ایک زمانے سے ہیئت دان اور دیگر ماہرین کائنات میں زندگی کا نام و نشان تلاش کر رہے ہیں۔ زمین کے ہمنوا سیاروں یعنی نظامِ شمسی کی حدود میں اب تک زندگی کے آثار ملے نہیں۔ ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ زمین کے سوا ہمارے نظامِ شمسی میں کہیں اور بھی زندگی رہی ہو گی۔ ہم خالص فطری علوم و فنون کی روشنی میں بات کر رہے ہیں۔ مذہب جو کچھ کہتا ہے یہاں اُس پر بحث مطلوب ہے نہ ممکن۔
زندگی تلاش کرنے کی کوششیں آج بھی جاری ہیں اور نئی ٹیکنالوجی سے مدد لی جارہی ہے۔ اگر آپ خلا میں بھٹک رہے ہوں اور کہیں کوئی ایسا سیارہ دکھائی دے جائے جس پر زندگی ممکن ہو تو آپ کی کیا حالت ہوگی؟ آپ خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے۔ جس کی تلاش تھی وہ چیز آپ کو مل گئی اور کیا چاہیے؟ اب ذرا سوچیے کہ ہم جس مفروضے کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں کیا ویسا ہو نہیں چکا؟ آپ کہاں رہتے ہیں؟ اِسی دنیا میں! یہ دنیا کیا ہے؟ نظامِ شمسی کا ایک سیارہ ہے۔ کیا یہاں زندگی پنپ نہیں رہی؟ بہت عمدگی سے پنپ رہی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے، اور ایسا ہی ہے، تو پھر کہیں اور زندگی تلاش کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ چلئے، جنہیں کہیں اور زندگی تلاش کرنی ہے وہ تلاش کرتے پھریں، آپ کیوں پریشان اور ہلکان ہوئے جا رہے ہیں؟ آپ کو اس بات پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ کو ایک ایسے سیارے پر زندگی عطا کی گئی ہے جو کسی بھی انسان کو مطلوب ہر قسم کے تمام وسائل سے مالا مال ہے۔ دنیا بھر کے ماہرینِ ہیئت زندگی کے امکان سے مزیّن جو سیارہ یا ستارہ تلاش کر رہے ہیں وہ زمین کی شکل میں ہمیں بخوبی میسر ہے۔ زندگی کی تلاش کا مسئلہ تو حل ہوا۔ اب کیا کِیا جائے؟
جی! اب صرف اظہارِ تشکّر کی گنجائش ہے۔ قدرت نے ہمیں روئے ارض پر جو زندگی عطا فرمائی ہے وہ ہر اعتبار سے اس قابل ہے کہ قدم قدم پر اُس کا شکر ادا کیا جائے۔ زندگی کے تمام مطلوب لوازم بھی ہمیں میسر ہیں۔ اِس نعمتِ عالی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے، کم ہے۔ زندگی سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ اور اس کے لیے جو شکر ہمیں ادا کرنا ہے وہ شکر کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ بندہ جو کچھ بھی پاچکا ہے اُس پر شکر گزار رہے۔ یہ شکر گزاری ہی مزید نعمتوں کی راہ ہموار کرتی ہے۔
کیا ہم زندگی کا حق ادا کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہیں؟ زندگی کا حق تو کوئی بھی ادا نہیں کرسکتا، بلکہ قدرت کی کسی بھی نعمت کا حق کوئی ادا نہیں کر سکتا۔ اور پھر زندگی؟ یہ تو، دنیا کی حد تک‘ نعمتِ عظیم ہے۔ اِس کا حق ادا کرنے کا دعویٰ بھلا کون کرسکتا ہے؟ ہم خدا کا شکر ادا کرنے کی صرف کوشش کر سکتے ہیں اور یہ کوشش کرنی ہی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کو وہی بندے محبوب ہیں جو اُس کی ہر نعمت کا شکر ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِسی کو ہر رنگ میں راضی برضا رہنا کہتے ہیں۔ قدرت کی کوئی بھی نعمت نہ تو نظر انداز کی جاسکتی ہے اور نہ ہی وہ ایسی ہوتی ہے کہ مستفید ہونے پر بھی اس کا شکر ادا نہ کیا جائے۔
زندگی کے بارے میں ہماری عمومی رائے خاصی سطحی ہوتی ہے۔ ہم اس عظیم نعمت کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ قدرت نے زندگی کے ساتھ جو بھی نعمتیں عطا کی ہیں وہ بھی ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہیں یعنی گھر کی مرغی دال برابر۔ ہم زندگی بھر صرف اور صرف مسائل کا رونا روتے رہتے ہیں۔ وسائل کے بارے میں سوچنے کی توفیق کم ہی لوگوں کو میسر ہو پاتی ہے۔ قدرت نے تمام مسائل کے ساتھ ساتھ اُن کے حل کے وسائل بھی عطا فرمائے ہیں۔ دنیا میں ایسی کوئی بیماری نہیں جس کی دوا نہ ہو اور ایسا کوئی مسئلہ نہیں جس کا حل ممکن نہ ہو۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم کسی مسئلے کو حل کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہیں یا نہیں اور اُس حل کے لیے مطلوب وسائل تلاش کرنے کا عزم اور نیت ہے یا نہیں۔
شکر گزاری کا جذبہ پروان نہ چڑھنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ آج ہم کم و بیش ہر معاملے میں دنیا اور حالات کا شکوہ کرتے رہتے ہیں اور کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ جو کچھ ہمیں میسر ہے وہ بہت سوں کو میسر نہیں۔ یہ دنیا سب کو مواقع عطا کرتی ہے۔ زندگی کا کھیل اِسی طور جاری رہتا ہے۔ جن معاملات کو ہم مسائل سمجھتے ہیں اُن کی تہہ میں ہمارے لیے چند ایک مواقع بھی ہوتے ہیں۔ جو لوگ دیکھنے والی نظر رکھتے ہیں اُن سے مواقع کی شناخت میں غلطی ہوتی ہے نہ تاخیر۔ ہر موقع ہمیں اُسی وقت کچھ دے سکتا ہے جب ہم اُس سے درست وقت پر فائدہ اٹھائیں۔ وقت تو اہم ہے ہی‘ ٹائمنگ بھی کم اہم نہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کب کیا کرنا ہے اور کس طور کرنا ہے۔ کوئی بھی اچھا موقع ہمیں بہت کچھ دے سکتا ہے مگر صرف اُس وقت جب ہم اُس سے مستفید ہونے کا ہنر جانتے ہوں، ہمیں معلوم ہو کہ اُس سے کس طور زیادہ استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اِس کی ایک اچھی صورت تو یہ ہے کہ ہم کسی موقع سے استفادہ کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ دوسرے یہ کہ اس معاملے میں خاصے تحمل سے کام لینا پڑتا ہے۔ کسی بھی موقع سے پلک جھپکتے میں استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہر کام مکمل ہونے کے لیے کچھ وقت مانگتا ہے۔ فضول عجلت پسندی انسان کو مطلوب نتائج سے دور کر دیتی ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ بہت سے نتائج راتوں رات چاہتے ہیں۔ اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور اپنے معاملات کو بہت تیزی سے طے کریں، جو کچھ پانے کی خواہش ہے وہ تیزی سے مل جائے۔ ایسا ہر معاملے میں نہیں ہوسکتا۔ کوئی بھی معاملہ ہم سے توجہ بھی چاہتا ہے اور تحمل بھی۔ منصوبہ سازی جامع ہونی چاہیے۔ لازم ہے کہ ہم اپنی صلاحیت و سکت کو بطریقِ احسن بروئے کار لائیں۔ کہیں بھی کوئی خامی یا کمزور رہ جائے تو تمام متعلقہ معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
عام آدمی کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ زندہ تو ہے مگر زندگی سے ہم کنار نہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ زندگی کو عمومی سطح پر بوجھ سمجھتا ہے۔ قدم قدم پر الجھنوں کا سامنا ہے اور وہ ہر الجھن کو زندگی کا سب سے بڑا سمجھنے کی ذہنیت میں جکڑا ہوا ہے۔ ہر الجھن اس قابل نہیں ہوتی کہ اُس پر زیادہ توجہ دی جائے اور اُس کے غم میں گُھل کر باقی معاملات کو بگاڑ لیا جائے۔ کوئی بھی مسئلہ حل کرنے کے لیے ہوتا ہے، محض پریشان ہونے کے لیے نہیں۔ ہر الجھن ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ اُسے سلجھانے پر متوجہ ہوں نہ کہ اُسے روگ بناکر ذہن کو مزید الجھنوں سے دوچار کریں۔
عمومی سطح پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زندگی کو بوجھ سمجھنے کی صورت میں ہم وہ بھی نہیں کر پاتے جو ہم بخوبی کرسکتے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ عمر کا بڑا حصہ گِلے شکوے کرنے میں گزر جاتا ہے۔ ذہنوں میں یہ تصور یا تو بس گیا ہے یا پھر ٹھونکا گیا ہے کہ زندگی کسی کے لیے آسان نہیں، اِس میں الجھنیں ہی الجھنیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے! زندگی اپنی اصل میں آسان ہے نہ مشکل۔ یہ تو وہی ہوتی ہے جو ہم اِسے بناتے ہیں۔ ہم اپنی خوبیوں کے ذریعے اِسے سنوارتے ہیں اور خامیوں کے ذریعے اِس کی الجھنوں میں اضافہ کرتے ہیں۔
ہم زندگی کو کیا سمجھیں؟ بوجھ یا نعمت؟ اِس کا مدار بہت حد تک تربیت پر ہے۔ جن گھرانوں میں خدا کا شکر ادا کرنے کی ذہنیت نمایاں ہوں اور گھرانے کے ساتھ ساتھ خاندان کے بزرگ بھی بچوں کی تربیت میں دلچسپی لیتے ہوں، اُن پر متوجہ رہیں تو چھوٹی عمر سے شکر گزاری مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ ایسی حالت میں انسان زندگی کو کسی بھی اعتبار سے بوجھ نہیں سمجھتا بلکہ ہر مشکل کو خدا کی طرف سے آزمائش سمجھ کر قبول کرتا ہے اور اُس سے نپٹنے کے لیے وہ سب کچھ کرتا ہے جو کرنا ہی چاہیے۔ زندگی کا حقیقی لطف اُسی وقت محسوس کیا جاسکتا ہے جب اُس کے بارے میں منفی طرزِ فکر اپنانے سے گریز کرتے ہوئے ہر معاملے کو حقیقت پسندی کی عینک لگاکر دیکھیں۔ مثبت سوچ اُسی وقت پنپتی ہے جب ہم حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