ٹیکنالوجیز کی گرم بازاری تو ایسی ہے کہ سوچنے بیٹھیے تو ذہن بھی کہیں گم ہوکر رہ جائے اور پھر اُسے پانے کے لیے بھی کسی ٹیکنالوجی کا سہارا لینا پڑے! دنیا بھر میں تحقیق کی گرم بازاری ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ صنعت و حرفت کے بعد اب ہائی ٹیک کے بڑے اداروں میں تحقیق و ترقی کا شعبہ دن رات کچھ نہ کچھ نیا کرنے اور دنیا کو مزید پیچیدہ بنانے پر تُلا ہوا ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز نے انسان کا ناک میں دم کردیا ہے۔ زندگی میں زیادہ سے زیادہ آسانیاں یقینی بنانے کا عمل ہر معاملے کو مزید پیچیدہ بنانے پر تُلا ہے۔ پُرسکون زندگی بسر کرنے کے دن ہوا ہوئے۔ اب ہر طرف صرف مقابلہ رہ گیا ہے۔ جس نے مقابلہ پسند ذہنیت کو پروان نہ چڑھایا اُس کے ہاتھ کچھ نہ آسکے گا۔
ٹیکنالوجی کی گرم بازاری کے ہاتھوں مسابقت کے بڑھنے سے اس بات کی گنجائش کم ہی رہ گئی ہے کہ انسان ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھے، محظوظ ہو۔ اب اگر کسی کو محظوظ ہونا ہے تو یہ بھی سمجھ لے کہ اُس کا پیچھے رہ جانا طے ہے۔ ہر معاملہ چونکہ بھاگ دوڑ کی نذر ہوچکا ہے اس لیے قدم قدم پر یہ احساس پریشان کرتا رہتا ہے کہ اگر وقت کا ساتھ نہ دیا تو بہت دیر ہو جائے گی۔ روئے ارض نے وہ ادوار بھی دیکھے ہیں جب انسان کسی نہ کسی طور اپنے عہد سے ہم آہنگ رہنے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔ تب ایسا اس لیے ممکن تھا کہ تحقیق اور جدت و ندرت کا بازار گرم نہ تھا۔ اس کے نتیجے میں مسابقت بھی حواس باختہ کرنے والی نہ تھی۔ انسان جو کچھ بھی کرنا چاہتا تھا کسی نہ کسی طور کرہی لیتا تھا۔ تب زمانے کو سمجھنا بھی ممکن تھا اور سیکھنا بھی کچھ ایسا پیچیدہ نہ تھا۔ اب سبھی کچھ اس طور بدل گیا ہے کہ کسی بھی معاملے کا کوئی سِرا ہاتھ میں آنے کا نام نہیں لیتا۔ انسان بعض معاملات میں تو محض ٹامک ٹوئیاں مارتا رہ جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے ارد گرد نہیں بلکہ ہماری زندگی میں ہو رہا ہے۔ ٹیکنالوجیز کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اِس نے تمام ممالک کو ایک لڑی میں پرودیا ہے یعنی اب کوئی بھی ملک مقابلے کی دوڑ سے باہر نہیں۔ کہتے ہیں کوئی انسان جزیرہ نہیں ہوتا یعنی سبھی آپس میں جڑے ہوئے ہیں، کوئی بھی الگ تھلگ رہ کر زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ اب ہر ملک کا بھی ایسا ہی معاملہ ہوگیا ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے ممکن ہی نہیں کہ زمانے کے ساتھ نہ چلنے کا آپشن اپنائے اور ڈھنگ سے جی پائے۔ انتہائی دور افتادہ اور بظاہر دنیا سے کٹے ہوئے ممالک کے لوگوں کو بھی باقی دنیا کے ساتھ چلنا ہی پڑتا ہے۔ ٹیکنالوجیز کا بڑھتا ہوا استعمال کسی بھی انسان کو نہ سیکھنے اور نہ بدلنے کی گنجائش دینے کو تیار نہیں۔
مصنوعی ذہانت کی آمد نے تو جیسے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ لوگ پریشان ہیں کہ اس عفریت پر قابو کیسے پائیں۔ ہر شعبہ اِس کی زد میں ہے۔ دنیا بھر میں درجنوں پیشے معدوم ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا بڑھتا ہوا استعمال علم و فن کے ہر محاذ پر عجیب گل کھلا رہا ہے۔ میڈیا کی دنیا میں تو جیسے انقلاب برپا ہو گیا ہے۔ لکھنا بظاہر بہت آسان ہوگیا ہے۔ مشین نے انسان کو سوچنے کی زحمت سے آزاد سا کردیا ہے۔ مشینیں کئی زمانوں سے ہماری زندگی کا حصہ رہی ہیں۔ ایک‘ ڈیڑھ صدی کے دوران البتہ معاملہ زیادہ الجھ گیا ہے۔ کمپیوٹرز کو بھی ہماری زندگی میں انٹری لیے کئی عشرے ہوچلے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ٹیکنالوجی میں جدت آتی گئی اور ہم اس کے عادی ہوتے گئے، اس کی افادیت کو زندگی کا حصہ بناتے چلے گئے۔ ہاں‘ تین عشروں پہلے تک یہ عمل خاصا سست رفتار اور منظم تھا۔ سکون کا سانس لیتے ہوئے چلنا ممکن تھا۔ اب ایسی تیزی ہے کہ انسان قدم قدم پر اوروں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ سے بھی الجھ رہا ہے۔
