ماحول میں پائی جانے والی گہما گہمی اور ہما ہمی کی گہرائی اور گیرائی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ زندگی کبھی اتنی الجھی ہوئی نہ تھی جتنی آج ہے۔ ہر دور کا انسان یہ سمجھتا رہا ہے کہ گزرے زمانوں کے لوگ زیادہ مزے سے زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ تصور غلط نہ تھا۔ ہر دور گزشتہ تمام ادوار سے زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ آج بھی یہی معاملہ ہے مگر فرق یہ ہے کہ آج ہر معاملہ بہت تیزی سے شدت اختیار کر رہا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں زندگی خاصے سکون کے ساتھ بسر ہوتی تھی۔ ایسی تیزی نہیں تھی کہ کچھ سمجھ ہی میں نہ آئے۔ معاملات فطری رفتار سے چلتے تھے۔ لوگ کسی بھی معاملے میں عجلت پسند نہ تھے۔ ایسا اس لیے تھا کہ ماحول ان سے عجلت پسندی کا تقاضا نہیں کرتا تھا۔ہماری زمین نے زندگی کے کئی روپ یا جلوے دیکھے ہیں۔ مختلف ادوار میں زندگی بسر کرنے کے مختلف انداز سامنے آتے رہے ہیں۔ ہر دور کے چند تقاضے ہوتے ہیں۔ ان تقاضوں کو نبھاتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ گزرے ہوئے کسی بھی دور نے وہ چیلنج پیدا نہیں کیے جو آج کے انسان کو درپیش ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ زندگی کی پیچیدگی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ایسے میں عام آدمی اگر عجلت پسند ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ یہ زمانہ تیزی کا متقاضی ہے۔ ایسے میں عجلت پسندی کو فروغ ملنا ہی ملنا ہے۔ ہاں‘ یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محض عجلت پسند ہو جانے سے بات نہیں بنتی۔ سوال کسی بھی معاملے کو تیزی سے سمجھنے اور اتنی ہی تیزی سے نمٹانے کا ہے۔
آج کی زندگی میں تیزی کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ ہر دور کے انسان کو روئے ارض پر بسر کرنے کے لیے جتنا وقت ملتا رہا ہے‘ اتنا ہی وقت آج کے انسان کو بھی ملا ہے مگر گزرے ہوئے کسی بھی زمانے کے انسان کے مقابلے میں آج کے انسان کا وقت کم‘ بلکہ بہت کم ہے۔ یہ ادراک کا معاملہ ہے۔ کوئی بھی چیز اپنے مخصوص تناظر ہی میں سمجھی جا سکتی ہے۔ آج وقت کو سمجھنے اور برتنے کا معاملہ بلند ترین درجے کی ذہانت اور تحمل پسندی کا متقاضی ہے۔ آج ہر انسان کے پاس کسی بھی معاملے میں متعدد آپشن ہیں۔ وہ کسی بھی سمت جا سکتا ہے۔ ماحول میں پائی جانے والی تیزی انسان کو وقت سے مستفید ہونے کے معاملے میں غیرمعمولی ذہانت اپنانے کی طرف بڑھنے کی تحریک دے رہی ہے۔ لازم ہو چکا ہے کہ ہر انسان وقت کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہو‘ منصوبہ سازی پر یقین رکھتا ہو اور وقت کو بروئے کار لانے کے معاملے میں اپنے آپ کو محض انصاف پسند نہیں بلکہ حقیقت پسند بھی بنائے۔ وقت کے کم رہ جانے کا احساس ہر انسان کو اندر ہی اندر کھا رہا ہے۔ قدم قدم پر وقت کے ضیاع اور زندگی کے زیاں کا احساس ستاتا رہتا ہے۔ یہ کیفیت خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عام آدمی اس خطرناک کیفیت کا شکار ہے مگر اسے اس کا کماحقہ احساس نہیں۔ کوئی متوجہ کرنا چاہے تو بھی وہ زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ ایسے معاملات غور و فکر اور بحث و تمحیص چاہتے ہیں۔ کوئی بھی انسان اپنے معاملات کو اسی وقت بطریقِ احسن سمجھ سکتا ہے جب وہ اس حوالے سے حقیقت پسندی کے تناظر میں سوچے اور متعلقین سے کُھل کر بات یا بحث کرے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ جب خود کو اٹکا ہوا پاتے ہیں تو نفسی امور کے ماہرین سے بات کرتے ہیں اور ان کے مشوروں کی روشنی میں زندگی کا رخ تبدیل کرتے ہیں۔ یہی معقول طریقہ ہے۔
ایک طرف تو وقت کی بڑھتی ہوئی کمی کا احساس ہے اور دوسری طرف ماحول میں پائی جانے والی ایسی باتیں ہیں جو ذہن کو الجھاتی رہتی ہیں۔ کسی بھی ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو وقت کے ضیاع اور زندگی کے زیاں کا سبب بنتا ہے۔ ناموافق معاملات سے بچنا ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے اور ناموافق انسانوں سے بچنا؟ وہ تو اور بھی ناگزیر ہے۔ آپ نے محسوس بھی کیا ہوگا اور عملی سطح پر ایسی صورتحال کا سامنا بھی کیا ہوگا جب وقت بظاہر کسی ٹھوس جواز کے بغیر آپ کے ہاتھوں سے یوں نکلا ہوگا گویا اُڑ رہا ہو۔ وقت کی رفتار ایک ہی رہتی ہے۔ ہم وقت کی رفتار کو اپنے اپنے تناظر میں دیکھتے‘ پرکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ دل دُکھانے والی کیفیت ذہن پر سوار ہو تو وقت خاصی کم رفتار سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ فرحت بخش معاملات میں وقت ایسی تیزی سے گزرتا ہے کہ ہم سوچتے ہی رہ جاتے ہیں اتنا وقت گیا کہاں۔
بات کچھ یوں ہے کہ اب اس بات کی گنجائش بچی ہی نہیں کہ کوئی آپ کا وقت ضائع کرے اور آپ برداشت کرتے رہیں۔ آج کی دنیا میں وقت ہی سب کچھ ہے۔ ہر انسان بھرپور زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ ہزاروں سال کے عمل میں انسان نے جو کچھ بھی ایجاد یا دریافت کیا ہے‘ وہ اب یکجا ہوکر ہمارے سامنے ہے۔ ایسے میں یہ بات کیونکر برداشت کی جا سکتی ہے کہ کوئی ہمارا وقت ضائع کرے اور ہمارے ذہن کی اُلجھن بڑھائے؟ ایک طرف پیشہ ورانہ زندگی ہے اور دوسری طرف معاشرتی معاملات۔ آمدنی کا گراف بلند کرنے کے لیے ہر انسان کو عملی سطح پر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اسی صورت زندگی زیادہ پُرآسائش اور پُرکشش ہو سکتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی آپ کا ذہن منتشر کرنے پر تُل جائے تو؟ ایسے کسی بھی انسان کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ پیشہ ورانہ زندگی کا دباؤ اس قدر ہے کہ انسان کے پاس رشتوں اور تعلقات کے لیے وقت کم رہ گیا ہے۔ ایسے میں معاشرتی سطح پر الجھنوں کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ انسان مادی معاملات میں ایسا الجھا ہوا ہے کہ بہت کوشش کرنے پر بھی وہ رشتوں اور تعلقات کے لیے زیادہ وقت نکال نہیں پارہا۔ یہ معاملہ سبھی کا ہے اس لیے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ جب ذہن الجھا ہوا ہو تو انسان بالکل سامنے کی بات بھی سمجھ نہیں پاتا۔ معاشرتی معاملات میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم کسی سے شکوہ کرتے ہیں کہ وہ تو ملنا ہی پسند نہیں کرتا اور دوسری طرف ہم خود بھی یہی کر رہے ہوتے ہیں۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
اب معاشرتی سطح پر خود کو متوازن رکھنے کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ اس معاملے میں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب سب کی مشکلات یکساں نوعیت کی ہوں تب الزام تراشی اور گلے شکوے کرنے کی گنجائش کم رہ جاتی ہے۔ وقت کی کمی اور اس حوالے سے ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ کے معاملے میں سب ایک کشتی کے سوار ہیں۔ وقت کی کمی کا بڑھتا ہوا احساس سبھی کو آزمائش میں ڈالے ہوئے ہے۔ یہ معاملہ غیر معمولی درجے کے غور و فکر کا متقاضی ہے۔ محض الزام تراشی یا گلوں شکووں سے کچھ نہیں ہونے والا۔ آج کے انسان کو دیگر بہت سے معاملات سے کہیں بڑھ کر معاشرتی سطح پر بہت کچھ سمجھنا ہے۔ زندگی کا معاشی پہلو اسی وقت مستحکم ہو سکتا ہے جب معاشرتی پہلو متوازن ہو۔ گھریلو زندگی الجھنوں کا شکار ہو اور رشتوں یا تعلقات میں کمزوری پائی جاتی ہو تو انسان ڈھنگ سے جی نہیں پاتا۔ حقیقت پسندی ہی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ کسی بھی معاملے میں حقیقت پسندی پر مبنی طرزِ فکر و عمل ہی کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ ماحول آپ سے بہت کچھ چاہتا ہے مگر لازم نہیں کہ آپ اس کی خواہشات اور تقاضوں کے غلام ہوکر رہ جائیں۔ ماحول کے تقاضے نبھانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان اپنے وجود اور اس سے جُڑے ہوئے لوگوں کو بھول جائے۔ ایسا کرنا بے عقلی ہی پر محمول ہوگا۔
کسی کی الجھنوں کو سمجھنے کے لیے پہلے اپنی الجھنوں کو سمجھنا پڑتا ہے۔ جیسی مشکلات ہمیں درپیش ہیں ویسی ہی مشکلات دوسروں کو بھی درپیش ہوں تو ہم ان کی کیفیت کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ محض خود غرض یا بے غرض ہونے سے دال نہیں گلتی۔ ہر اعتبار سے متوازن طرزِ فکر و عمل اختیار کرنا ہی ہمارے مفاد میں ہے۔