کون ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اُسے کسی غم نے کبھی نہیں گھیرا، کسی پریشانی نے کبھی نہیں ستایا یا کسی فکر نے کبھی جان نہیں کھائی؟ جب تک دَم میں دم ہے تب تک وہ سب کچھ ہماری زندگی کا حصہ ہے جو اِس دنیا کا حصہ ہے۔ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ ہم سب پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ اس قدر فطری امر ہے کہ لوگ اِس کے بارے میں سوچنے کی زحمت سے چھوٹے رہتے ہیں۔ جب کوئی معاملہ زندگی بھر کا ہوتا ہے تب اُس کے بارے میں زیادہ سوچا نہیں جاتا۔ کیا کوئی ایسی صورت نکل سکتی ہے کہ انسان اپنے تمام تفکرات کو ہنس کر جھیل سکے؟ ایسا ایک خاص حد تک ممکن ہے۔ غم زندگی کا حصہ ہیں۔ طرح طرح کی پریشانیاں نمودار ہوتی رہتی ہیں۔ مسائل کا تو کام ہی یہ ہے کہ اُبھرتے رہیں اور پنپ کر انسان کو ستاتے رہیں۔ دنیا اِسی طور چلتی رہے گی۔ کسی بھی انسان کے لیے مسائل سے مکمل نجات ممکن نہیں۔ جب تک دنیا ہے‘ اس میں آباد انسانوں کے فکر و عمل کے نتیجے میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں گی۔ بعض تبدیلیاں مثبت ہوں گی اور بعض منفی۔ ہمیں ہر منفی معاملے کی زد میں آنے سے محفوظ رہنا ہے۔ یہ کام خود بخود نہیں ہوسکتا، کرنا پڑتا ہے۔ پریشانیوں سے محفوظ رہنے کی معقول ترین صورت تلاش کرتے رہنا بھی ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے۔ توجہ نہ دینے پر رائی جیسا معاملہ پہاڑ بننے میں دیر نہیں لگاتا۔ ہمارے بیشتر مسائل ابھرتے یا نمودار ہوتے وقت اُتنے بڑے نہیں ہوتے جتنے حل کیے جانے کے وقت ہوتے ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب ہمارا تساہل ہوتا ہے یا پھر تغافل۔ کوئی بھی الجھن اس لیے نہیں ہوتی کہ اُسے تغافل و تساہل کے سرد خانے کی نذر کردیا جائے۔ ایسی صورت میں اُس کا کچھ سے کچھ ہو جانا حیرت انگیز نہیں ہونا چاہیے۔ بلی کو سامنے پاکر کبوتر آنکھیں بند کرلے تو کیا ایسا کرنے سے بلی کی شکل میں ابھرا ہوا خطرہ ختم ہو جاتا ہے؟ یقینا نہیں کیونکہ منطقی طور پر ایسا ممکن ہی نہیں۔ کوئی بھی خطرہ ہمارے لیے خطرہ نہ رہے اِس کے لیے لازم ہے کہ اُس کا سامنا کیا جائے یا اُس سے بچنے کی معقول ترین تدبیر اختیار کی جائے۔ محض آنکھیں بند کرنے یا نظر انداز کرنے سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا، کوئی بھی خطرہ نہیں ٹلتا۔
عمومی طور پر ہم زندگی بھر اپنے آپ کو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ مسائل سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، کسی بھی الجھن سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اپنے آپ کو یہ یقین دلانا بُری بات نہیں کہ مسائل سے گھبرانا نہیں چاہیے، الجھنوں سے دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اِس مرحلے سے گزرنے کے بعد ہم کیا کرتے ہیں؟ کسی بھی چھوٹے یا بڑے مسئلے کو دل پر نہ لینے، گھبرانے سے گریز کرنے کی صورت میں ہم اُس سے جان چھڑانے میں کامیاب رہتے ہیں؟ نہیں! کیونکہ یہ محض پہلا مرحلہ ہے۔ اصل مرحلہ تو مسئلے کو حل کرنے کا ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی نے 1961ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''ہم دونوں‘‘ کے لیے ایک گیت لکھا تھا جسے محمد رفیع مرحوم کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ دیو آنند پر فلمایا جانے والا یہ گیت بہت مقبول ہوا تھا۔ گیت تھا ؎
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
ہر فکر کو دھویں میں اُڑاتا چلا گیا
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
جو مل گیا اُسی کو مقدر سمجھ لیا
جو کھوگیا میں اُس کو بھلاتا چلا گیا
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اُس مقام پہ لاتا چلا گیا
گیت کے اشعار میں دم تھا‘ مقبول تو اِسے ہونا ہی تھا۔ پریشانیوں میں گھرے کسی بھی انسان کے لیے اِس سے اچھا مشورہ بھلا کیا ہوسکتا ہے کہ وہ ہر فکر کو دھویں میں اڑا دے؟ مسائل پہاڑ کی صورت سامنے کھڑے ہوں تو انسان دلاسا چاہتا ہے، اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اُس کی ڈھارس بندھائے۔ یہ خواہش فطری ہوتی ہے اس لیے ہر انسان ایسا ہی سوچتا ہے مگر کیا واقعی ہر فکر کو دھویں میں اُڑا دینا چاہیے؟ کیا ہر فکر کو دُھویں میں اُڑایا جاسکتا ہے؟ کیا ایسا کرنا منطقی اعتبار سے درست ہے؟ کیا کسی بھی انسان کے لیے بہترین حکمتِ عملی یہ ہوسکتی ہے کہ کسی بھی مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لے اور اپنی ہی مَوج میں بہتے ہوئے جس طرف بھی جی چاہے جا نکلے؟ بدیہی طور پر ایسا ممکن تو نہیں کہ مسائل محض اس بنیاد پر سنگینی کھو بیٹھیں کہ اُنہیں سنجیدگی سے لیا ہی نہ جائے۔ ایسا ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے! کم از کم اس دنیا میں تو ایسا ممکن نہیں۔ کسی اور دنیا میں ایسا ہوتا ہو تو یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ساحرؔ لدھیانوی نے یہ گیت لکھا اور خوب لکھا۔ یہ گیت انسان کو ایسی خیالی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں کسی بھی الجھن کی کچھ اہمیت نہیں۔ بے فکری پر مبنی رویہ انسان کا پسندیدہ معاملہ رہا ہے۔ سنا تو آپ نے بھی ہوگا کہ ''سوچاں نئیں تے موجاں ای موجاں‘‘۔ ہر عہد کے شعرا یہ مشورہ دیتے آئے ہیں کہ زندگی کے بارے میں بہت زیادہ سنجیدہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مشورہ بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ اس پر عمل کی صورت میں انسان جہدِ پیہم سے بچا رہتا ہے۔ بعض شعرا عام آدمی کی نفسیات سے کھیلتے ہیں یعنی خاصے دلکش پیرائے میں وہ نکات بیان کرتے ہیں جو عام آدمی کو اچھے لگتے ہیں۔ جون ایلیا کا شعر ہے ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں‘ اِتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
بادی النظر میں یہ شعر بہت دلکش ہے۔ غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر اہلِ ذوق کے جذبات سے کھیل رہا ہے۔ جو خود کو تباہ کرلے اور اِس پر ملول اور شرمندہ بھی نہ ہو اُسے محض عجیب قرار دے کر بات ٹالی نہیں جاسکتی۔ کہنا ہی چاہیے کہ وہ تو نرا احمق ہے! ساحرؔ کا گیت بھی ہر اُس انسان کو اچھا لگے گا جس نے طے کرلیا ہو کہ الجھنوں سے نجات پانے کے لیے سنجیدہ نہیں ہونا، کسی بھی سطح کی بربادی پر افسوس کرنا ہی نہیں ہے اور کسی بھی حال میں اپنے آپ کو سنبھالنے کی سمت بڑھنا ہی نہیں۔ یہ شدید لاپروائی اور بے نیازی پر مبنی رویہ انسان کو صرف تباہی سے دوچار کر سکتا ہے۔ یہ بات تو خیر ماننے والی ہے کہ مسائل کو حواس پر سوار نہیں کرنا چاہیے۔ کسی بھی الجھن کے بارے میں ہر وقت نہیں سوچنا چاہیے۔ پریشانیاں سر اُٹھاتی رہتی ہیں۔ اُنہیں سر چڑھانے کی ضرورت نہیں۔ اُن سے نپٹنے کے لیے معقول طرزِ فکر و عمل اپنائی جانی چاہیے۔ معقول طرزِ فکر و عمل کیا ہوسکتی ہے یا کیا ہونی چاہیے اِس حوالے سے مختلف آرا پائی جاسکتی ہیں۔ اِس معاملے میں اختلافِ رائے فطری امر ہے۔ کسی بھی مسئلے یا پریشانی کو حواس پر سوار کرنے سے گریز کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُس کے بارے میں سوچا ہی نہ جائے، سنجیدہ ہوا ہی نہ جائے۔
زندگی ہم سے قدم قدم پر سنجیدگی چاہتی ہے۔ ہم سنجیدہ ہوئے بغیر معیاری زندگی بسر نہیں کرسکتے۔ کوئی دولت مند ہو یا قلاش‘ خواندہ ہے یا ناخواندہ‘ اگر اُس نے سنجیدگی کو بنیادی شعار نہیں بنایا تو وہ زندگی کو کچھ نہیں دے سکتا اور زندگی کے دامن میں اُس کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ کھوکھلی خوش مزاجی یعنی کھلنڈرے پن کے ذریعے زندگی کا حق ادا کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ بہت سوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہر وقت ہنسنے ہنسانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ محض خوش مزاجی کے ہاتھوں نہیں ہوتا بلکہ اُن کی فرار پسند ذہنیت کا بھی مظہر ہوتا ہے۔ جن معاملات کو توجہ درکار ہوتی ہے اُنہیں بھی وہ تفنن اور تمسخر کی نذر کردیتے ہیں۔ اعتدال نہ ہو تو انسان اپنے وجود کی مقصدیت کھو بیٹھتا ہے۔ ہر انسان میں خوش مزاجی بھی ہونی چاہیے اور سنجیدگی بھی ہونی چاہیے مگر سب کچھ اعتدال کے ساتھ ہو تو اچھا۔ ہر وقت ہنسنا ہنسانا اور ہر معاملے کو ہنسی میں اُڑا دینا معقول رویہ نہیں۔ اِسی طور بے جا سنجیدگی بھی کسی کام کی نہیں۔ ہر معاملے کے تقاضوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے معقول اور معتدل رویہ اپنانا ہی دانش کا تقاضا ہے۔ ہر فکر کو دھویں میں اُڑانے والوں کو زندگی دھواں بناکر اُڑا دیتی ہے۔