وطن سے نکلنے اور کہیں اور آباد ہوکر کچھ کر دکھانے کا بخار نئی نسل کو ایسا چڑھا ہے کہ اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ کیا واقعی یہ معاشرہ ایسا گیا گزرا ہے کہ اس سے پیار کیا ہی نہ جائے؟ کیا واقعی اہلِ وطن اس قابل نہیں کہ ان کے درمیان جیا جائے؟ کیا واقعی باقی دنیا اس قدر شاندار ہے کہ اپنے وطن کو کچھ سمجھا ہی نہ جائے؟ سوال اور بھی بہت ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم کس سوال کا کیسا جواب چاہتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے ؎
سر پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اُسے ملی جو وطن سے نکل گیا
بات درست ہے مگر ایک خاص حد تک! وطن سے نکلنے پر عزت ملتی ہے مگر یہ مقام سب کے لیے نہیں ہوا کرتا۔ سوال یہ ہے کہ جو وطن سے نکل کر کہیں جارہا ہے اور کچھ کر دکھانے کا متمنی ہے اُس میں کچھ ہے بھی یا نہیں۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ اپنے وطن میں کچھ نہیں کر پاتے تو کسی نہ کسی طور‘ توڑ جوڑ کرکے‘ اِدھر اُدھر سے پیسوں کا بندوبست کرکے بیرونِ ملک جاتے ہیں اور پھر وہاں سے بھی ناکام و نامراد لوٹتے ہیں۔ اِس طور کہیں جانے سے بہتر ہے اپنے وطن میں کچھ کیا جائے۔ آج کی دنیا میں کہیں اور آباد ہونا انتہائی دشوار بھی ہے اور انتہائی آسان بھی۔ آسان اس اعتبار سے کہ قابلیت اور کام کرنے کی لگن کے حامل افراد کے لیے مواقع کی کمی نہیں۔ دنیا بھر میں بیروزگاری بڑھ رہی ہو تب بھی ہنرمند کے لیے کہیں بھی بیروزگاری نہیں ہوتی۔ بیروزگاری کا عذاب بالعموم انہیں جھیلنا پڑتا ہے جو اپنے آپ کو جاب مارکیٹ کے لیے تیار نہیں کرتے۔ کسی بھی ہنرمند کے لیے بیروزگاری کا عذاب اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ کسی نہ کسی طور کام ڈھونڈ کر گزارہ کر ہی لیتا ہے۔ جو لوگ کوئی بھی ہنر نہیں سیکھتے اور صرف سادہ محنت کے ذریعے جینا چاہتے ہیں وہ پریشان رہتے ہیں۔ اور مشکل اس لیے کہ دیارِ غیر میں آباد ہونے کا مطلب ہے اُس معاشرے میں ضم ہونا اور یہ مرحلہ ہر ایک سے اچھی طرح طے نہیں ہو پاتا۔
دنیا بھر میں لوگ اپنے وطن سے نکل کر کہیں اور مقدر آزمانے کا رجحان رکھتے ہیں۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں یہ رجحان زیادہ قوی ہے کیونکہ تعلیم و تربیت یافتہ اور ہنرمند نوجوانوں کو اپنے ہاں معقول اور وافر دستیاب نہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کے بھی کچھ لوگ وطن سے دور کسی ایسے ملک یا خطے میں مقدر آزمانے کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کی لیاقت کے قدر دان ہوں اور معقول معاوضہ دیتے ہوں۔ پھر بھی یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی سوچ رکھنے والے زیادہ نہیں۔ ان کے لیے اپنی ہی سرزمین پر اچھے خاصے مواقع ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان کے لیے کہیں اور جانے میں زیادہ کشش نہیں ہوتی۔ پاکستان میں بیرونِ ملک جانے کا رجحان ویسے تو ابتدا ہی سے تھا مگر عمومی سطح پر تھا۔ 1970ء کے عشرے کے اوائل میں یہ رجحان اچانک قوی ہونا شروع ہوا۔ خلیجی ریاستوں میں تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع ہوا تو انہیں بڑے پیمانے پر افرادی قوت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ شمالی افریقہ کے علاوہ انہوں نے پاکستان سے بھی بڑے پیمانے پر افرادی قوت درآمد کرنا شروع کی۔ ابتدا میں چونکہ یہ جسمانی مشقت کا معاملہ تھا اس لیے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک سے زیادہ لوگ نہیں لیے گئے۔ جنوبی ایشیا میں بھی پاکستان اور بھارت کو ترجیح دی گئی۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے باشندے جسمانی اعتبار سے اتنے قوی نہیں ہوتے کہ تعمیرات اور ایسے دوسرے مشقت طلب شعبوں میں انہیں کھپایا جاتا۔
1980ء کے عشرے میں بھی بیرونِ ملک جاکر معقول معاشی مواقع تلاش کرنے کا رجحان قوی رہا۔ تب تک جسمانی مشقت کی زیادہ اہمیت تھی۔ اور پاکستان سے نکل کر مقدر آزمانے کے خواہشمند افراد کی اکثریت بھی جسمانی مشقت کی بنیاد پر کچھ کر دکھانے کو ترجیح دیتی تھی۔ بیرونِ ملک کام کرنے والوں کی بھیجی ہوئی رقوم (ترسیلاتِ زر) نے قومی معیشت کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور اب تک معاملہ یہ ہے کہ ترسیلاتِ زر پاکستانی معیشت کو زندہ رکھنے میں ایسا کردار ادا کر رہی ہیں کہ جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ غیر معمولی لیاقت کا حامل ہونے پر انسان اگر بیرونِ ملک جاکر کچھ کرنے کا سوچے، معاشی اعتبار سے قابلِ رشک زندگی یقینی بنانے کا خواہشمند ہو تو اِس میں غلط کچھ بھی نہیں۔ ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جانا چاہیے‘ وہ کرے۔ ہاں‘ چند امور کا خیال رکھتے ہوئے ایسا کیا جائے تو بہتر ہے۔ کسی بھی ملک کو معیاری افرادی قوت درکار ہوتی ہے۔ اگر اپنے ذرائع سے یہ کام نہ ہو پائے تو باہر دیکھا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا باقی دنیا سے پڑھے لکھے، تربیت یافتہ اور ہنرمند افراد کو بخوشی بلاتی ہے۔ اس کی معیشت کو بہتر حالت میں رکھنے میں درآمد شدہ افرادی قوت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ جو لوگ ترکِ وطن کرکے کسی اور معاشرے یا ریاست کی خدمت انجام دینا چاہتے ہیں اُنہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ کسی نہ کسی حد تک اپنے ملک کے نمائندے اور سفیر ہوتے ہیں۔ معاشی جدوجہد کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم زیادہ کمانے کے چکر میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے ملک بدنام ہو۔ اگر اپنے لیے بہتر معاشی امکانات تلاش کرنے کے عمل میں ملک کی بھی تھوڑی بہت نیک نامی ہو جائے تو کیا حرج ہے؟ ملک سے باہر جانے والے تمام پاکستانی ملک کی ساکھ بہتر بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اُن کے آجر اگر ان کی کارکردگی اور دیانت سے خوش ہوں گے تو پاکستان کو بھی اچھے لفظوں میں یاد رکھیں گے۔
بیرونِ ملک کام کرنے کے بہت سے معیاری طریقے ہیں۔ ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ انسان جب وطن سے نکل کر کہیں محنت کرے تو صرف محنت اور دیانت پرمتوجہ ہو، باقی تمام امور کو بھول جائے۔ وطن کی یاد بھی ستائے تو اس کیفیت کو برداشت کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ جاں فشانی سے اپنے لیے امکانات بہتر بنانے پر متوجہ رہا جائے۔ افرادی قوت ضرورت پڑنے پر درآمد کی جاتی ہے۔ جو لوگ ترکِ وطن کرنے کے خواہش مند ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ کسی بھی ملک کی معاشی ضرورت ہوسکتے ہیں‘ معاشرتی نہیں۔ کسی بھی معاشرے کو ہماری زندگی کے معاشرتی پہلو سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی۔ ہم اُس کی معاشی ضرورت سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایسے میں ہمیں بھی یاد رہنا چاہیے کہ ہمیں معاشی سطح پر زیادہ سے زیادہ بارآور ثابت ہونا ہے۔
انٹرنیشنل جاب مارکیٹ میں مسابقت غیر معمولی ہے۔ کمزور ممالک کے پاس زرِ مبادلہ کے حصول کا کوئی اور معقول ذریعہ نہیں۔ وہ معیاری افرادی قوت کی برآمد کے ذریعے اپنے لیے معاشی استحکام کا سامان کرتے ہیں۔ ایسے میں غیر معمولی مسابقت کا پایا جانا فطری امر ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے جو نوجوان بیرونِ ملک مقدر آزمانا چاہتے ہیں اُنہیں یہ نکتہ ہر وقت ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اُن کی جتنی بھی قدر و قیمت ہے وہ صرف اور لیاقت کی بنیاد پر ہے۔ کام دفتر کا ہو یا فیلڈ کا‘ جس میں جتنی بھی قابلیت ہوتی ہے وہ اُتنا ہی زیادہ معاوضہ پاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بھرپور لگن کا ہونا بھی ناگزیر ہے۔ جن میں جوش و خروش اور کام سے محبت دکھائی دیتی ہے وہ دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ خود کو اِس حوالے سے بھی تیار کرنا لازم ہے۔ ڈیڑھ‘ دو عشروں کے دوران پاکستان جن حالات سے دوچار رہا ہے اُن میں بھرپور معاشی ترقی کا ماحول پیدا کرنا تو ممکن نہیں رہا۔ بیرونی سرمایہ کاری بھی برائے نام ہے۔ ایسی حالت میں معیاری افرادی قوت کی برآمد کے سوا کوئی معیاری آپشن نہیں بچا۔ ترکِ وطن کرنے والوں کو پوری تیاری کے ساتھ ملک سے باہر قدم رکھنا چاہیے۔ ملک سے باہر اُن کے لیے صرف لیاقت اور لگن ہی رہ جاتی ہے جو آگے لے جاسکتی ہے اور لے جاتی ہے۔ اساتذہ اور والدین مل کر نئی نسل کو اس حوالے سے نفسی طور پر بہتر تیار کرسکتے ہیں۔ حکومت کو بھی متوجہ ہونا ہی چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو ''روایتی ذرائع‘‘ یعنی والدین اور اساتذہ کو یہ کام کرنا ہوگا۔ اور ہاں‘ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی خاصی رہنمائی کرسکتے ہیں۔