زمانے نے ایسی کروٹ بدلی ہے کہ پسماندہ معاشرے تو الجھن کا شکار تھے ہی‘ اب ترقی یافتہ معاشروں کی بھی جان پر بن آئی ہے۔ صدیوں تک عالمی اقتدار کے مزے لوٹنے والا مغرب کہیں کہیں اپنے ہی دام میں پھنستا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف زمانے کے ہاتھوں پیدا کردہ چیلنجز ہیں اور دوسری طرف اپنے پیدا کردہ تضادات۔ اِن دو پاٹوں کے بیچ مغربی دنیا پِستی جارہی ہے اور اِس سلسلے کو روکنے کا اُس میں یارا نہیں۔ ہو بھی کیسے؟ وقت کو بھی اپنا کھیل کھیلنا ہوتا ہے۔ جو صدیوں تک ایک دنیا سے کھیلتے آئے ہیں اور جن کے ہاتھوں کئی خطوں کے درجنوں ممالک شدید تباہی سے دوچار رہے‘ اُن کے لیے بھی قدرت نے کچھ نہ کچھ اہتمام کیا ہی ہوگا۔ وہ اہتمام اب رُونمائی کی منزل میں ہے۔ امریکہ اور یورپ کے لیے یہ فیصلے بلکہ فیصلوں کی گھڑی ہے مگر وہ دونوں بضد ہیں کہ وقت کے کسی بھی اشارے یا پیغام کو نہیں سمجھیں گے اور اگر سمجھ بھی لیا تو اُس کا مان رکھتے ہوئے ایسا کچھ نہیں کریں گے جو معقولیت کے دائرے میں ہو۔ معاشرے انسانوں سے مل کر بنتے ہیں۔ جو کچھ ایک انسان کی فطرت میں پایا جاتا ہے وہی معاشروں کی روش سے بھی جھلکتا ہے۔ حکومتیں بھی انسان ہی چلاتے ہیں اور پالیسیاں بھی انسان ہی تیار کرتے ہیں۔ پھر بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ پالیسیوں سے ''انسانیت‘‘ نہ جھلکے؟ امریکہ اور یورپ کو شاندار ترقی سے ہمکنار کرکے ایک دنیا پر حکمرانی کے قابل بنانے والے بھی انسان ہی تھے، عالمگیر حکمرانی کے ذریعے دنیا بھر کے کمزور خطوں کے قدرتی وسائل غصب کرکے اپنی ترقی کا عمل تیز کرنے اور اُسے برقرار رکھنے والے بھی انسان ہی تھے اور اب‘ جب دنیا بدل رہی ہے اور وقت کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے پیچھے ہٹنے اور دوسروں کو قبول کرنے کا وقت آیا ہے‘ تب اپنی عالمگیر حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے پوری دنیا کی سلامتی کو داؤ پر لگانے کی حماقت کرنے والے بھی انسان ہی ہیں۔
ایک دنیا ہے جس نے مغرب کے ہاتھوں ہزیمت اور پستی کا سامنا کیا ہے مگر اِسی دنیا نے مغرب سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔ جو معاشرے مادّی اعتبار سے بہت مضبوط ہوتے ہیں وہ جن معاشروں کو زیرِتصرّف رکھتے ہیں اُنہی معاشروں کو بہت کچھ دیتے اور سکھاتے بھی ہیں۔ مغربی دنیا نے بھی جہاں جہاں ظلم کا بازار گرم کیا ہے وہاں‘ نہ چاہتے ہوئے بھی‘ کچھ نہ کچھ دیا ہے۔ کمزوریوں کے باعث مغرب کے ہاتھوں محکومیت برداشت کرنے والے معاشروں کے لیے ترقی یافتہ مغربی معاشرے مثالی رہے ہیں یعنی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی اُن کی مادّی ترقی سے پسماندہ دنیا کے کروڑوں ذہن متاثر ہوتے رہے اور کچھ نہ کچھ سیکھتے بھی رہے۔ تاریخ کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی کیفیت مستقل نوعیت کی نہیں ہوتی۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا پر حکومت کرنے والے خطے بدلتے رہے ہیں۔ کسی زمانے میں یونان اور روم دنیا پر حکومت کرنے کی پوزیشن میں تھے اور اِس پوزیشن کا اُنہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اُن کے بعد مغرب کی چند دیگر اقوام نے اپنی اپنی حدود سے باہر نکل کر ایک دنیا کو مٹھی میں لینے کی تیاری کی اور اُنہیں بھی بہت کچھ ملا۔ برطانیہ، پرتگال، سپین اور فرانس نے افریقہ اور ایشیا میں متعدد ممالک کو اپنی مٹھی میں لے کر اُنہیں نوآبادیوں میں تبدیل کیا۔ یہ غلامی ہی تھی جسے نئے الفاظ کا جامہ پہناکر قابلِ قبول بنانے کی کوشش کی گئی۔ اِن سب سے بہت پہلے فارس (ایران) بھی عالمگیر قوت رہ چکا تھا۔ اسلام کی آمد کے وقت فارس اور روم سپر پاور تھے۔ اور اِن سے پہلے چین نے سپر پاور کی حیثیت سے ایک طویل مدت گزاری تھی۔ برصغیر کے لوگ اپنی جغرافیائی حدود سے باہر قدم نہیں رکھتے تھے؛ تاہم یہ ماننا پڑے گا کہ اِتنا بڑا ملک مادّی اعتبار سے بہت مضبوط تھا اور ایک دنیا اِس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر رہ پاتی تھی۔ برصغیر کے حکمرانوں نے کبھی اپنی جغرافیائی حدود سے نکل کر کسی خطے کو دبوچنے اور اُس پر اپنی تہذیب مسلط کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ تاریخ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ کسی کے لیے مستقل عروج ہے نہ زوال۔ زمانے بدلتے اور پلٹتے رہتے ہیں۔ جو اپنی پستی سے سبق سیکھتا ہے اُسے دوبارہ بلندی ملتی ہے۔ جو اپنی بلندی کے دور میں سرکشی کا مظاہرہ کرتا ہے اُسے پستی نصیب ہوکر رہتی ہے۔ تاریک زمانوں کو کسی نہ کسی طور شکست دے کر مغربی (بالخصوص یورپی) معاشروں نے جب فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیشرفت ممکن بنائی تو اپنی اپنی حدود سے نکل کر ایک دنیا کو مٹھی میں لیا اور محکوم معاشروں کے قدرتی وسائل سے اپنی شاندار ترقی اور خوشحالی کو خوب فروغ دیا۔ ظلم و ستم کا بازار صدیوں تک گرم رکھا گیا۔ اب شاید قدرت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ظلم کی گرم بازاری کو رُکنا ہی چاہیے۔
زمانہ پھر کروٹ بدل رہا ہے۔ جس طور فارس، روم اور چین کے عہدِ عروج کا خاتمہ ہوا تھا بالکل اُسی طور اب مغرب کی مکمل بالا دستی اور عروج کا دور بھی خاتمے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ تاریخ کے ریکارڈ سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب کسی سپر پاور کا عہدِ زوال شروع ہوتا ہے تو وہ مزاحمت کرتی ہے۔ مگر امریکہ اور یورپ نے تو جیسے طے کرلیا ہے کہ عروج کے بعد اب زوال کو کسی بھی حال میں قبول نہیں کرنا۔ پھر چاہے پوری دنیا کی سلامتی ہی داؤ پر کیوں نہ لگ جائے۔ کسی بھی انسان اور معاشرے کے لیے قدرت کے اصول یکساں ہوتے ہیں اور یکساں ہی رہتے ہیں۔ سوال ہارنے کا نہیں‘ ہارنے کے انداز کا ہے۔ مقابلہ یکطرفہ ہو تو تماشائی بے مزہ ہو جاتے ہیں۔ اگر مقابلے کا ہر فریق فتح کی کوشش میں اپنے آپ کو کھپادے تو شکست حتمی تجزیے میں شکست نہیں رہتی۔ فاتح کو بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ ذرا سے فرق سے کامیاب رہا ہے۔ اگر کوئی ٹیم کرکٹ کا میچ ہار جائے تو کیا اُسے پہلے مایوس اور پھر مشتعل ہوکر پچ ہی اکھاڑ دینی چاہیے، پورے میدان کا ستیاناس کردینا چاہیے؟ کوئی باکسر ہارنے کے بعد کیا ریفری اور تماشائیوں پر پِل پڑتا ہے؟ ہاکی کا میچ ہارنے والے کھلاڑی کیا اپنی ہاکیوں سے تماشائیوں کی دُھنائی کرنے لگتے ہیں؟ یقینا نہیں! تو پھر بڑی طاقتیں اپنی شکست کو ہضم کیوں نہیں کر پاتیں؟ اس وقت امریکہ اور یورپ کو عالمگیر سطح کا اقتدار ہاتھوں سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے تو شدید بدحواسی کے عالم میں وہ کھیل کا میدان ہی بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اُن کے لیے فیاض علی فیاضؔ کا مشورہ ہے ؎
اس کھیل میں اب جیت کا امکان نہیں ہے
یہ جان کی بازی ہے‘ اِسے شان سے ہارو
امریکہ کی سرکشی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ امریکی پالیسی ساز اچھی طرح جانتے ہیں کہ طاقت کے کھیل میں جیتتے رہنا اب ممکن نہیں۔ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کو چین، روس اور یورپ طاقتوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا نظام تشکیل دینا چاہیے جس میں پوری دنیا کے لیے پنپنے کی گنجائش ہو۔ پسماندہ خطوں نے صدیوں تک پریشانیاں جھیلی ہیں۔ اب اُنہیں سکون کا سانس لینے کا موقع بھی دیا جانا چاہیے۔ کئی خطے جھول رہے ہیں یعنی وہ کسی بھی طرف جاسکتے ہیں۔ مسلم ممالک اگر چین اور دیگر ایشیائی طاقتوں کی طرف جھک جائیں تو؟ امریکہ اور یورپ کے لیے یہ انتہائی نوعیت کا مرحلہ ہوگا۔ شمالی امریکہ نے جنوبی امریکہ کو دبوچ کر رکھا ہے۔ اِتنا بڑا خطہ اب تک پسماندگی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ یورپی یونین کی طرز پر متحد ہونا بھی اُن کے لیے ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ یہی حال افریقہ کا ہے جسے یورپ نے صدیوں سے پسماندہ رکھا ہے۔ یہ سلسلہ اب زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ یورپ نے چار صدیوں کے دوران اپنے لیے جو ایڈوانٹیج پیدا کیا تھا وہ اب تک برقرار ہے؛ تاہم کمزور پڑچکا ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز نے نیا ماحول پیدا کیا ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی دنیا کو ابھرنے کا موقع دیا جائے۔ امریکہ اور یورپ کو سمجھنا ہوگا کہ پوری دنیا صرف اُن کے زیرِ تصرّف نہیں رہ سکتی ہے۔ لازم ہے کہ نئے کھلاڑیوں کو بھی میدان میں اترنے دیا جائے۔