معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ عام آدمی کیلئے اپنی ضرورت کے مطابق کمانا انتہائی دشوار ہو چکا ہے۔ کاروباری ماحول انتہائی مضمحل اور بجھا بجھا سا ہے۔ لوگ کہیں بھی‘ کسی بھی کام میں سرمایہ کاری کرتے ڈر رہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون سا کام کیا جائے‘ کس طور اپنے سرمائے کا تحفظ اور منافع کا حصول یقینی بنایا جائے۔ یہ کیفیت ہمارے لیے نئی یا انوکھی نہیں۔ ہم کم و بیش پانچ عشروں سے ایسی ہی کیفیت کا شکار ہیں‘ البتہ معاشی مشکلات کے اسباب مختلف رہے ہیں۔ 1970ء کے عشرے میں جب لوگوں نے سنہرا مستقبل یقینی بنانے کیلئے بیرونی ممالک کا رُخ کیا تب ملک میں تھوڑی خوشحالی آئی۔ بیرونِِ ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم (ترسیلاتِ زر) سے ایک طرف تو قومی خزانہ مستحکم ہوا اور دوسری طرف ان کے اہلِ خانہ اور رشتہ دار قابلِ رشک انداز سے زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکے۔ اس دور میں دبئی چلو کا ٹرینڈ چلا۔ پاکستانیوں سمیت جنوبی ایشیا کے افراد نے دبئی بھر دیا۔
خیر‘ بات ہو رہی تھی قومی معاشی مسائل کی۔ غیرمقیم پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم کے باوجود قومی معیشت کو زیادہ مستحکم رکھنا کبھی ممکن نہیں رہا کیونکہ اس حوالے سے کبھی سنجیدگی سے منصوبہ سازی کی ہی نہیں گئی اور ظاہر ہے‘ اقدامات بھی نیم دلانہ رہے ہیں۔ پاکستانی معیشت جس انداز سے کام کرتی ہے اسے دیکھ کر دنیا حیران کیوں نہ ہو؟ دنیا میں چاہے کچھ بھی چل رہا ہو‘ ہمارے ہاں معاملات کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ جن حالات میں سٹاک مارکیٹ کریش ہو جاتی ہے‘ ان حالات میں ہمارے ہاں سٹاک مارکیٹ ریکارڈ تیزی دکھانے پر تُلی رہتی ہے اور کبھی کبھی معمولی باتیں بھی سٹاک مارکیٹ پر اثر انداز ہو جاتی ہیں! یہ سب کچھ بہت حیرت انگیز ہے مگر کیا کیجئے کہ ہم ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔
کبھی کبھی کسی معاشرے میں بعض غلط باتیں پنپنے کے بعد اسے نقصان سے دوچار کرتی رہتی ہیں‘ تاہم کبھی کبھی فائدہ بھی پہنچاتی ہیں۔ ہمارا بھی کچھ ایسا ہی کیس ہے۔ ہمارے ہاں قانون کو ہر معاملے میں اولیت دینے کا رجحان انتہائی کمزور رہا ہے۔ یہ بہت بری بات ہے کیونکہ قانون کی عملداری کو اہمیت نہ دینے سے خرابیاں بڑھتی ہیں۔ بعض معاملات میں قانون کو اولیت نہ دینے کا رجحان معاملات کو چلتا رکھنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ کرپشن اپنے آپ میں بہت بری چیز سہی مگر کبھی کبھی یہ کھوٹا سِکہ بھی کچھ نہ کچھ دے ہی جاتا ہے۔ لاقانونیت کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد امین ''محبانِ خاکسار‘‘ میں سے ہیں۔ انہوں نے معیشت کے حوالے سے ایک منفرد رائے تھوڑے سے تیکھے اور تیز انداز سے بیان کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری معیشت کبھی ناکامی سے دوچار نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم ایڈجسٹمنٹ کے عادی ہیں۔ دنیا بھر میں معیشتوں کیلئے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں‘ ہمارے ہاں بھی ایسا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہمیں معاشی معاملات کو چلتا رکھنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ وہ اس کی توضیح یوں کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں معاملات سیلف ایڈجسٹمنٹ موڈ (mode) میں رہے ہیں۔ بیشتر معاملات پر حکومت کا تصرف کچھ زیادہ نہیں رہا۔ معاشی معاملات میں بھی حکومت حتمی نوعیت کا تصرف نہیں رکھتی۔ حکومت نے بیشتر معاملات میں چشم پوشی کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ عام آدمی بہت سے فیصلے خود کر لیتا ہے۔ حکومت کو آگے بڑھ کر اس کی رہنمائی کرنا پڑتی ہے نہ ساتھ دینا پڑتا ہے۔ اب اسی بات کو لیجئے کہ جب دنیا بھر میں مہنگائی بڑھتی ہے تب لوگ دہائی دینے لگتے ہیں۔ ایسا اسلئے ہوتا ہے کہ بیشتر معاملات حکومت طے کرتی ہے۔ اشیا و خدمات کی قیمتیں اور معاوضے حکومت کی مرضی اور میکانزم کے تحت طے کیے جاتے ہیں۔ بیشتر حکومتیں چاہتی ہیں کہ اشیاء کی قیمتیں اور خدمات کے معاوضے بے لگام نہ رہیں۔ اس کی ایک ہی صورت ہے‘ یہ کہ سب کچھ ایک مضبوط میکانزم کے تحت ہو یعنی کوئی من مانی نہ کرے۔ مضبوط معیشتوں میں حکومت کو زیادہ سوچنا نہیں پڑتا۔ لوگ قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور معاشی معاملات میں بھی اسی راہ پر گامزن رہتے ہیں جو حکومت طے کرتی ہے۔
پسماندہ ممالک میں قیمتوں‘ معاوضوں اور اجرتوں کے تعین کا میکانزم زیادہ جاندار اور معقول نہیں ہوتا۔ حکومتیں ڈھیلے ڈھالے نظام کے تحت کام کرتی ہیں۔ عوام کو بہت سے معاملات میں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قانون کی پاس داری نہ کرنے والوں کو رعایت دی جاتی ہے تاکہ وہ احتجاج کی راہ پر گامزن ہوکر حکومت یا ریاستی نظم کیلئے کوئی بڑی مصیبت کھڑی نہ کریں۔ پاکستان بھی ایک ایسا پسماندہ معاشرہ ہے جس میں لوگ بہت کچھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے شرماتے ہیں نہ گھبراتے ہیں۔ اور حکومت اس رجحان سے بہت خوش رہتی ہے کہ لوگ اپنے مسائل خود حل کرتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ جب دنیا بھر میں کساد بازاری پھیل رہی ہوتی ہے ‘تب بھی ہمارے ہاں زیادہ مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر خالد امین کا استدلال ہے کہ جب بھی ہمارے ہاں پٹرولیم مصنوعات یا بجلی‘ گیس وغیرہ کی قیمتیں بڑھتی ہیں تب مہنگائی کی لہر سی آتی ہے اور یہ بالکل فطری امر ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کی معقول حکمتِ عملی حکومت کو تیار کرنا ہوتی ہے اور اسے بروئے کار لاکر عوام کی مشکلات معقول حد تک دور کرنا بھی حکومت ہی کا کام ہوا کرتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ کام عوام پر چھوڑ دیا گیا ہے اور عوام نے یہ کام اس طور سنبھال رکھا ہے کہ دنیا دیکھے تو رشک کرے اور ہم سے سیکھنے پر بضد ہو!
پاکستان کو معاشی الجھنوں کے ہاتھوں رونما ہونیوالی تباہی سے دو عوامل نے بچا رکھا ہے۔ ایک تو یہ کہ لوگ سیلف ایڈجسٹمنٹ کے اصول پر عمل پیرا رہتے ہوئے اشیا کی قیمتیں اور خدمات کے معاوضے خود ہی بڑھا لیا کرتے ہیں تاکہ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ جب پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں تو بہت سی اشیا کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ ایسے میں سبھی اپنے اپنے معاوضے اور قیمتیں بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ''سیلف ایڈجسٹنگ اکانامی‘‘ یعنی ایسا نظامِ معیشت جس میں حکومت ایک طرف کھڑی تماشا دیکھتی ہے اور لوگ اپنی اپنی سہولت کے مطابق قیمتیں اور معاوضے بڑھا لیتے ہیں۔ شکایت کی زیادہ گنجائش اس لیے نہیں کہ غالب اکثریت ایسا ہی کر رہی ہوتی ہے۔ ہاں، ایک قباحت ضرور ہے ‘ یہ کہ تنخواہ دار طبقہ بے چارا مارا جاتا ہے۔ اس کے معاوضے میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اپنا معاوضہ تو وہ لوگ بڑھا لیتے ہیں جو نوکری نہیں کرتے بلکہ اپنے طور پر معاشی سرگرمی جاری رکھتے ہیں۔ اسے سیلف ایمپلائمنٹ کہتے ہیں۔ جب پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھنے سے مہنگائی کی نئی لہر آتی ہے تو سبزی والا سبزیوں کے‘ پھل والا پھلوں کے‘ پنکچر والا پنکچر لگانے کے‘ درزی سِلائی کے‘ چائے والا چائے کے‘کھانے والا کھانے کے ... غرض جو بھی جو کچھ بیچ رہا ہوتا ہے اس کے دام بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں مہنگائی کا رونا کون اور کیوں روئے‘ سوائے تنخواہ دار طبقے کے؟
لوگوں کو مہنگائی کے شدید منفی اثرات سے بچانے والا دوسرا عامل ہے صرف کا انتہائی رجحان۔ پاکستانی معاشرہ شروع ہی سے صرف کے غیرمعمولی رجحان کا حامل رہا ہے۔ لوگ بچت کے زیادہ عادی کبھی نہیں رہے۔ ہمارے ہاں زر تھوڑی دیر کیلئے ہی پاس رہتا ہے۔ اس کی گردش بہت تیز ہے۔ لوگ اپنی کمائی خاصی تیزی سے صرف کرنے کے عادی رہے ہیں اور اب یہ عادت بہت پختہ ہو چکی ہے۔ یہ عادت کیونکر پروان چڑھی؟ اس حوالے سے توجیہات پر بحث ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے بالکل شروع سے لوگوں میں یہ سوچ پروان چڑھی ہو کہ زر کو زیادہ دیر اپنے پاس رکھنا یوں نقصان دہ ہے کہ ایک طرف تو اشیا کی قیمتیں اور خدمات کے معاوضے بڑھتے رہتے ہیں اور دوسری طرف تجوری یا لاکر میں پڑے پڑے زر انڈے تو دیتا نہیں۔ یہ گویا اضافی نقصان ہوا۔ سیلف ایڈجسٹمنٹ اچھی چیز ہے مگر ایک خاص حد تک۔ حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے سے متعلق پالیسی میں سنجیدگی کا تناسب بڑھانا چاہیے۔ جو لوگ معیشت کے ڈاکیومینٹیڈ پورشن کا حصہ ہیں ان کی حق تلفی تو بہر حال ہو ہی رہی ہے۔ یہ حق تلفی روکنا حکومت کے معیشتی نظم کی ذمہ داری ہے۔