کسی بھی ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کے لیے اُسے سمجھنا بنیادی شرط ہے۔ مصنوعی ذہانت کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکنالوجیز اور اُن کے مظاہر کے حوالے سے انتہائیں پائی جاتی رہی ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ یا تو لوگ کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کو بالکل قبول نہیں کرتے یا پھر اُسے بھرپور جوش و خروش کے ساتھ قبول تو کرتے ہیں مگر صرف تفریحی مقاصد کے لیے یا وقت کے ضیاع کی خاطر۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا بڑھتا ہوا استعمال اور غیر معمولی افادیت کا حامل ہونا ٹیکنالوجیز کی جدت ہی کی بدولت ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے انسان بہت کچھ پاسکتا ہے‘ بہت کچھ کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں سوشل میڈیا پورٹلز کو تعمیری مقاصد کے لیے خاصی افادیت اور عمدگی سے بروئے کار لایا گیا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ سوشل میڈیا کو صرف تفریح کے استعمال کر رہے ہیں یا پھر وقت ضائع کرنے کے لیے۔
انٹرنیٹ نے ہماری زندگی میں یوں انٹری دی ہے کہ بہت کچھ نکال کر پھینک دیا ہے۔ ہم سائبر سپیس میں جی رہے ہیں۔ ہر معاملہ آن لائن ہوتا جارہا ہے۔ یہ کلچر زندگی کو مضبوط بھی بنارہا ہے اور کھا بھی رہا ہے۔ آن لائن نہ رہنے کا آپشن نہیں رہا۔ بیشتر اہم ترین شعبے آن لائن کلچر کو اپناچکے ہیں۔ ایسے میں انفرادی سطح پر بھی آن لائن نہ رہنا خسارے کا سبب بن سکتا ہے اور بن رہا ہے۔ آج کی زندگی صرف مسابقت سے عبارت ہے۔ یہ مسابقت وقت کے ساتھ ہے۔ وقت کو ہرانا ہے مگر وقت کو آج تک کون ہرا پایا ہے؟ کوئی بھی نہیں... لیکن آج کی زندگی ہم سے یہی تقاضا کر رہی ہے۔ وقت کو ہم بھی ہرا نہیں سکتے مگر ہمیں میدان میں اترنا ہے اور اپنی سی کوشش کرنی ہے۔ یہ کوشش بھرپور دلجمعی کے ساتھ ہونی چاہیے، جوش و خروش ایسا ہو کہ دکھائی دے اور محسوس بھی ہو۔ وقت کو ہرانے سے تو رہے مگر اُس کے ساتھ ڈٹ جانے کی صورت میں جدوجہد کا کریڈٹ تو بہر کیف پائیں گے۔ یہ کریڈٹ بھی کم نہیں۔ وقت کے خلاف جانے کا معاملہ یہ ہے کہ سفر ہی کو منزل سمجھ لیا جائے۔
مصنوعی ذہانت کی آمد سے ہر شعبہ خطرناک تیزی سے بدل رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں درجنوں شعبوں سے ملازمتیں بہت تیزی کے ساتھ ختم ہوں گی۔ دنیا بھر میں بے روزگاری کا سیلاب سا آنے والا ہے۔ معیشتیں پہلے ہی کساد بازاری کا شکار ہیں۔ ترقی اور استحکام تو دور کا معاملہ رہا‘ بہت سے ممالک کے لیے تو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کا چیلنج سر اٹھائے کھڑا ہے۔ جہاں بقا کی فکر لاحق ہو وہاں کون ہے جو مقابلے کا سوچے۔ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں بھی جدید ترین ٹیکنالوجیز کے ہاتھوں شدید اُلجھن کا شکار ہیں۔ اُنہیں بھی میدان میں رہنا ہے۔ مقابلہ اُن کے لیے بھی آسان نہیں۔ عوام کی بہبود کے لیے زیادہ کر پانا اُن کے لیے بھی دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں بہت آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کہاں کھڑے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پسماندہ ممالک کے بارے میں تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہیں کھڑے ہیں۔ وہ ترقی و استحکام کی دوڑ سے کب کے الگ ہوچکے ہیں۔ اُن کے لیے تو بقا ہی سب کچھ رہی ہے مگر اب بقا کے بھی لالے پڑے ہیں۔
پسماندہ ممالک میں ٹیکنالوجیز کے ہاتھوں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ مستقبل کے لیے کچھ نہ کچھ سوچا جائے، ابھی سے منصوبہ سازی کی جائے۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے ترقی و استحکام کی منزل تک پہنچنا بہت مشکل ہے کیونکہ منصوبہ ساز ذہنیت دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ عام آدمی ہو یا ادارے یا پھر حکومت‘ سبھی وقتی حل تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ دیرپا حل تلاش کرنے کی ذہنیت کو پروان چڑھانے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ کسی بھی معاملے میں صرف کام چلانے کا چلن عام ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز نے اب بقا کی گنجائش بھی صرف اُن کے لیے چھوڑی ہے جو بقا کے حقدار ہوں۔ محض تماشا دیکھنے والوں کے لیے اب یہاں زیادہ دیر ٹھہرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں آنے والے بے روزگاری کے سیلاب کے حوالے سے ابھی سے بہت کچھ سوچنا ہے ورنہ سبھی کچھ غرقاب ہو رہے گا۔ حکومت کو فوری متوجہ ہوکر تدارک کے بارے میں ابھی سے کچھ کرنا پڑے گا۔ نئی نسل کو اس حوالے سے راہ نمائی بھی درکار ہے اور حوصلہ افزائی بھی۔ یہ سب کچھ تیزی سے کیا جانا ہے۔