"MIK" (space) message & send to 7575

زندگی کو محدود کرنے کی دوڑ

زندگی کو محدود کرنے کے کتنے طریقے ہوسکتے ہیں؟ سوچئے بلکہ سوچتے ہی رہیے۔ آپ سوچ سوچ کر حیران اور پریشان رہ جائیں گے کہ لوگ زندگی کو محدود کرنے اور محدود رکھنے کے لیے کیا کیا کرتے ہیں! ہر طرف ایک دوڑ سی لگی ہے زندگی کو محدود کرنے کی۔ کسی بھی طبقے اور شعبے میں گنتی کے کچھ لوگ ملیں گے جن میں آپ کو زندگی کا معیار بلند کرنے اور اُسے محدود نہ رکھنے کی چاہت دکھائی دے گی۔
قدرت نے ہمیں جو سانسیں بخشی ہیں اُن کے مجموعے کا نام زندگی ہے۔ ہم زندگی کے خزانے کو جس طرح چاہیں خرچ کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے حصے کے اس خزانے سے کوئی بھی سلوک روا رکھ سکتے ہیں۔ ہمیں پورا اختیار دیا گیا ہے کہ زندگی کے خزانے کو اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق بروئے کار لائیں یا اسے ضائع کر دیں۔ یہ خزانہ دونوں ہاتھوں سے لُٹانے کے لیے یقیناً نہیں دیا گیا۔ ہم زندگی کا خزانہ جس طور خرچ کریں گے اُس کا ہم سے حساب لیا جائے گا۔ حساب کتاب کا تصور ذہن نشین رہے بلکہ یہ ایمان کا حصہ ہو تو ہی انسان ڈھنگ سے جینے پر متوجہ ہوتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں وہ کم و بیش ہر معاملے میں ایک ایک پل کو سوچ سمجھ کر، دانائی کے ساتھ بروئے کار لانے پر متوجہ رہتے ہیں۔
ہم بالعموم ایسی طرزِ زندگی اختیار کیے رہتے ہیں جس میں تعقل کا تناسب زیادہ نہیں ہوتا۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ جس معاملے کو سب سے زیادہ توجہ درکار ہوتی ہے ہم اُسی معاملے کو یکسر بے ذہنی کی نذر کرکے خوش رہتے ہیں؟ زندگی کس طور بسر کی جانی چاہیے یہ زندگی بھر کے غور و خوض کا معاملہ ہے۔ اس معاملے سے کسی بھی مرحلے پر لاپروائی نہیں برتی جاسکتی۔ بے ذہنی کو زندگی کے بنیادی چلن کے طور پر منتخب کرنے والے اس گمان میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ فائدے میں رہے۔ ایسا نہیں ہے! بے ذہنی کسی بھی اعتبار سے سُودمند نہیں۔ معاملات کے بارے میں زیادہ فکر مند رہتے ہوئے اپنے آپ کو الجھنوں کی نذر کرنا اچھا طریق نہیں۔ بالکل اِسی طور بے نیازی اور لاپروائی بھی مستحسن طرزِ فکر و عمل کی علامت نہیں۔ زندگی تعقل کے ساتھ بسر کرنا ہی بہترین دانش مندانہ طرزِ فکر و عمل ہے۔ قدرت نے ہمیں ذہن اِس لیے عطا نہیں کیا کہ اُس سے کام لینے کے معاملے میں آزاد رہیں۔ ذہن کو بروئے کار لانا اور مناسب ترین طریقے سے بروئے کار لانا فرض کے درجے میں ہے۔ قدم قدم پر خیال رہے کہ ہماری طرزِ فکر و عمل صرف اور صرف دانش سے مزین رہنی چاہیے۔
ہمیں جن باتوں کا خاص خیال رکھنا ہے اُن میں یہ بھی شامل ہے کہ کوئی بھی معاشرہ مسائل سے پاک نہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں! جہاں انسان مل جل کر رہتے ہیں وہاں مسائل کا ابھرنا اور پنپنا فطری امر ہے کیونکہ طرزِ فکر و عمل کا تضاد مسائل کی گنجائش پیدا کرتا رہتا ہے۔ ہر عہد کی زندگی مسائل سے عبارت رہی ہے۔ اس معاملے میں ہم تھوڑے سے ''بدنصیب‘‘ کہلائے جاسکتے ہیں کیونکہ فی زمانہ زندگی بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ ذرا سوچئے کہ ہمیں قدرت کی طرف سے جو عہد عطا کیا گیا ہے وہ ہے کیا۔ ہمیں ایک ایسے عہد کی تقدیر میں لکھا گیا ہے جس میں گزرے ہوئے تمام زمانوں کی الجھنیں یکجا ہوکر ہماری زندگی کو شدید پیچیدگیوں سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ انسان نے چار‘ پانچ ہزار برس کے عمل میں جو کچھ بھی سوچا اور کیا ہے وہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر آج ہمارے سامنے ہے۔ یہ کیفیت آسانیاں بھی پیدا کرتی ہے اور مشکلات بھی۔ کسی بھی انسان کے لیے اب گزرے ہوئے زمانوں سے سیکھنا زیادہ مشکل مرحلہ نہیں رہا۔ ہم ہر گزرے ہوئے عہد کی دانش سے بھی واقف ہیں اور اُس کے عملی مظاہر کے بارے میں بھی بخوبی جانتے ہیں۔ گزرے ہوئے ہر دور کے اہلِ علم و فن کی کاوشوں کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ہر بڑی تہذیب کے نمائندہ اور نمایاں کارناموں سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ کچھ سیکھ کر زندگی کا معیار بلند کرے تو اِس راہ پر بڑھنے سے اُسے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ تو ہوئی ایڈوانٹیج کی بات۔ ڈِس ایڈوانٹیج یہ ہے کہ قدم قدم پر ذہن الجھ جاتا ہے۔ چار‘ پانچ ہزار برس کے دوران دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے وہ آج ہر انسان کی فکری ساخت کا حصہ ہے۔ اِس طویل مدت میں انسانوں کے درمیان جنگیں بھی ہوتی رہی ہیں اور نظریاتی کشمکش بھی کم نہیں رہی۔ جو کچھ بھی اچھا، بُرا ہوتا آیا ہے وہ ہمارے شعور اور تحت الشعور کا حصہ ہے۔ اگر گزرے ہوئے زمانوں کی خرابیوں، مناقشوں، لڑائیوں، نظریاتی کشمکش اور کھینچا تانی کے دلدل میں دھنسنے کا آپشن اپنایا جائے تو انسان ڈھنگ سے جی نہیں سکتا۔ اگر ہم تہذیبوں کے درمیان ہونے والی ہر گزشتہ کشمکش کی بنیاد پر سوچیں تو لگی بندھی سوچ کے اسیر ہوکر رہ جائیں گے۔ جو تہذیبیں متحارب رہی ہیں اُن کے لوگ آج بھی ایک دوسرے کو دل سے قبول نہیں کر پاتے۔ تنافر کسی نہ کسی شکل میں وقفے وقفے سے ابھرتا رہتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ ماضی کا ریکارڈ ہمارے سامنے ہے۔ ہم سوچتے اور الجھتے رہتے ہیں۔
کیا ماضی کی محاذ آرائیوں اور کشمکش کی بنیاد پر آج کے دور میں اپنے لیے زیادہ امکانات تلاش کیے جاسکتے ہیں؟ ہر تعقل پسند شخص اس سوال کا جواب نفی میں دینا پسند کرے گا۔ اِس سے ہٹ کر کہا بھی کیا جاسکتا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ آج کی زندگی سر بسر چیلنج ہے۔ قدم قدم پر گزرے ہوئے زمانے زنجیروں کی طرح ہمارے پیروں سے لپٹ جاتے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانوں، اُن میں پائی جانے والی نظریاتی کشمکش، جنگوں اور منافرت کے بارے میں جو کچھ بھی ہم پڑھتے ہیں، جان پاتے ہیں وہ ہماری فکری اور نفسی ساخت کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ منفی معاملات کی طرف جھکنا انسانی مزاج کا بنیادی وصف ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں اچھائیاں بھی کم نہ تھیں۔ ایسے ہزاروں اہلِ علم و فن گزرے ہیں جنہوں نے کسی بھی اعتبار سے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر‘ بھرپور حقیقت پسندی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار صرف اِس لیے کیا کہ لوگ کچھ سیکھ سکیں‘ کچھ پاسکیں۔ ہم پر گزرے ہوئے زمانوں کے اہلِ علم و فن کے عظیم احسانات ہیں۔ اُنہوں نے صرف اپنی ذات، نسل یا معاشرے کے لیے نہیں سوچا بلکہ پوری دنیا کی بہبود کے لیے متفکر رہے اور جو کچھ بھی سوچا وہ پوری دیانت کے ساتھ قلمبند کرکے دنیا سے رخصت ہوئے۔ فطری علوم و فنون کے ماہرین اپنی زندگیاں صرف اس بات کے لیے کھپاکر دنیا سے گئے کہ دنیا کا معیار کچھ تو بلند ہو۔
آپ نے کیا سوچا ہے‘ اِس دنیا کو کچھ دینا ہے یا یہاں سے یونہی چلے جانا ہے؟ زندگی کے بارے میں آپ کی طرزِ فکر و عمل کیا ہے؟ زندگی کو آپ نے نعمت اور امانت سمجھا ہے یا محض روا روی کا معاملہ؟ ہم جو کچھ بھی ہیں اپنی طرزِ فکر و عمل کی بنیاد پر ہیں۔ کوئی اگر کچھ سیکھتا ہے تو صرف اُس وقت جب وہ یہ طے کرلیتا ہے کہ اپنی زندگی کو ڈھنگ سے بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی کچھ کرنا ہے۔ عقلِ سلیم کا دامن تھامے بغیر بسر کی جانے والی زندگی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ ہو بھی نہیں سکتی! اگر آپ نے سوچا ہے کہ زندگی کو نعمت کے طور پر برتنا ہے اور اِسے ڈھنگ سے بروئے کار لاکر اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بہبود کا بھی خیال رکھنا ہے تو آپ کی سوچ سر آنکھوں پر۔ ایک مرحلہ تو طے ہوا‘ ارادہ کرنے کا، مقصد کے تعین کا۔ اب اِس سے آگے آپ کو عملی سطح پر اپنے وجود کی معنویت ثابت کرنی ہے۔
آپ کو یہ نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رکھنا ہے کہ زندگی کو کسی بھی حال میں محدود نہیں رکھنا۔ قدرت نے ہمیں یہ نعمت اِس لیے نہیں بخشی کہ اِسے کسی بھی طرح کے پنجرے میں قید کریں۔ پنجرا سونے کا اور ہیروں جڑا ہو تب بھی وہ پنجرا ہی ہوتا ہے۔ دنیا کے سب سے مہنگے پنجرے میں بھی رکھئے تو پرندہ ناخوش ہی رہے گا۔ زندگی کو نعمت کے درجے میں رکھ کر برتنے والے اِسے محدود رکھنے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے۔ آپ کو بھی یہی کرنا ہے، زندگی کو محدود کرنے والی دوڑ میں حصہ نہیں لینا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں