آج فیض صاحب بہت یاد آ رہے ہیں۔ فیض صاحب اور ان کی دعا
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
فیض صاحب نے تو یہ نظم کسی اور حوالے سے کہی تھی۔ ہم اسے ایک اور حوالے سے یاد کر رہے ہیں۔ ہم گڑگڑا کے دعا مانگ رہے ہیں کہ اے پاک پروردگار، اے رب العالمین، ہمارے کپتان کی یہ خواہش پوری کر دے کہ سمندر سے گیس اور تیل کے اتنے ذخیرے برآمد ہو جائیں کہ ہم دنیا میں کسی کے بھی محتاج نہ رہیں۔ ہماری اپنی گیس ہو اور اپنا تیل۔ اور ہمارے ملک میں دولت کی لہر بہر ہو جائے۔ ہمارے کپتان نے کتنے ہفتے بعد یہ خوش خبری سنانے کا وعدہ کیا تھا؟ ہم وہ تو بھول گئے ہیں‘ لیکن وعدہ ہمیں یاد ہے۔ پانچ چھ ہفتے نہ سہی دس پندرہ ہفتے ہی سہی۔ مگر سمندر سے گیس اور تیل تو نکل آئے۔ ہم انتظار کر رہے ہیں اس وقت کا جب اپنے کپتان کی خواہش پوری ہو جائے گی۔ یہ کپتان کی ہی خواہش نہیں ہے بلکہ پوری قوم کی خواہش بھی ہے۔ یہاں ہمیں یاد آیا کہ ہندو دیو مالا میں سمندر کو ہی تو بلویا گیا تھا (جس طرح مکھن نکالنے کے لیے دہی کو بلویا جا تا ہے) تو اس میں سے کئی دیوی دیوتا نکلے تھے۔ اور پھر وہاں سے امرت بھی نکل آیا تھا۔ ''امرت منتھن‘‘ کے نام سے اس پر بہت اچھی فلم بن چکی ہے۔ فلم میں سمندر سے امرت نکلتا ہے۔ وہ امرت فلم کا مرکزی کردار پی لیتا ہے اور وہ امر ہو جاتا ہے۔ اب دنیا کی کوئی طاقت اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس امرت سے اسے یہ قوت بھی حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ موٹی سے موٹی دیوار کے پار بھی دیکھ سکتا ہے۔ اب اگر ہمارے سمندر سے گیس اور تیل کے ذخیرے برآمد ہو جاتے ہیں تو ہمارے کپتان بھی نا قابل تسخیر ہو جائیں گے۔ اور یہ بلا شبہ نیک شگون ہو گا۔ اس کے بعد ہمارے کپتان کو پچاس ہزار مکان بنانے اور پچاس لاکھ نوکریاں دینے کا موقع بھی مل جائے گا۔ ویسے، اس دعا میں ہماری اپنی خود غرضی بھی شامل ہے۔ یہ جو بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے وہ پوری قوم کو سانس لینے کا موقع بھی نہیں دے رہی ہے۔ گیس اور بجلی کے نرخ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں 'خوش خبری‘ سنا دی گئی ہے کہ اپریل سے بجلی کا فی یونٹ نرخ اور بھی بڑھ جائے گا۔ گیس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کے سلیب اس طرح مقرر کیے جائیں گے کہ بڑے چھوٹے سب ایک نرخ پر گیس حاصل کریں گے۔ اب اگر یہ سلیب اسی طرح مقرر کیے گئے جن پر پچھلے دو مہینے سے عمل ہو رہا ہے تو شاید ہمیں مٹی اور اینٹوں کے چولہے پر لکڑیاں اور گائے بھینس کے گوبر کے اپلے جلانا پڑیں گے۔ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے ہم یہی تو جلاتے تھے۔ لیکن ابھی خیال آیا کہ جن دنوں ہمارے گھروں میں لکڑیاں اور اپلے جلائے جاتے تھے ان دنوں لکڑی اتنی سستی تھی کہ سو دو سو روپے مہینہ کمانے والا بھی اسے برداشت کر سکتا تھا۔ اب تو معلوم نہیں لکڑی کیا بھائو ہے۔ اور شہروں میں گوبر کے اپلوں کا تو تصور بھی نہیں کیا سکتا۔ گیس اور بجلی مہنگی ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے استعمال کی ہر چیز مہنگی ہو جائے۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی کھانے پینے کی چیزیں بھی مہنگی ہو جائیں گی۔ پہلے ہی وہ کہاں سستی ہیں۔ بھلا کوئی سوچ سکتا ہے کہ مونگ پھلی جیسی چیز دو ڈھائی سو روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔ پھلوں میں اگر بیر کو پھل شمار کیا جا سکتا ہے تو کسی زمانے میں بیر جیسا پھل مفت ہی مل جاتا تھا۔ ہر گھر میں اور کوئی پیڑ ہو نہ ہو‘ امرود اور بیری کا پیڑ ضرور ہوتا تھا۔ اب غریب آدمی بیر جیسا نام نہاد پھل بھی نہیں کھا سکتا۔ کہتے ہیں ایک لڑکا کسی پھل والے کے پاس گیا اور کہا ''بھائی ایک روپے کے بیر دے دو‘‘ پھل والا بولا ''چل یہاں سے، ایک روپے کی تو چپیڑ بھی نہیں ملتی‘‘۔ تو صاحب، ہم چپیڑ بھی نہیں کھا سکتے‘‘۔ اور ہمارے وزیر اعظم ہیں کہ خوش خبری پر خوش خبری سنائے چلے جا رہے ہیں۔ غریبوں کی مدد کے لیے ایک نئی وزارت تخلیق کرنے کی خوش خبری سنائی جا رہی ہے۔ غریبوں کو بکریاں اور مرغیاں دینے کے اعلان کیے جا رہے ہیں۔ جہاں تک غریب گھرانوں کو مرغیاں دینے کا تعلق ہے۔ یہ مرغیاں واقعی دی گئی ہیں۔ بلکہ ہم نے تو ٹی وی پر دیکھا کہ مرغیاں لینے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور مرغیاں کم پڑ گئی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ خوش خبریاں سنانے والوں نے کبھی بازار میں قدم رنجہ فرما کر بھی دیکھا ہے؟ یہ ہم نہیں کہتے۔ کاروباری لوگ کہتے ہیں۔ کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ خریدار اب سوچ سمجھ کر چیزیں خریدتا ہے کیونکہ جس حساب سے مہنگائی بڑھ رہی ہے‘ اس حساب سے عام آدمی کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ ہم جب بھی کاروبار کی اس مندی کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں جواب ملتا ہے کہ آپ ہر شام گلبرگ اور ڈیفنس کے علاقوں میں چلنے والے ہوٹلوں کی طرف نظر کیجئے۔ ہر ہوٹل بھرا ہوا نظر آ تا ہے‘ لیکن کاروباری آدمی کہتا ہے کہ یہ کھاتے پیتے لوگوں کی وہ اقلیت ہے جو کاروبار کے فروغ کے لیے کافی نہیں ہے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ایک مشہور و معروف ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ ان کے مریضوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ پہلے ذرا سی بیماری کے لئے بھی اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی طرف دوڑ لگائی جاتی تھی۔ اب ان ڈاکٹروں کی فیس ادا کرنے سے پہلے کئی بار سوچا جاتا ہے۔ پچھلے سات مہینے میں بار بار خوش خبری سنائی گئی کہ باہر کے سرمایہ کار پاکستان آ رہے ہیں۔ کئی ملکوں کے سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سرمایہ لگانے کے لیے معلومات حاصل کرنا شروع کر دی ہیں مگر ابھی تک ان میں ایک بھی سرمایہ کار کسی کو دکھائی نہیں دیا۔ اب یہ یاد دلا کر زخموں پر نمک چھڑکنا اچھا نہیں لگتا کہ ہمیں خوش خبری سنائی گئی تھی کہ ہمارے بدعنوان لوگوں نے جو اربوں روپے باہر کے ملکوں میں جمع کر رکھے ہیں، وہ بہت جلد پاکستان کے خزانے میں آ جا ئیں گے۔ ابھی تک تو باہر جمع کی ہوئی دولت کا ایک پیسہ بھی پاکستان نہیں آیا۔ بلکہ اب لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ کرپشن کے ذریعے باہر جو سرمایہ جمع کیا گیا ہے‘ اسے پاکستان لانے کے نام پر کتنا سرمایہ خرچ کیا جا چکا ہے اور برابر خرچ کیا جا رہا ہے؟ اس سرمائے کی تفتیش کر نے والے باہر کے کتنے دورے کرتے ہیں؟ معلوم نہیں کسی نے اس کا حساب رکھا ہے یا نہیں۔
بہرحال ہم نے تو دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے ہیں۔ فیض صاحب کے بقول ہم بھی ان لوگوں میں سے ہیں‘ جنہیں رسم دعا یاد نہیں۔ مگر پھر بھی ہم پاک پروردگار کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں۔ اورگڑگڑ ا کر دعا مانگ رہے ہیں کہ اے پتھر کے اندر بھی کیڑے کو غذا مہیا کر نے والے رب ہمارے سمندر سے تیل اور گیس نکال دے۔ ایک بار ہمیں اپنی گیس اور اپنا تیل مل جائے تو پھر ہم مہنگائی بھی برداشت کر لیں گے۔ یہاںہر قسم کا کاروبار چل نکلے گا‘ اور ہر فرد کی آمدنی میں اضافہ بھی ہو جائے گا۔ ہم کسی سے قرض نہیں لیں گے۔ حتیٰ کہ ہمیں آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔
آئیے ہم سب مل کر دعا مانگیں۔ اگر اور کہیں سے ہمیں مدد کی توقع نہیں ہے تو ہمارا سمندر ہی ہماری توقع پوری کر دے۔ ہمارے کپتان کو اس کی توقع ہی نہیں ہے بلکہ پورا یقین بھی ہے۔ اور جہاں یقین ہو وہاں کامیابی بھی یقینی ہو جاتی ہے۔ اور ہاں، سمندر پر یاد آیا کہ ہمارے وزیر اعظم نے گوادر کے سمندر کا کھاری پانی پینے کے لائق بنانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ چونکہ نمکین پانی کو پینے کے لائق بنانا انتہائی مہنگا کام ہے‘ اس لئے بھی سمندر سے تیل اور گیس کا ملنا بہت ضروری ہے۔