افتخار عارف نے یہ شعر کب کہا تھا؟ ہمیں تو یاد نہیں۔ یہ بھی نہیںکہا جا سکتا کہ آج افتخار عارف کو بھی یہ شعر یاد ہو گا یا نہیں؛ البتہ دلی سے ایک اور اچھے شاعر عبید صدیقی نے یہ شعر ہمیں بھیجا ہے۔ شعر آپ بھی پڑھ لیجئے۔
پتھر پر سر رکھ کر سونے والے دیکھے
ہاتھوں میں پتھر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
عبید صاحب کو یہ شعر کیوں یاد آیا ہے؟ ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ شاید ان کے ہمارے دکھ مشترک ہوں۔ لیکن صاحب، ہمارے دکھ ہمارے دکھ ہیں۔ ان کے دکھ سیاسی ہیں۔ مگر ہمارے دکھ سیاسی اور سماجی کے ساتھ معاشی بھی ہیں۔ اب ہمارے یہاں ہاتھوں میں پتھر دکھائی دیتے ہیں یا نہیں۔ لیکن ہمارے اپنے آس پاس جو ہو رہا ہے اس سے نظر یہی آتا ہے کہ ہمارے ملک کے کرتا دھرتا عام لوگوں کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔ وہ ایک کے بعد ایک کام ایسا کر رہے ہیں جس سے عام لوگوں میں بے چینی پیدا ہو اور بڑھے۔ مہنگائی اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ غریب آدمی کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔ ڈالر جس تیزی سے ہمارے روپے کو پیچھے چھوڑتا چلا جا رہا ہے، خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں ہمارا حال بھی اس انڈونیشیا والا ہی نہ ہو جائے جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔ مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ انہیںفکر ہے تو یہ کہ ہمارا فلاں مخالف ابھی تک جیل سے باہر کیوں ہے۔ نعرہ ہے ''میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ کون کہتا ہے انہیں چھوڑ دیں۔ ضرور پکڑیں۔ سب کو پکڑیں۔ مگر یہ تو بتائیں کہ اس بدنصیب ملک کی قسمت بدلنے کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟ بہت پہلے کسی نے کہا تھا کہ ہماری آمدنی آدھی رہ گئی ہے۔ آج ہم ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ ہماری آمدنی آدھی سے بھی آدھی رہ گئی ہے۔ دال، سبزی، گوشت، چینی آٹا سب کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ہم روتے ہیں کہ ہمارے بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ ان کی بڑھوتری کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب اگر انہیں پوری غذا نہیں ملے گی تو آپ ہی بتا دیجئے، کیا صحت مند قوم کہیں باہر سے لائیں گے؟ یہ غریب کی بات نہیں ہے، متوسط طبقے کی بات ہے۔ وعدے ہیں۔ ہم یہ کر دیں گے۔ ہم وہ کر دیں گے۔ کیسے کر دیں گے؟ کہاں سے کر دیں گے؟ خوشخبری سناتے ہیں کہ بس ایک ہفتے کی بات ہے۔ سمندر سے تیل نکل آئے گا۔ اتنے کھرب روپے کا ٹیکس جمع کر لیا جائے گا۔ بیرون ملک جمع کی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی۔ جن صاحب کو بیرون ملک سے یہ رقم واپس لانے کے لئے ملازم رکھا گیا ہے۔ ذرا حساب تو لگائیے اب تک ان پر کتنا خرچ ہو چکا ہے؟ اور وہ مسلسل خرچ کئے جا رہے ہیں۔ کہاں ہے وہ دولت جو آپ کے بقول ان لٹیروں نے دوسرے ملکوں میں اکٹھی کر رکھی ہے؟ سب لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالنے سے کیا یہ رقم ہمیں مل جائے گی؟ اب تک تو ایسا نہیں ہوا۔ پچھلی حکومتوں کی طرح آپ نے بھی ایمنسٹی سکیم شروع کی ہے۔آپ ہر دوسرے دن ٹیلی وژن پر آ کر قوم سے خطاب کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ رات کے بارہ بجے بھی آپ نے اس ملک کے عوام سے خطاب کیا۔ کیا یقین تھا کہ آپ کی تقریر دل پذیر سننے کے لیے ساری قوم اپنی نیندیں حرام کرے گی؟ پھر ان خطابوں میں کوئی نئی بات بھی تو نہیں ہوتی۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہو گا کہ ایک خطاب ریکارڈ کرا لیا جائے اور وہ بار بار نشر کیا جاتا رہے؟ کبھی تو قوم کو رحم آ جائے گا‘ اور وہ آپ کی بات مان لے گی۔ اب آپ ایک اور شوق پورا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پچھلی حکومتوں نے جو قرض لیے ہیں ان کی تحقیق اور تفتیش کے لیے کمیشن بنایا جائے گا۔ یہ معلوم کیا جائے گا کہ ان حکومتوں نے جو قرض لیے وہ کہاں خرچ کئے گئے؟ اب جاننے والے کہہ رہے ہیں کہ یہ معلوم کرنے کے لیے کمیشن یا کمیٹی بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کی وزارت خزانہ میں سارے اعداد و شمار موجود ہیں۔ اور پھر آج کل جو آپ کے مشیرِ خزانہ ہیں‘ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے۔ وہ تو آپ کے قریب ہی بیٹھے ہیں۔ جو کچھ پوچھنا ہے ان سے کیوں نہیں پوچھ لیتے؟ خیر، اپنے مخالفوں کو جیلوں میں ڈالنے کا جو شوق ہے وہ بھی پورا کر لیجئے اور کمیشن بنانے کا شوق بھی پورا کر لیجئے کہ یہ آپ کی خواہش ہے۔ آج کل جیلیں بھرنے کا جو شوق پورا کیا جا رہا ہے، اس پر ہمیں بھٹو صاحب کی حکومت کے وزیر جیل خانہ جات یاد آ گئے۔ اس وقت ان کا نام یاد نہیں آ رہا ہے۔ ایک جلسے میں وہ زور وشور سے تقریر کر رہے تھے۔ اسی زوروشور میں انہوں نے اعلان کیا کہ ملک بھر میں جیلوں کا جال پھیلا دیا جائے گا۔ تو آج کل ہم بھی ملک بھر میں جیلوں کا جال پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ گرفتاریاں حکومت تو نہیں کر رہی ہے۔ یہ تو نیب کا کام ہے۔ درست فرمایا‘ لیکن یہ جو آپ کی حکومت کے چھوٹے بڑے وزیر صبح شام اطلاع دیتے رہتے ہیں کہ اب فلاں کی باری ہے‘ اور اب فلاں کی باری ہے، تو انہیں یہ معلومات کون فراہم کرتا ہے؟
پنکج مشرا بہت ہی مشہور و معروف سوشل سائنٹسٹ ہیں۔ ہیں تو ہندوستانی‘ مگر رہتے انگلستان میں ہیں۔ انہوں نے انگریزی میں ایک خاصی ضخیم کتاب لکھی ہے۔ کتاب کا عنوان ہے: Age of Anger: A history of the Present ۔ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ اس کا عنوان ہے ''غصے کا عہد‘‘۔ یہ کتاب جلد ہی چھپ بھی جائے گا۔ کتاب میں اٹھارہویں صدی سے لے کر اب تک کے سیاسی اور فکری رجحانات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔اور ان تمام سیاستدانوں، حکمرانوں اور لکھاریوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کسی نہ کسی طرح اپنے عہد پر اثر انداز ہوئے۔ کتاب میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں غصے اور نفرت کی بنیاد پر جو سیاست کی گئی ہے اس کا وہ نتیجہ برآمد ہوا‘ جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔ پنکج مشرا نپولین سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی سیاست اور ان کی حکمرانی تک اپنا تجزیہ لائے ہیں‘ اور ہمیں دکھایا ہے کہ ''دیکھو، اب دنیا میں کیا ہو رہا ہے‘‘۔ یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔ اب ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ کتاب ہمارے آج کے حکمرانوں کو بھی پڑھنا چاہیے کیونکہ کتاب اور پڑھنے لکھنے سے ان جو تعلق ہے‘ اس کا اندازہ آپ اس بات سے ہی لگا سکتے ہیں کہ ان کے خیال میں جاپان اور جرمنی پڑوسی ملک ہیں، اور گولان یا جولان کی جو پہاڑیاں اسرائیل کے قبضے میں ہیں وہ فلسطین کی ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ یہ پہاڑیاں فلسطین کو واپس کی جائیں۔
خیر صاحب، ہم نے تو افتخار عارف کے ایک شعر سے اپنی بات شروع کی تھی۔ اور اپنے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا پتھر پر سر رکھ کر سونے والے ‘ پتھر اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے؟ حالات جس نہج پر جا رہے ہیں ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ بے چین ہیں۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ بتانے والا کوئی نہیں ہے کہ پکڑ دھکڑ سے نہ پہلے کبھی مسائل حل ہوئے اور نہ اب ہوں گے۔ ہماری تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے۔ عام آدمی کو اس کی ضرورت کی چیزیں مہیا کیجئے۔ یہ روزمرہ کی چیزیں عام آدمی کی دسترس میں ہونا چاہئیں۔ آپ یہ کام کر دیجئے اور پھر عمر بھر حکومت کرتے رہیے۔ آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا بلکہ پوری قوم آدھی رات کو بھی آپ کے خطاب بڑے ذوق و شوق سے سنے گی‘ اور آپ کی جے جے کار ہو گی۔ اس سے بھی بڑھ کر عوام آپ کو اگلی مدت کے لیے منتخب کر لیں گے۔
عام آدمی کو اس کی ضرورت کی چیزیں مہیا کیجئے۔ یہ روزمرہ کی چیزیں عام آدمی کی دسترس میں ہونا چاہئیں۔ آپ یہ کام کر دیجئے اور پھر عمر بھر حکومت کرتے رہیے۔ آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا بلکہ پوری قوم آدھی رات کو بھی آپ کے خطاب بڑے ذوق و شوق سے سنے گی‘ اور آپ کی جے جے کار ہو گی۔ اس سے بھی بڑھ کر عوام آپ کو اگلی مدت کیلئے منتخب کر لیں گے۔