گھرانوں کے بچوں میں اعتماد کی شدید کمی ہوتی ہے۔ یہ کمی اُنہیں عملی زندگی میں کچھ زیادہ کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتی۔ عملی زندگی میں ہر بچے کو ایک نہ ایک دن قدم رکھنا ہی پڑتا ہے لیکن اگر اِس منزل کے آنے تک اعتماد متزلزل نہ ہوا ہو تو کیا کہنے۔ ایسی حالت میں بھرپور زندگی بسر کرنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔
اب ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ معاشی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے گھرانے اپنے بچوں کے لیے ایسا کیا کریں جس سے وہ بھرپور عملی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔ معاملہ یہ ہے کہ آج کے بچوں کو عملی زندگی کے لیے خاصی چھوٹی عمر سے تیار کرنا لازم ہوچکا ہے۔ ایک دور تھا کہ جوانی کی حدود میں قدم رکھنے پر بھی کمانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جاتا تھا اور گریجوایشن یعنی چودہ جماعتوں کی تعلیم مکمل ہونے تک نوجوان والد یا والدین کی کمائی پر پلتے رہتے تھے۔ اب اِس کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے۔ آج کے نوجوان کو عملی زندگی میں قدم بھی جلدی رکھنا ہوتا ہے اور بہت تیزی سے بہت کچھ حاصل بھی کرنا ہوتا ہے تاکہ آگے چل کر زیادہ دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایسے میں عملی نقطۂ نظر سے معقول بات یہ ہے کہ معاشی اعتبار سے کمزور گھرانے اپنے بچوں کو لڑکپن کی حدود میں قدم رکھنے پر عملی زندگی کے حوالے سے تیار کرنے کا عمل شروع کریں۔ لازم نہیں کہ بچوں کو کہیں کام پر لگایا جائے اور اُن پر کمانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ اچھی بات یہ ہے کہ بچوں کو یہ اندازہ چھوٹی عمر سے ہونا چاہیے کہ جب وہ کمانے کے لیے نکلیں گے تب انہیں کس طرح کی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بارہ سے پندرہ سال کی عمر میں کوئی ہنر سکھانا یا ڈیلنگ میں اعتماد پیدا کرنے کی غرض سے کسی دکان پر بٹھانا معقول طریقہ ہے۔ ایسے بچے عملی زندگی کے لیے درکار اعتماد بہت تیزی سے پروان چڑھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
ہر دور کے بچے عملی زندگی کے حوالے سے بہت سے تصورات کے حامل رہے ہیں۔ کمانا ایسا عمل ہے جس کی پیچیدگیوں کا اندازہ اُنہی کو ہو پاتا ہے جو اِس میں حصہ لیتے ہیں۔ کسی بھی بچے کو اندازہ نہیں ہوسکتا کہ اُس کے والد کتنی محنت سے کماتے ہیں اور کس طور وہ گھر کا چولھا جلائے رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جب والد یا والدین بچوں کو عملی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں تب اُنہیں اندازہ ہو پاتا ہے کہ اُنہیں آگے چل کر جو کچھ کرنا ہے وہ کتنا مشکل ہے۔ اگر بچوں کو مثبت سوچ کے ساتھ، ٹھوس طریقے سے عملی زندگی کی پیچیدگیوں کے بارے میں بتایا جائے، اُن میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو اُن میں وہ اعتماد تیزی سے پنپتا ہے جو معاشی جدوجہد کی بھرپور کامیابی کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ بچوں کو تھوڑی سی کمائی کی بھول بھلیّوں میں پھنسانے کے بجائے عملی زندگی کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے پر متوجہ رہنا چاہیے تاکہ وہ بچپن کے حسن و لطف سے محروم بھی نہ رہیں اور آنے والے زمانے کی خوش کن تصویر بھی ذہن کے پردے پر چمکتی رہے۔