"MAC" (space) message & send to 7575

کتابیں، انعام اور طوطے کا پنجرہ

ہمارے ہاں ایک کتاب کتنی تعداد میں چھپتی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں؟ ''مرنے کے بعد کیا ہو گا؟‘‘ جیسی کتابوں کو جانے دیجئے کہ ہم اپنی زندگی میں کچھ کرنے سے زیادہ مرنے کے بعد کی زندگی کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ اور ان لکھنے والوں کی بات بھی نہ کیجئے جو بہت ہی عام پسند ہیں۔ باقی کتابیں پانچ سو سے زیادہ نہیں چھپتیں‘ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ پانچ سو کی تعداد بھی بہت خوش قسمت لکھنے والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ عام طور پر ہر کتاب دو ڈھائی سو سے زیادہ نہیں چھپتی۔ اور یہ جو آپ سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاںکتاب کا دوسرا اور تیسرا ایڈیشن شا ئع ہو گیا‘ اس کی وجہ اس کتاب کی یہی تعداد ہے۔ اب اس کتاب سے لکھنے والے کو کیا ملتا ہے؟ یہ نہ پوچھیے۔ ایک دو ناشروں کے سوا کوئی بھی ناشر لکھنے والے کو صرف چند کتابیں دے دیتا ہے کہ لو، ہم تمہاری کتاب چھاپ رہے ہیں۔ احسان کر رہے ہیں تمہارے اوپر۔ یہ تو ان لکھنے والوں کا قصہ ہے جو کسی نہ کسی حد تک جانے پہچانے جاتے ہیں۔ باقی لکھنے والے کتاب چھپوانے کے لیے خود پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اور یہ جو آپ کو شہروں شہروں اور قصبوں قصبوں کتابوں کے ناشر نظر آتے ہیں‘ ان کا کاروبار ہی یہ ہے کہ اپنی کتاب چھپوانے کے شوقین لکھنے والوں سے پیسے لے کر ان کی کتاب چھاپتے ہیں۔ اس ساری کتھا کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ وطن عزیز میں کتاب چھپوانا صرف اپنا شوق ہی پورا کرنا ہے۔ اس سے مالی منفعت کی توقع رکھنا فضول ہے۔ یہ ہم ادبی کتابوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ ادبی کتابیں، یعنی افسانے، ناول اور شعروشاعری وغیرہ۔ کتنی ہی کم تعداد میں کتاب چھپے‘ اسے کچھ پڑھنے والے مل ہی جاتے ہیں۔ بس یہی لکھنے والے کا معاوضہ ہوتا ہے۔ بھول جائیے اس حقیقت کو کہ مہذب دنیا میں افسانے اور ناول لکھنے والے اپنی کتابوں سے کتنا کماتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں عالمی شہرت یافتہ اور نوبیل انعام پانے والے امریکی ناول نگار سال بیلو کی برسی منائی گئی۔ اس موقع پر اس کے بیٹے نے بتایا کہ اس کے باپ نے اپنی زندگی میں جو پہلا مکان بنایا‘ وہ اپنے ناول ''Herzog‘‘ کی آمدنی سے بنایا تھا۔ وہ ناول لاکھوں کی تعداد میں چھپا تھا‘ اور کئی سال اس کے ایڈیشن شائع ہوتے رہے تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی ایک دو ادیب ایسے ہیں اور ایسے رہے ہیں جو اپنی کتابوں پر ہی گزارہ کرتے ہیں۔ لیکن کسی نے اپنے کتابوں کی آمدنی سے اپنا مکان بنایا ہو؟ ہمیں تو اس کا علم نہیں؛ البتہ ہمارے پڑوسی ملک میں ہندی اور انگریزی میں لکھنے والے ایسے ناول نگار ہیں جو اپنی کتابوں کی آمدنی پر ہی گزارہ کرتے ہیں۔ وہاں ہندی اور انگریزی کی کتابیں ہزاروں اور لاکھوں میں چھپتی ہیں۔ آپ صرف ارون دتی رائے کو ہی دیکھ لیجئے۔
اب اگر ان حالات میں لکھنے والوں کو چند اداروں کی طرف سے ان کی کتابوں پر انعام مل جاتے ہیں تو اس سے جہاں ان کی کچھ مالی معاونت ہو جاتی ہے‘ وہاں ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ دنیا میں تو یہ ہوتا ہے کہ جس کتاب کو ایوارڈ یا انعام ملتا ہے اس کی فروخت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسا ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ ہمیں نہیں معلوم۔ خدا کرے ایسا ہوتا ہو۔ پاکستان میں ہر سال چند اداروں کی جانب سے کتابوں پر انعام دئیے جاتے ہیں۔ ان میں اکادمی ادبیات تو سرکاری ادارہ ہے۔ اس کے علاوہ پروین شاکر ٹرسٹ بھی انعام دیتا ہے‘ لیکن یہ انعام خاص طور سے بچوں کے لئے ہوتے ہیں۔ نجی کاروباری اداروں میں ایک بینک گزشتہ آٹھ سال سے یہ فرض ادا کر رہا ہے۔ اب تک تو اس کی جانب سے اردو اور انگریزی کی ادبی اور غیر ادبی کتابوں اور ترجموں پر انعام دئیے جاتے تھے، لیکن اس سال اس نے کسی بھی ادیب کی عمر بھر کی کمائی پر کمالِ فن ایوارڈ دینے کی بنیاد بھی ڈالی ہے۔ یہ کمالِ فن ایوارڈ اکادمی ادبیات کی طرف سے بھی دیا جاتا ہے۔ اب اس بینک نے بھی یہ روایت اپنا لی ہے؛ چنانچہ اس سال زہرا نگاہ کی شاعری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ انگریزی میں بچوں کے لئے لکھی جانے والی بہترین کتا ب Partition پر انعام دیا گیا ہے۔ اس کی مصنف امینہ اظفر ہیں۔ اردو میں بچوں کی بہترین کتاب کا انعام مرحوم شان الحق حقی کی کتاب ''نظمیں، پہیلیاں، کہہ مکرنیاں‘‘ پر دیا گیا ہے۔ اردو ادب سے تھوڑا بہت واسطہ رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ ہم بچپن سے جو پہیلیاں اور کہہ مکرنیاں سنتے اور پڑھتے چلے آ رہے ہیں‘ وہ امیر خسرو سے منسوب کی جاتی ہیں۔ اب یہ کتنی امیر خسرو کی ہیں اور کتنی ان کے بعد کہہ کر ان سے منسوب کر دی گئی ہیں؟ اس کے بارے میں ادب کے محقق ہی کچھ کہہ سکتے ہیں؛ البتہ ان قدیم پہیلیوں اور کہہ مکرنیوںکی روایت کو آ گے بڑھایا شان الحق حقی مرحوم نے۔ بلا شبہ یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ یہ پہیلیاں اور کہہ مکرنیاں اصل میں بچوں اور بڑوں کی ذہانت کا امتحان ہوتا تھا۔ ہمارے بچپن میں ہمارے بڑے ایک پہیلی سنا کر کہتے تھے ''بوجھو تو جانیں‘‘ اور ہم اپنا دماغ لڑا کر وہ پہیلی بوجھ لیتے تھے۔ یا پھر ہار مان لیتے تھے۔ اور ہمارے بڑے بتا دیتے تھے کہ یہ پہیلی کیا کہتی ہے۔ ہمیں افسوس یہ ہے کہ حقی صاحب کے بعد یہ روایت پھر ختم ہو گئی۔ اردو میں بچوں کے رسالے اب بھی نکلتے ہیں‘ لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں پہیلیاں اور کہہ مکرنیاں ہوتی ہیں یا نہیں۔ کیا ایسی پہیلیاں اور کہہ مکرنیاں کہنے کے لئے بہت بڑا دماغ چا ہیے؟ ایسے دماغ تو ہمارے ہاں موجود ہیں۔ پھر کیا ہوا؟ ادھرکسی کی توجہ کیوں نہیں جاتی؟
ہم ایک بینک ایوارڈ کا ذکر کر رہے تھے اور نکل گئے پہیلیوں اور کہہ مکرنیوں کی طرف۔ اس سال اردو میں بہترین ترجمہ کا انعام منور حسن کے حصے میں آیا۔ انہوں نے ''دور افتادہ شہر سے ایک طویل نظم‘‘ کے عنوان سے رفعت عباس کی طویل سرائیکی نظم کا اردو میں ترجمہ کیا ہے‘ گویا اس لحاظ سے سرائیکی زبان کی حیثیت کا اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ نظموں کی بہترین کتاب کا انعام فہمیدہ ریاض کے شعری مجموعے ''تم کبیر‘‘ کو دیا گیا۔ یہ فہمیدہ ریاض (جنہیں مرحوم کہنے کو جی نہیں چاہتا) کا آخری شعری مجموعہ ہے۔ ان کی صاحب زادی ویرتا نے یہ انعام وصول کیا۔ فکشن کی بہترین کتاب کا انعام اختر رضا سلیمی کے ناول ''جندر‘‘ کو ملا۔ جندر کو اردو میں پن چکی کہتے ہیں۔ وہی پن چکی جس کے بارے میں اسمٰعیل میرٹھی نے کہا ہے ''نہر پر چل رہی ہے پن چکی‘ دھن کی پو ری ہے کام کی پکی‘‘ اس ناول کا پس منظر ہمارے وہ پہاڑی علاقے ہیں جو اردو ادب میں بہت کم نظر آتے ہیں۔ انگریزی کی کتاب The Faltering State پر سابق پولیس افسر طارق کھوسہ صاحب کو انعام دیا گیا ۔ اردو تنقید کا انعام ہمارے نامور نقاد اور افسانہ نگار ناصر عباس نیر کی کتاب ''اس کو ایک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں‘‘ پر دیا گیا۔ اس کتاب میں میرا جی کو نئے سرے سے دریافت کیا گیا ہے۔ اور میرا جی کو اردو کا پہلا جدید شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔
لیجئے، ہم ایوان صدر کے طوطے اور اس کے لاکھوں کے پنجرے کو تو بھولے ہی جا رہے ہیں۔ خبر چھپی کہ پنجرے کے لیے لاکھوں روپے کے ٹینڈر طلب کئے گئے ہیں۔ اخباروں میں ہنگامہ ہوا تو یہ ٹینڈر واپس لے لئے گئے۔ کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اس پنجرے کی کہانی کیا ہے؟ یہ ہم آپ کو بتائے دیتے ہیں۔ اس طوطے اور پنجرے کا موجودہ صدر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ پنجرہ ضیاالحق کی میراث ہے۔ سات آٹھ فٹ اونچے اور پانچ چھ فٹ چوڑے اس پنجرے میں وہ ننھے منے طوطے پلے ہوئے ہیں جنہیں لو برڈ کہا جاتا ہے۔ یہ پنجرہ ملتان میں بھی ضیاالحق کے گھر میں موجود تھا‘ اور جب وہ فوج کے سربراہ بن کر راولپنڈی پہنچے تو یہ پنجرہ وہاں بھی ان کے ساتھ آیا۔ ہم نے یہ پنجرہ ان کے پنڈی والے گھر میں دیکھا تھا۔ وہ صدر بنے تو ظاہر ہے یہ پنجرہ بھی ایوان صدر پہنچ گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ضیاالحق کی ایک بیٹی ذہنی طور پر معذور ہے۔ یہ ننھے منے طوطے اور یہ پنجرہ اسی بیٹی کے لیے بنوایا گیا تھا۔ اور اب یہ ایوان صدر کا حصہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں