"MAC" (space) message & send to 7575

اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں

کیا زمانے تھے‘ جب ہم برسات کا انتظار کیا کرتے تھے۔ برسات آئے گی تو کالی کالی گھٹائیں چھائیں گی‘ چھم چھم مینہ برسے گا۔ باغوں اور گھروں کے کچے آنگنوں میں جھولے پڑیں گے۔ لڑکیاں جھولا جھولیں گی، ملہاریں گائیں گی۔ چھا رہی کالی گھٹا جیا مورا لہرائے ہے۔ یا پھر چراغ حسن حسرت یاد کریں گے 'باغوں میں پڑے جھولے... تم بھول گئے ہم کو... ہم تم کو نہیں بھولے‘۔ اور محسن کاکوروی کہیں گے: سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل... برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگا جل۔ گھر گھر پکوان پکیں گے۔ پوریاں، کچوریاں، گلگلے اور دال سیو۔ اور سب مل جل کر کھائیں گے۔ اور اب زمانہ یہ ہے کہ برسات کا نام سنتے ہی خوف آنے لگتا ہے۔ گلیاں اور سڑکیں ندی نالے بن جاتی ہیں۔ خبریں آتی ہیں کہ فلاں محلے میں چھت گر گئی، اتنے زخمی ہو ئے، اور اتنے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ فلاں علاقے میں اتنے مکان زمیں بوس ہو گئے۔ اتنے خاندان بے گھر ہو گئے۔ لاہور شہر اب ایک شہر نہیں رہا ہے۔ ایک شہر کے کئی شہر بن گئے ہیں۔ ایک شہر میں بارش ہوتی ہے تو دوسرا شہر خشک رہتا ہے۔ لیکن ایسا وقت بھی آتا ہے جب اس شہر کے تمام علاقوں میں بارش ہوتی ہے۔ اور پھر پورا شہر جیسے بارش کے پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ یہ ہم پرانے محلوں کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ نئے علاقوں کا حشر بھی وہی ہوتا ہے جو پرانے محلوں کا ہوتا ہے۔ کمر کمر نہیں تو گھٹنوں گھٹنوں پانی تو ہر سڑک پر ضرور کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ ہم اپنے ڈیفنس کی بات کر رہے ہیں۔ والٹن روڈ سے آپ ڈیفنس کی طرف روانہ ہوں تو آپ کو بلا مبالغہ تیر کر وہ سڑک پار کرنا پڑتی ہے۔ وہاں تو کاریں بھی اس طرح چلتی دکھائی دیتی ہیں جیسے کشتیاں چل رہی ہوں۔ موٹر سائیکل والوں کا حال تو کچھ نہ پوچھیے۔ جگہ جگہ موٹر سائیکلیں آ گے چلنے سے انکار کر دیتی ہیں اور غریب مو ٹر سائیکل والا بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنا کھڑا ہوتا ہے۔ ڈیفنس سے پہلے سڑک کے گرد جو بڑی بڑی دکانیں ہیں، ان کے سامنے تو پانی ایسے لہریں مارتا نظر آ تا ہے جیسے سمندر۔ ڈیفنس کے اندر بھی پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ یہی حال گلبرگ، گارڈن ٹائون، جوہر ٹائون اور اقبال ٹائون کا ہوتا ہے۔ یہ لاہور کے نئے علاقے ہیں۔ پرانے علاقوں کا کیا حال ہوتا ہے؟ وہ آپ عاصم بٹ سے پوچھ لیجئے۔ اردو ادب میں اندرون لاہور کی زندگی کو ایک جیتا جاگتا کردار عاصم بٹ ہی بناتے ہیں۔ ہم نے کسی ٹی وی چینل پر سنا کہ یہ ہے شہباز شریف کا شہر۔ ارے بھائی شہباز شریف کو تو اس لاہور سے گئے دس گیارہ مہینے ہو گئے۔ ان کے بعد آنے والوں نے اس طرف توجہ کیوں نہیں کی۔ کیا انہیں علم نہیں تھا کہ جب برسات آتی ہے اور چھاجوں مینہ برستا ہے تو اس شہر کا یہی حال ہو جاتا ہے۔ انہوں نے برسات کے پانی کے نکاس کا کیوں نہیں سوچا بلکہ اس مرتبہ تو پیش گوئی کر دی گئی تھی کہ بارشیں بہت زیادہ ہوں گی۔ بہرحال اور کوئی انتظام ہوا ہو یا نہ ہوا ہو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی یہ تصویر اخباروں اور ٹی وی چینلز کی زینت ضرور بن گئی کہ وہ خود اپنی کار چلاتے ہوئے پانی میں ڈوبی سڑکوں کا معائنہ فرما رہے ہیں۔
ہم نے اوپر برسات کے موسم میں گھر گھر پکائے جانے پکوانوں کا ذکر کیا ہے۔ اب یہ پکوان اور جھولے اور ملہاریں کہانیوں اور داستانوں کا حصہ ہی رہ گئی ہیں۔ وقت کے ساتھ ہمارے شوق اور ہماری ضرورتیں بدلتی رہتی ہیں۔ اب نہ وہ گھر ہیں جن میں جھولے ڈالے جائیں۔ اور نہ وہ گھر والیاں ہیں جنہیں پکوان کا شوق ہو۔ جھولے کی جگہ موبائل اور ٹیلی وژن نے لے لی ہے۔ اور جب بازار میں اچھے پکوان مل جاتے ہوں تو گھر میں محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور پھر ہم نے عرض کیا ناں، کہ اب برسات بھی تو رحمت کے بجائے زحمت بن گئی ہے۔ اب تو دعا مانگا کرتے ہیں کہ یا اللہ، بارشیں بند کر دے۔ گھر سے باہر قدم رکھتے ڈر لگتا ہے۔ یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ راستے میں کہیں کوئی پیڑ یا کوئی کھمبا ہمارے سر پر نہ گر جائے۔ اور پھر اس مملکت خدا بخش (مملکت خدا داد کے بجائے یہ ترکیب ہمارے فارسی کے استاد معین نظامی صاحب نے اختراع کی ہے) میں ہمیں ہر وقت مصروف رکھنے اور پریشان کرنے کے لیے اور بھی تو بہت سے واقعات اور خبریں ہیں۔ ''یہ سب چور ہیں، ڈاکو ہیں، لوٹ کر کھا گئے اس ملک کو۔ جب تک ان سے پیچھا نہیں چھوٹے گا اس وقت تک یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔‘‘ سویرے آنکھ کھلتی ہے تو اسی '' بکھان‘‘ پر اور رات کو آنکھ بند ہوتی ہے تو اسی بیان پر۔ ہمیں تو ترس آنے لگا ہے ان وزیروں، مشیروںاور پرستاروں پر جن کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اس وظیفے کا ورد کرتے رہیں۔ ہمارے ایک دوست نے یاد دلایا کہ جو لوگ گلی کوچوں میں آوازیں لگا کر گھریلو سامان بیچا کرتے تھے، اب تو انہوں نے بھی خود آواز لگانا بند کر دی ہے اور اپنی آواز ریکارڈ کرا لی ہے۔ اب وہ سائیکل پر چلتے ہوئے خود بولنے کی تکلیف نہیں کرتے بلکہ ریکارڈ کی ہو ئی آوازچلا دیتے ہیں۔ اس حکومت کے وزیروں، مشیروں اور پرستاروں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ بھی صبح شام اپنے گلے اور پھیپھڑوں کا امتحان لینے کی زحمت نہ کریں۔ جو کہنا ہے وہ ایک بار ریکارڈ کرا لیں۔ اور ٹیلی ویژن پر دن رات سناتے رہیں۔ ظاہر ہے وہ کوئی نئی بات تو کرتے نہیں یا کرتی نہیں۔ یہی تو کہتے یا کہتی ہیں کہ ''یہ سسلی والا مافیا پورے ملک کو لوٹ کر لے گیا۔ کھا گیا اس قوم کی دولت، کچھ نہیں چھوڑا اس نے۔ کنگال کر دیا اس نے اس مملکت خدا بخش کو‘‘۔ لفظوں کا ہیر پھیر تو ہو سکتا ہے لیکن مفہوم اور مقصود ایک ہی ہوتا ہے۔ انہیں ٹیلی وژن پر آنے کے لیے بھاری بھاری میک اپ کرانا پڑتا ہے۔ نئے نئے کپڑے پہننا پڑتے ہیں۔ ہر چینل پر آنے کے لیے انہیں مختلف پوز بنانا پڑتے ہیں۔ اس لیے بہتر نہیں ہو گا کہ ایک ہی بار یہ و ظیفہ ریکارڈ کرا لیں اور دن رات اسے چلاتے رہیں؟ خس کم جہاں پاک۔ ہم بھی خوش، آپ بھی خوش۔ اب ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ شیطان کی طرح مشہور ناول ''گاڈ فادر‘‘ کو پہلی بار اردو ترجمے کے ذریعے متعارف کرانے والے رئوف کلاسرا ہیں۔ جج صاحب نے تو اس کا تذکرہ بعد میں کیا۔ اور ہاں،کیا مسلمانوں کو یاد ہے کہ یہ وہی سسلی ہے جس پر مسلمانوں کی حکومت رہ چکی تھی؟
اب یہ تو طے ہو چکا ہے کہ یہاں اور کوئی نہیں رہے گا۔ صرف ہم رہیں گے۔ اپنے راستے میں آنے والے ایک ایک شخص اور ایک ایک خاندان کا صفایا کر دیا جائے گا۔ ابھی ایک الزام سے فرصت نہیں ملتی کہ دوسرا الزام سامنے آ جاتا ہے۔ کبھی پاکستان کے اندر سے اور کبھی پاکستان کے باہر سے۔ پاکستان سے باہر جھانکنے کے لیے کئی ایسے اخبار ہیں جو ہمارا مقصد پورا کر سکتے ہیں۔ یہ وہ اخبار ہیں جو انگلستان میں ہر ٹیوب سٹیشن اور بسوں کے ہر اڈے پر ریک میں پڑے ہوتے ہیں کہ جس کا جی چاہے مفت اٹھا کر لے جائے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ یہ اخبار مفت تقسیم ہوتے ہیں یا باقاعدہ فروخت ہوتے ہیں۔ ہماری غرض تو یہ ہے کہ وہ ہمارا مقصد پورا کرتے ہیں۔ وہ آپ نے سنا ہے ناں ''جاٹ رے جاٹ، تیرے سر پہ کھاٹ‘‘ جواب ملا ''تیلی رے تیلی تیری سر پہ کولہو‘‘۔ کسی نے کہا، بھائی، قافیہ نہیں ملا۔ جواب ملا ''قافیے کی ایسی تیسی‘ تیلی بوجھ سے تو مرے گا‘‘۔ تو ہماری ساری کوششیں اور ساری توانائیاں اسی میں صرف ہو رہی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کولہو کے بوجھ سے تیلی کی کمر توڑی جائے۔ لیجئے۔ ہم چلے تھے برسات اور چھاجوں برسنے والے مینہ سے اور آ گئے تیلی کے کو لہو پر۔ کڑکتی چمکتی کالی کالی گھٹائیں ہمیں ڈراتی ہیں۔ اور سسلی والے مافیا کے الزام ہمارے مخالفوں کی نیندیں حرام کرتے ہیں۔ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں