زندگی کا ہر معاملہ لین دین کی ذہنیت سے جُڑا ہوا ہے۔ کچھ دیجیے گا تو کچھ ملے گا۔ اور اگر کچھ مل جائے تو کچھ ضرور دیجیے۔ یہی دنیا کی رِیت ہے۔ اس معاملے میں کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ رعایت کی کوئی گنجائش ہی نہیں! تمام معاملات گھوم پھر کر لین دین کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو رہتے ہیں۔ یہ ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا تسلیم کرلیا جانا دانش اور حقیقت پسندی کی دلیل ہے اور اِس کا انسان کو فائدہ پہنچ کر رہتا ہے۔ کیا کوئی بھی معاملہ لین دین کی حدود سے باہر نہیں؟ چند ایک معاملات لین دین کی ذہنیت سے باہر ہو بھی سکتے ہیں اور ہوتے ہیں؛ تاہم اِس کے لیے ناگزیر ہے کہ غیر معمولی دانش اور تحمل کے بروئے کار لایا جائے۔ لین دین کے معاملات بدیہی طور پر مادّی زندگی سے مربوط ہوتے ہیں۔ غیر مادّی یا روحانی زندگی میں یہ ذہنیت بظاہر زیادہ کام نہیں کرتی مگر پوری حقیقت پسندی کے ساتھ سوچئے تو بالآخر یہی بات سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی طرزِ فکر و عمل، حتمی تجزیے میں، لین دین کی ذہنیت کے دائرے سے باہر نہیں۔
ہر انسان وقت کے معاملے میں یکساں نوعیت کا حامل ہے‘ یعنی سب کے پاس برابر کا وقت ہے۔ دنیا کا کوئی بھی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کا دن چوبیس گھنٹوں سے زیادہ یا کم کا ہوتا ہے۔ وقت کی تقسیم کے معاملے میں قدرت نے ایک ہی پیمانہ رکھا ہے۔ ہر انسان اپنی مرضی کے مطابق جو کچھ بھی کرنا چاہتا ہے اُس کے لیے اُسے وقت دیا جاتا ہے۔ یہ وقت اِتنا ہوتا ہے کہ انسان ڈھنگ سے جی لے‘ اپنی مرضی کے مطابق برت لے۔ کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے؟ کیا ہم اپنے وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لاکر معاملات کو درست کرنے کی ذہنیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ وقت کو اِس طور بروئے کار لاتے ہیں کہ اُس سے کچھ خاص حاصل نہیں ہو پاتا۔ وقت چاہتا ہے کہ ہم اُس کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ اور پُرعزم رہیں۔
ہر انسان کی جیب میں جتنا بھی وقت ڈالا گیا ہے وہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اضافے کی کوئی گنجائش ہے نہ سبیل۔ ہم کتنی ہی کوشش کرلیں‘ اپنے حصے کے وقت میں ایک لمحے کا بھی اضافہ نہیں کرسکتے۔ یہ معاملہ ہم سے انتہا درجے کی سنجیدگی اور منصوبہ سازی کا تقاضا کرتا ہے۔ وقت ہی روئے ارض پر ہمارے لیے سب سے بڑی حقیقت ہے کیونکہ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے اِس کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا ہے۔ وقت کا مزاج سمجھنا بھی ناگزیر ہے۔ وقت یعنی ہمارے اور دوسروں کے ملے جلے حالات۔ حالات اصلاً واقعات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اور حالات ہی کے معقول تجزیے کی بنیاد پر ہم وہ طرزِ فکر وعمل اختیار کرتے ہیں جو نئے اور مؤثر و نتیجہ خیز واقعات کی راہ ہموار کرتی ہے۔ وقت کے معاملے میں سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہماری جیب خالی ہوتی جارہی ہے۔ کسی کے ہاتھ میں یا بینک اکاؤنٹ میں اچھی خاصی رقم ہو تب بھی اُس سے بہتر طور پر مستفید ہونے کے لیے اُسے غیر معمولی سنجیدگی اور منصوبہ سازی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایسا کیے بغیر وہ معقول طرزِ زندگی کا حامل نہیں ہوسکتا۔
وقت سب کا ہے مگر کسی کا نہیں۔ وقت کے دامن میں ہمارے لیے کچھ بھی نہیں مگر اس میں دل چھوٹا کرنے والی کوئی بات نہیں کہ وقت کے پاس تو کسی کے لیے بھی کچھ نہیں۔ وہ تو خالص غیر جانبدار حیثیت کا حامل ہے۔ وقت کرنسی نوٹوں کی طرح ہوتا ہے۔ ہم اُس سے کچھ بھی خرید سکتے ہیں، کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ چاہیں تو اچھا کھائیں‘ اچھا پہنیں۔ اِس کے بعد بھی کچھ بچ رہے تو گھومیں پھریں اور وہ چیزیں خریدیں جو زندگی کا معیار بلند کرسکتی ہوں۔ اور اگر ایسا کچھ نہ کرنا چاہیں تو مزید کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ بھی مت کیجیے‘ وقت خود بخود گزر جائے گا یعنی ہم اُس سے کسی بھی حد تک استفادہ نہ کر پائیں گے۔
کیا آپ کو اپنے ماحول میں ایسے لوگ دکھائی نہیں دیتے جو وقت کے معاملے میں انتہائی لاپروا ہوتے ہیں؟ آپ یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتے کہ آپ نے وقت کو بُری طرح ضائع کرنے والے انسان نہیں دیکھے۔ ہمارے معاشرے میں ہر طرف ایسے لوگ بکثرت دکھائی دیتے ہیں جو قدم قدم پر بے ذہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت ضائع کرتے رہتے ہیں اور اِس پر شرمندہ ہونے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ وہ یہ محسوس ہی نہیں کرتے کہ اُن سے کوئی غلطی سرزد ہو رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وقت کا ضیاع محض غلطی نہیں بلکہ جرم اور گناہ ہے۔ گناہ اس لیے کہ یہ خداکی نافرمانی ہے اور جرم اس لیے کہ اِس سے معاشرے میں خرابی پید ہوتی ہے۔ کسی ایک انسان کے وقت ضائع کرنے سے معاشرے میں پیدا ہونے والی خرابی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا مگر جب ہم لاکھوں انسانوں کی طرف سے وقت کے ضیاع کے معاملے کا تجزیہ کرتے ہیں تب اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کا ضیاع کتنا بڑا جرم ہے۔ انسان کو وقت سے بطریقِ احسن مستفید ہونا صرف یہ احساس سکھا سکتا ہے کہ وقت گزرتا ہی نہیں جا رہا بلکہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ جیب خالی ہوتی جارہی ہے اور اُس کے دوبارہ بھرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ وقت واحد اکاؤنٹ ہے جس سے صرف نکالا جاسکتا ہے، اُس میں کچھ جمع نہیں کرایا جاسکتا۔ ہم زندگی کے تماشوں میں گم ہوکر وقت سے متعلق اِس انتہائی بنیادی حقیقت کو یکسر نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ ہر دور کے عام آدمی نے وقت کے معاملے میں شدید لاپروائی دکھائی ہے۔ جب زندگی انتہائی پُرسکون تھی، کسی معاملے میں بے جا تیزی نہ تھی اور لوگ آج سمجھ میں نہ آنے والے ٹھہراؤ کے ساتھ جیتے تھے تب بھی وقت کا ضیاع برا فعل تھا۔ یہ رجحان تب بھی قابلِ مذمت تھا۔ اہلِ دانش تب بھی یہی کہتے تھے کہ انسان کو وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ کچھ نہ کچھ ایسا کرتے رہنا چاہیے جس سے زندگی کے میلے کی رونق میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہو۔
آج وقت کا معاملہ ہم سے انتہائی درجے کی سنجیدگی اور منصوبہ سازی کا طالب ہے کیونکہ اس معاملے میں برتی جانے والی کوتاہی انسان کو شدید فکری و عملی پیچیدگی اور افلاس سے دوچار رکھتی ہے۔ دنیا کا ہر وہ انسان شدید پسماندہ ہے جو وقت کے حوالے سے سنجیدہ نہیں اور اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے بارے میں سوچتا نہیں رہتا۔ آج کی دنیا میں اِتنی تیزی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وقت گزرتا جاتا ہے اور ہم سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ہو کیا رہا ہے۔ یہ تیزی انسان کو کھارہی ہے۔ وقت کو ڈھنگ سے گزارا جائے تو یہ زندگی کی شادابی بڑھتی ہے اور اگر ڈھنگ سے بروئے کار نہ لایا جائے تو یہی وقت زندگی کا تیا پانچا کردیتا ہے۔ آج کی دنیا ہر اعتبار سے اِتنی عجیب ہے کہ جو چار‘ پانچ عشروں سے اِس کا حصہ ہیں وہ بھی سمجھ نہیں پاتے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے۔ ایسے میں سب سے بڑا مسئلہ وقت سے متعلق طرزِ فکر و عمل کو درست رکھنا ہے۔ یہ کام ایسا آسان نہیں کہ سوچئے اور ہو جائے۔ اس کے لیے خاصی ریاضت درکار ہوتی ہے اور وہ بھی مستقل نوعیت کی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وقت کو بروئے کار لانے کے لیے درکار معقول ذہنیت کی ضرورت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ کوئی بھی انسان اب اس بات کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا کہ وقت کے معاملے میں شدید بے نیازی اور لاپروائی پر مبنی رویے کا حامل ہو۔ وقت کے معاملے میں سارا کھیل ہی یہ ہے کہ اِسے بروئے کار لانے کا ہنر سیکھا جائے۔ ویسے اب یہ ہنر نہ سیکھنے کی آپشن ہے ہی نہیں۔ اب تو سیکھنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ آج کی دانش کا تقاضا یہ ہے کہ انسان وقت کو زر و مال کے درجے میں نہ رکھے۔ زر و مال اگر سارا کا سارا خرچ یا ضائع ہو جائے تب بھی مزید حاصل کیا جاسکتا ہے، کمایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر وقت ضائع ہو جائے یا اُس سے کماحقہٗ استفادہ نہ کیا جاسکے تو انسان صرف کفِ افسوس ملتا رہ جاتا ہے اور کبھی کبھی تو اِتنا بھی نہیں ہو پاتا۔ جیب خالی ہوتی جا رہی اور اُسے دوبارہ بھرنے کا امکان نہ ہو تو جس قدر احتیاط لازم ہے وہ نہ برتی جائے تو صرف تباہی مقدر بنتی ہے۔ آج کے بیشتر انسانوں کا یہی المیہ ہے۔ آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلی جارہی ہیں اور اِس پر کوئی شرمندگی بھی نہیں۔