پچھلے کالم میں ہم نے علامہ اقبال کے شعر کا دوسرا مصرع لکھ دیا تھا۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ پہلا مصرع نہیں لکھا تھا کہ اس وقت اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی۔ لیکن ادھر وہ کالم چھپا اور ادھر پہلے مصرع کی ضرورت پیش آ گئی۔ تو صاحب، اس شعر کا پہلا مصرع ہے 'سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں‘۔ خاص طور سے یہ جو قدرت کا کارخانہ پاکستان ہے، اس میں تو سکون بالکل ہی محال ہے۔ ایک تماشہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا تماشہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک سکینڈل بند نہیں ہوتا کہ دوسرا سکینڈل سامنے آ جاتا ہے۔ کسی کے سان و گمان بھی نہیں تھا کہ ایک جج صاحب کی ویڈیو اور ان کا آڈیو اس طرح سامنے آئے گا کہ کئی دن ہو گئے ہیں‘ سوائے اس ویڈیو اور آڈیو کے، اور کسی موضوع پر بات ہی نہیں ہو رہی۔ ہر مبصر اور تجزیہ کار نئی سے نئی تجویزیں دے رہا ہے۔ نئے نئے پہلو سامنے آرہے ہیں۔ پہلے حکومت سے کہا جا رہا تھا کہ وہ اس کی تفتیش کرائے اور حکومت کے وزیر بھی اس بارے میں بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہے تھے۔ لیکن اچانک عمران خاں نے کہہ دیا کہ حکومت کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گویا انہوں نے اس سے اپنا دامن چھڑا لیا۔ عدلیہ کی جانب سے بھی ابھی تک کوئی اشارہ نہیں ملا کہ ان کی سطح پر کوئی تحقیق اور تفتیش کرائی جائے گی یا نہیں۔ ہو سکتا ہے یہ کالم چھپنے تک ادھر سے کوئی خبر آ جائے۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ اس سکینڈل کی تحقیق تو دور کی بات، الٹا احتساب عدالت نے مریم نواز کو طلب کر لیا ہے۔ الزام تو کچھ اور ہیں لیکن اس وقت مریم کو عدالت میں طلب کرنا بہت ہی معنی خیز نظر آ تا ہے۔ انہیں جن الزامات میں طلب کیا گیا ہے‘ ایسے ہیں جن پر کافی لمبی سزا ہو سکتی ہے۔ اور یہ عدالت وہی ہے جس کا سکینڈل سامنے آیا ہے۔گویا ویڈیو کا معاملہ پھر لٹکا دیا گیا ہے۔ ہر شخص کہہ رہا ہے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ ایک جج اور عدالت کا معاملہ ہے۔ بدنامی پوری عدلیہ کی ہو رہی ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کو تو فوراً قدم اٹھانا چاہیے تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا نہیںکیا گیا۔ اب ہم مریم نواز کو عدالت میں کھڑا دیکھیں گے۔ خیر، تحقیق تو نیب کے چیئرمین کے اس انٹرویوکی بھی ہونا چاہیے جو انہوں نے ایک سینئر صحافی اور کالم نگار کو دیا تھا۔ وہ صحافی ابھی تک اپنی بات پر قائم ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس انٹرویو کی تحقیق کیوں نہیں کرائی گئی۔ اس کے بارے میں ابھی تک چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ اس انٹرویو سے نیب کے چیئرمین کی شہرت پر جو حرف آیا اسے ختم کر نے کے لیے چیئرمین صاحب کو خود ہی اس کی تحقیق کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو شکوک و شبہات جنم لیں گے۔ اب یہ سمجھ لینا کہ اس قسم کے نہایت سنگین معاملات کو اس طرح نظر انداز کر کے انہیں سات پردوں میں چھپا لیا جائے گا تو اس سے زیادہ خوش فہمی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ عام آدمی کی یادداشت اتنی کمزور بھی نہیں کہ اتنے سنگین واقعات انہیں یاد ہی نہ رہیں۔ وہ انہیں بار بار یاد آتے رہیں گے۔ چاہے جتنا بھی چھپانے کی کوشش کی جائے۔
اور تحقیق تو اس خبر کی بھی ہونا چاہیے کہ روس کے صدر پیو ٹن نے ہمارے وزیر اعظم عمران خان کو کسی کانفرنس میں مدعو کیا ہے۔ مدعو کیا ہے اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا ہے۔ یہ خبر ایک بار نہیں، کئی بار، بڑے زور و شور سے ہمارے اخباروں اور ٹیلی وژن چینلز کی زینت بنتی رہی ہے۔ حتیٰ کہ اس میں نمک مرچ لگانے کے لیے بار بار کسی دوسری کانفرنس کی تصویریں بھی دکھائی جاتی رہیں۔ ان تصویروں میں عمران خان روسی صدر پیوٹن کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہے ہیں۔ اور اب خبر آئی ہے کہ روسی صدر کی طرف سے مہمان خصوصی تو کیا، عام مہمان کی حیثیت سے بھی عمران خاں کو کسی کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔ یہ کیسے ہوا؟ اور کیوں ہوا؟ تحقیق کرنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ خبر آئی کہاں سے ؟ اور یہ کس کے زرخیز دماغ کی اختراع ہے؟ اور ایسی خبر کیوں دی گئی جس کی فوراً ہی تردید بھی سامنے آ گئی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمران خاں کے ساتھ پاکستان کی بھی بے عزتی نہیں ہے؟ عمران خاں صاحب کو پاکستان کی نیک نامی کے لیے ہی اس خبر کی تحقیق کرانا چاہیے۔ ساری دنیا میں ہمارا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ٹھیک ہے۔ یہ اچھی خبر ہے کہ عمران خاں امریکہ جا رہے ہیں اور پورے تام جھام کے ساتھ جا رہے ہیں۔ اب اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ دعوت کس قسم کی ہے؟ امریکی صدر کی طرف سے غیر ملکی مہمانوں کو جو دعوت دی جاتی ہے وہ چار قسم کی ہوتی ہے۔ ایک ہوتی ہے‘ State visit دوسری ہوتی ہے official visit تیسری ہوتی ہے working visit اور چوتھی ہوتی ہے private visit ۔ ان چاروں کے الگ الگ درجے ہیں۔ اب عمران خاں صاحب کو کس درجے کی دعوت دی گئی ہے؟ اسے بھول جائیے۔ یہ یاد رکھیے کہ امریکی صدر نے ہمارے وزیر اعظم کو دعوت دی ہے۔ عمران خاں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ ان سے بات چیت کریں گے۔ ہمارے لیے یہی کافی ہے۔
لیجئے، اب معلوم ہوا کہ عمران خاں کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں امریکی مصنفہ آین رینڈ کا حوالہ دے کرثابت کیا ہے کہ انہوں نے اور کسی کو پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو آین رینڈ کو ضرور پڑھا ہے۔ انہوں نے اس کے ایک قول کا ذکر بھی کیا ہے۔ لیکن کیا انہوں نے یہ بھی غور کیا ہے کہ وہ جس ریاست مدینہ کا نام لیتے ہیں آین رینڈ کا فلسفہ تو ریاست مدینہ کے اس نظام کے بالکل ہی خلاف ہے۔ مدینے کی وہ ریاست اجتماعی فلاح و بہبود کے فلسفے پر قائم تھی۔ اور آئن رینڈ کا فلسفہ ''خود غرضی اور ہر آدمی کی ذاتی خوشی اور مسرت پر قائم ہے‘‘۔ وہ کہتی ہے کہ انسان کی اخلاقی زندگی کا مقصد اس کی اپنی (ذاتی) خوشی اور مسرت ہونا چاہیے۔ اسے وہ حقیقت پسندانہ انفرادیت پسندی کہتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ذاتی خوشی اور طمانیت کے راستے میں کسی قسم کی مذہبی یا سیاسی رکاوٹ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کہتی ہے ''انسان کی خودی یا ''ایگو‘‘ انسانی ترقی کا سر چشمہ ہے‘‘۔ یوں تو انگریزی ادب کی اعلیٰ کتابوں یا اعلیٰ ناولوں میں آین رینڈ کا نام کہیں نہیں آتا اور انگریزی ادب کے سنجیدہ نقاد اس کے ناولوں کا ذکر تک نہیں کرتے، لیکن اس کی کتابیں آج بھی بہت بکتی ہیں۔ کسی زمانے میں تو وہ باقاعدہ فیشن بن گئی تھیں۔ برسوں پہلے کی بات ہے ہمارے پاکستان ٹیلی وژن پر اس کے ناول Fountainhead کی بنیاد پر ڈرامہ بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ جہاں تک ہمیں یاد ہے یہ ڈرامہ راحت کاظمی نے پیش کیا تھا۔ ویسے تو اس کے تین چار ناول ہیں لیکن دو ناول Fountainhead اور Atlas Shrugged بہت ہی مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں، یا اس کی وکالت میں اس کی کئی کتابیں ہیں۔ یہاں ہمیں آین رینڈ کے فلسفے یا اس کے ناولوں سے غرض نہیں ہے۔ ہم تو عمران خان صاحب سے سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ ریاست مدینہ کے اجتماعی فلاح و بہبود کے نظام میں اور انفرادی خود غرضی اور ذاتی منفعت کے حصول کے نظام میں کوئی فرق نہیں سمجھتے؟ کیا یہ تضاد نہیں ہے؟ معاف کیجئے، یہاں ہم خواہ مخواہ کس بحث میں پڑ گئے۔ عمران خاں کو اتنی فرصت ہی کہاں ہے کہ وہ اس قسم کے فلسفیانہ مباحث میں سر کھپائیں۔ انہوں نے ریاست مدینہ کا ذکر سن لیا تو وہ اس کا ورد کرنے لگے۔ کہیں سے بیچ میں یہ آین رینڈ آ گئی تو اس کا حوالہ دینے لگے۔ اسی لیے تو ہم نے عرض کیا تھا کہ انسان کو ایسے میدان میں قدم نہیں رکھنا چا ہیے جس کے تمام کونوں کھدروں سے اسے اچھی طرح واقفیت نہ ہو۔ آپ سیاست کر رہے ہیں، سیاست کرتے رہیے۔