"MIK" (space) message & send to 7575

زمانے کی تفہیم کا پہلا نمبر

اگر کوئی سمجھنے کے لیے رضامند ہو تو بہت کچھ ہے جو سمجھنا پڑتا ہے اور یوں زندگی کا معیار بلند کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں قدم قدم پر ایسی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا سمجھنا لازم ہوتا ہے۔ چند ایک امور کو ہم اس لیے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اُن کا ہمارے معاملات سے کچھ خاص تعلق نہیں ہوتا۔ یہاں تک تو معاملہ درست ہے مگر مشکل ہے کہ غیر متعلق امور کو نظر انداز کرنے کے عمل میں ہم اپنے بہت سے متعلق امور کو بھی نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ یہ غلطی متواتر ہو تو خطرناک شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔
کسی بھی انسان کے لیے حقیقی کامیابی کی راہ اُسی وقت ہموار ہوتی ہے جب وہ اپنے زمانے کو سمجھنے کی محض کوشش نہیں کرتا بلکہ سمجھنے میں کامیابی بھی یقینی بناتا ہے۔ ہر عہد کے اپنے مسائل اور پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ اُس عہد کی شناخت میں شامل ہوتا ہے۔ ہر عہد چند ایک خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ خصوصیات مثبت بھی ہوتی ہیں اور منفی بھی۔ ہر عہد کے انسان نے اپنے مسائل اور پیچیدگیوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی صورت ہی میں کچھ کرنے کی گنجائش پیدا کی ہے۔ زمانے کی روش کو سمجھنا اس لیے ناگزیر ہے کہ ایسا کرنے کی صورت ہی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اب کیا کِیا جائے۔ ہر زمانہ گزرے ہوئے تمام زمانوں سے‘ مختلف معاملات میں‘ بہت جدا ہوتا ہے۔ چند ایک معاملات میں مماثلت ضرور پائی جاسکتی ہے؛ تاہم تمام امور میں دو زمانوں کا یکساں یا بالکل مماثل ہونا ممکن نہیں۔ ہاں‘ مجموعی روش یعنی تحرک کی سطح کے معاملے میں بعض زمانے ایک دوسرے کے مماثل دکھائی دیتے ہیں؛ تاہم مجموعی طور پر اُن میں خاصا فرق پایا جاتا ہے۔ ہر زمانہ کچھ نہ کچھ ایسا دے جاتا ہے جو گزرے ہوئے کسی زمانے نے نہیں دیا ہوتا۔
ہم اپنے زمانے ہی کو بغور دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا کوئی زمانہ گزرا ہی نہیں۔ گزرے ہوئے کسی بھی زمانے میں ایسی اور اِتنی تیزی واقع نہیں ہوئی۔ ہر عہد اپنے ساتھ ساتھ کچھ جدت لاتا ہے اور اُس جدت کی بدولت بہت کچھ دے جاتا ہے مگر آج کا زمانہ اس معاملے میں بہت آگے ہے۔ گزرے ہوئے کسی بھی زمانے نے وہ سب کچھ نہیں دیا جو آج کے زمانے نے دیا ہے۔ ایجادات و اختراعات کے اعتبار سے کم و بیش ڈیڑھ صدی کا عرصہ انقلاب آور ثابت ہوا ہے۔ اس دوران سبھی کچھ بالکل بدل گیا ہے۔ ڈیڑھ‘ پونے دو صدی پہلے کی دنیا کیا تھی اِس کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے کیونکہ اُس دنیا کا نام و نشان ہی باقی نہیں رہا۔ ہر عہد کے انسان کے لیے اُس عہد یا زمانے کی تفہیم سب سے بڑا مسئلہ رہی ہے۔ تفہیم یعنی زمانے کو اُس کی تمام باریکیوں اور جزئیات کے ساتھ سمجھنا۔ زمانے کو سمجھے بغیر اُس سے ہم آہنگ رہنا اور اُس سے پوری طرح استفادہ کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ اپنے عہد کے مسائل اور امکانات کے بارے میں زیادہ غور نہیں کرتے۔ جب غور ہی نہیں کریں گے تو سمجھیں گے کیسے اور سمجھیں گے نہیں تو اُن سے مستفید کیونکر ہوسکیں گے؟
کیا زمانے کی تفہیم ناگزیر ہے؟ یقینا کیونکہ ایسا نہ کرنے کے نتائج سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ کسی بھی زمانے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے گزرے ہوئے زمانوں کی دانش سے صرف تحریک حاصل کی جاسکتی ہے، اُس دانش کا جوں کا توں اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔ ہر عہد کو اپنی دانش پیدا کرنا پڑتی ہے۔ ہر عہد کا انسان اپنے مخصوص حالات سے مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل اختیار کرتا ہے۔ ایسا کرنا ناگزیر ہے کیونکہ غلطی کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے جو طرزِ فکر و عمل اپنائی گئی تھی وہ پوری کی پوری ہمارے کام کی نہیں ہوتی۔ اُس سے اکتسابِ فیض کیا جاسکتا ہے، محض نقّالی پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ زمانے کی تفہیم کا تصور بہت وسیع ہے۔ اپنے عہد کی طرزِ فکر کو سمجھنا بھی لازم ہے اور مختلف معاملات میں اپنائی جانے والی طرزِ عمل کو بھی۔ رجحانات پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ معاشی اور معاشرتی زندگی کے فرق کو اچھی طرح سمجھنا ہوتا ہے۔ ریاستی اور حکومتی ڈھانچے اور اُس کی کارکردگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھنا پڑتا ہے کہ حکومتیں کیا کر رہی ہیں، کیا چاہتی ہیں، بڑے کاروباری ادارے کس طور پورے معاشرے پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور بڑی شخصیات اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر رہی ہیں۔ زمانے کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرنے والے تمام عناصر کو سمجھنا پڑتا ہے۔ یہ تفہیم ہی انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بناتی ہے۔ کیریئر کے انتخاب سے معاشرتی معاملات کی درستی تک سبھی کچھ عہد کی تفہیم سے مشروط و مربوط ہے۔
کیا ہم منفرد زمانے میں جی رہے ہیں؟ ہر زمانہ منفرد ہی ہوتا ہے تو پھر پھر ہم اپنے زمانے کو خصوصی طور پر منفرد قرار کیوں دیں؟ اس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہم جس عہد میں زندہ ہیں وہ گزرے ہوئے تمام زمانوں سے مختلف اور منفرد ہے۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ گزرا ہوا ہر دور اپنے سے پہلے کے زمانوں سے الگ اور منفرد ہی تھا مگر آج معاملہ زیادہ خصوصی اور پیچیدہ اس لیے ہے کہ ہم گزرے ہوئے تمام ادوار کے علم و فن کے مجموعے کے ساتھ جی رہے ہیں۔ انسان نے ڈھائی‘ تین ہزار سال کے عمل میں مادّی سطح پر جو کچھ بھی پایا ہے، ایجاد کیا ہے، اختراع کیا ہے وہ ایک مکمل پیکیج کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ آج ٹیکنالوجی کا شاہکار سمجھی جانے والی ہر چیز ہر انسان کی دسترس میں ہے۔ جس کی جیب اجازت دے وہ سبھی کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نئی ایجادات جس طور کسی ارب پتی کے گھر میں استعمال ہو رہی ہیں بالکل اُسی طور عام آدمی کے گھر میں بھی مستعمل ہیں۔ اس اعتبار سے یہ زمانہ بہت منفرد ہے۔ اور ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ گزرے ہوئے زمانوں میں جب کچھ نیا آتا تھا تو پرانا بالکل ختم یا ناپید نہیں ہو جاتا تھا۔ کوئی ایجاد پچھلی بہت سی ایجادات یا اشیا و خدمات کو یکسر ختم کرکے دم نہیں لیتی تھیں۔ آج معاملہ بہت مختلف بلکہ خطرناک حد تک منفرد ہے۔ فی زمانہ ایسا بہت کچھ سامنے آچکا ہے جس کے باعث گزرے ہوئے زمانوں کی درجنوں یا سینکڑوں اشیا و خدمات غائب ہوچکی ہیں۔ مشینیں ہماری زندگی پر حاوی ہوچکی ہیں۔ کمپیوٹرز اور ہینڈ گیجٹ کی شکل میں بہت کچھ ہماری زندگی میں یوں آیا ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں کی بہت سی نشانیاں مٹ چکی ہیں۔ ایسے میں انسان کو بسا اوقات یہ احساس ستاتا ہے کہ وہ اپنے ماضی سے الگ تھلگ پڑ گیا ہے‘ کٹ کر رہ گیا ہے۔
آج کے انسان کے لیے اپنے عہد کو سمجھنا زیادہ دشوار اور زیادہ ضروری ہے۔ یہ پیچیدہ دور ہے اور اِس کی پیچیدگی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ایسے میں فکر و نظر کا معاملہ چیلنج بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ اگر کوئی متوجہ نہ ہو تو دیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ بدل جاتا ہے اور معاملات سمجھ میں نہیں آتے۔ جو لوگ اِس دور کو سمجھنے کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں اُنہیں بھی قدم قدم پر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں بیشتر کا یہ حال ہے کہ چند قدم چل کر ہمت ہارنے لگتے ہیں اور مزید تھوڑی دور چل کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ انتہائی حوصلہ شکن ہے مگر حیرت انگیز نہیں۔ یہ دور ہے ہی اِتنا پیچیدہ کہ کسی بھی انسان کے لیے اِسے مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔ ایک طرف تو تیزی ہے جو انسان کو چکرا دیتی ہے اور دوسری طرف حجم بھی کم درجے کا دردِ سر نہیں۔ دنیا بہت الجھ چکی ہے۔ ہر طرف تبدیلیوں کا بازار گرم ہے۔ بہت کچھ دیکھتے ہی دیکھتے تبدیل ہو جاتا ہے اور ہم سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ آخر ہوا تو کیا ہوا۔ ایسے میں کسی بھی انسان کو زمانے کی تفہیم میں ناکام رہنے پر موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
جنہیں کچھ کرنا ہے، کچھ پانے کی تمنا ہے اُنہیں اِس میلے میں گم ہو رہنے کے بجائے اِسے سمجھنے پر متوجہ ہونا ہی پڑے گا۔ جب یہ میلہ سمجھ میں نہیں آئے گا تب تک اِس کی رنگینیوں سے بھرپور طور پر محظوظ بھی نہیں ہوا جاسکے گا۔ اس نکتے کو نظر انداز کرنا محض خسارے کا موجب ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں